عالم نقوی
یہ پوری دنیا کا بنیادی مسئلہ ہے۔ لیکن ہماری موجودہ حکومت شاید اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ کرپٹ، سب سے زیادہ بے ایمان اور سب سے زیادہ عوام دشمن حکومت ہے۔ مثال کے طور پر بلٹ ٹرین ہی کا معاملہ لے لیجیے۔بھارت کی طرح تھائی لینڈ نے بھی حال ہی میں بنکاک سے اپنی سرحد پر تین ہزار کلو میٹر دور واقع جنوبی چین کے شہر ’ کُنمِنگ ‘ تک بلٹ ٹرین چلانے کے لیے چین کے ساتھ ساڑھے پانچ ارب ڈالر یعنی قریب چار سو ارب روپئے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جبکہ احمد آباد سے ممبئی تک کے محض پانچ سو چونتیس کلو میٹر کے فاصلے کے لیے مودی حکومت نے جاپان کے ساتھ جس بلٹ ٹرین کا معادہ کیا ہے اس کی مجموعی لاگت ایک لاکھ دس ہزار کروڑ روپئے ہے !بنکاک۔ کنمنگ بلٹ ٹرین 2012 تک چلنا شروع ہو جائے گی جبکہ ممبئی۔ احمد آباد بلٹ ٹرین 2022 تک چل سکے گی !ان دونوں منصوبوں کے فرق کو سمجھنے کے لیےعلم ا لحساب یا اقتصادیات کا ماہر ہونے کی ضرورت نہیں ۔ ایک عام آدمی بھی بد عنوانی کے اس سمندر کی گہرائی اور کرپشن کے اس ہمالے کی اونچائی کا اندازہ لگا سکتا ہے !
جاپان نے یہ منصوبہ منموہن سنگھ کی سابق کانگریس حکومت کے سامنے بھی پیش کیا تھا لیکن غیر ضروری طور پر مہنگا ہونے کے باعث ہی مسترد کر دیا گیا تھا جسے نریندر مودی نے جاپان کے وزیر اعظم کو احمد آباد میں گلے لگا کر منظور کر لیا۔ کیونکہ ان کی جیب سے تو کچھ جا نہیں رہا تھا۔ گلا تو بھارت کے غریب اور سادہ لوح عوام ہی کا کٹنا تھا، کٹنا ہے اور آئندہ بھی کٹتا رہے گا !
کون نہیں جانتا کہ آدھار کارڈ کا غیر دانشمندانہ اور اور جی ایس ٹی کا ظالمانہ اور عوام دشمن منصوبہ جب کانگریس نے پیش کیا تھا تو نریندر مودی سمیت سنگھ پریوار کے لیڈروں نے اُسے کسی قیمت پر منظور نہیں ہونے دیا تھا۔اور عوام نے خوچ ہوکر انہیں اقتدار سونپ دیا تھا۔ مودی کی تقریروں کے ویڈیو اور پرنٹ، دونوں کے ریکارڈ موجود ہیں ۔ لیکن مودی نے اِن دونوں منصوبوں کو’ نوٹ بندی ‘کے اُتنے ہی اَحمقانہ، غریب دشمن اور عوام دشمن تیسرے منصوبے کے ساتھ نافذ کر کے ثابت کر دیا ہے کہ بد عنوانی کی شہنشاہیت کا تاج بھی وہ اپنے ہی سر رکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ دیش اور دنیا کے مٹھی بھر قارونوں اور فرعونوں نے اُنہیں اور سنگھ پریوار کے تھوڑے سے لوگوں کو اِس عوام دشمن خدمت کے بدلے میں جو فائدے پہنچائے ہیں اور مستقبل کے لیے جو وعدے کیے ہیں وہ بھی اَب ایک کھلا راز(اُوپن سیکرٹ ) ہے !
مودی جی اپریل 2017 میں صرف ڈیڑھ گھنٹے کے لیے صاحب گنج( جھارکھنڈ )گئے تھے۔ ریاستی حکومت نے اُن کے اِس دَورِے پر پورے نَو کروڑ روپئے خرچ کردیےجس میں اُن کے ناشتے کھانے کا خرچ صرف 44 لاکھ روپئے تھا ! مطلب یہ کہ خود کو فقیر کہنے والے پردھان منتری کے دورہ جھارکھنڈ پر فی منٹ بیس ہزار روپئے خرچ کیے گئے !
اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ملک کے مشہور ماہر اقتصادیات ارجن سین گپتا کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ملک کی 77 فی صد آبادی بیس روپئے روز بھی نہیں کما پا رہی ہے ! ایک اور ایسی ہی رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک کے ہزاروں لاکھوں کسانوں کی خود کشی کا بڑا سبب یہ ہے کہ کھیتوں سے اُن کی آمدنی ان کی لاگت سے دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔ فی ا لواقع اُن کی آمدنی دس روپئے روز بھی نہیں رہ گئی ہے ! وہ قرض لے کے فصل تیار کرتے ہیں جس کا معاوضہ انہیں لاگت سے زیادہ کون کہے بیشتر لاگت کے برابر بھی نہیں ملتا۔
دوسری طرف عوام سبزی اور اناج کی روز بروز آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں سے پریشان ہیں ۔ سارا فائدہ بچولیے اور آڑھتی اُٹھاتے ہیں ۔ کسان بھوکے مر رہے ہیں یا خود کشی کر رہے ہیں یا زراعت کے دھندے سے توبہ کر کے اپنی زمینیں بد عنوان بلڈروں اور قارون صفت صنعت کاروں کے ہاتھ بیچ کر شہروں کی جھگی جھونپڑیاں آباد کررہے ہیں ۔
مسئلہ صرف یہ ہے کہ عوام کی نگہداشت اور اُن کے فلاح و بہبود کی ذمہ دارحکومتیں اپنے فرائض کی ادائگی کے بجائے اُنہیں لوٹنے کا کام کر رہی ہیں اور اُنہیں بے وقوف بنانے اور اُلجھائے رکھنے کے لیے اُن کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کر رہی ہیں ۔ اور ’نان اِشوز ‘ کو اِشوع بنا کر ان کا استحصال کر رہی ہیں ۔
لہٰذا کرپشن کے خلاف جنگ کے بغیر اَب دنیا کی نوے فی صد آبادی کو اس عذاب سے نجات ممکن نہیں ۔ فھل من مدکر ؟
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)