-
تبلیغی جماعت پھر سرخیوں میں، گزشتہ سال سے سبق لینے کی ضرورت
- سیاسی
- گھر
تبلیغی جماعت پھر سرخیوں میں، گزشتہ سال سے سبق لینے کی ضرورت
732
M.U.H
15/04/2021
0
0
تحریر:سید خرم رضا
گزشتہ سال کے مقابلہ وبا کی صورتحال زیادہ تبدیل نہیں ہوئی ہے ہاں خوفناک ضرور ہوئی ہے۔ جہاں تھالی، تالی اور چراغاں کرنے کی بات نہیں کہی جا رہی وہیں لاک ڈاؤن لگانے کا فیصلہ اب ریاستی حکومتیں کر رہی ہیں اور لاک ڈاؤن نافذ کرنے سے پہلے لوگوں کو ایک دو دن کی مہلت ضرور دی جا رہی ہے۔ مرکزی وزارت صحت کی جانب سے روز شام کو چار بجے پریس کانفرنس کا چلن بھی گزشتہ سال شروع میں چلا تھا اس کے بعد سے یہ بھی ختم ہو گیا تھا۔
کورونا وبا پر مرکز اس مرتبہ گزشتہ سال کی طرح زیادہ متحرک نظر نہیں آ رہی۔ ایک سی بی ایس ای بورڈ پر مرکز اور مرکزی حکومت کی قیادت کرنے والے وزیر اعظم تھوڑا متحرک نظر آئے لیکن باقی معاملوں پر تھوڑا خاموشی ہی ہے۔ اس کی ایک وجہ مغربی بنگال کےانتخابات ہو سکتے ہیں جہاں بر سر اقتدار جماعت بی جے پی کو کامیابی کی کچھ امیدیں نظر آ رہی ہیں اور اس کی ترجیح ابھی وہی ہے۔ دوسرا یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت کے پاس یہ معلومات ہو کہ اس سال کورونا وبا کی شدت زیادہ ہو سکتی ہے اس لئے اس مرتبہ تھالی، تالی اور موم بتی کی بات نہ کر کے ریاستی حکومتوں کو اپنے طور پر فیصلہ لینے دیا جائے تاکہ ریاستوں کی خود مختاری کی بات بھی ہو جائے اور وبا کے پھیلاؤ کو لے کر ریاستیں ہی صورتحال کا سامنا کرتی رہیں۔
مہاجر مزدوروں کےچہروں پر ایک مرتبہ پھر خوف کا سایہ صاف دکھائی دے رہا ہے، تاجر برادری کے ماتھوں پر پریشانیوں کی شکن نمایاں ہے، نوجوان ایک بار پھر گھروں میں قید رہنے سے خوفزدہ ہیں، عبادت گاہیں ایک مرتبہ پھر ویران سی نظر آ رہی ہیں اور رکشہ چلانے سے جوتا ٹھیک کرنے والے تک پریشان نظر آ رہے ہیں۔ ٹیکسی، کیب، ہوٹل اور ریستوران والوں کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا ۔ طلباء اور کھلاڑیوں کی دنیا تو پوری طرح اجڑ ہی گئی ہے۔ کورونا کی طرح مہنگائی ضرور بڑھ رہی ہے اور جس کا کوئی حل بھی نظر نہیں آ رہا۔
گزشتہ سال ان دنوں تبلیغی جماعت اور اس کا نطام الدین میں واقع مرکز ٹی وی چینل، اخبار اور سوشل میڈیا کی زیادہ اور غیر ضروری توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ ٹی وی کے کچھ اینکر تو تبلیغی جماعت کو غدار، ملک دشمن اور نہ جانے کیا کیا کہہ رہے تھے۔ جو زہر میڈیا اور سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا اس کا اثر لوگوں کے عمل میں صاف نظر آ یا۔ لوگوں نے ایک خاص طبقہ کے لوگوں سے نہ صرف ضروری سامان خریدنا بند کر دیا بلکہ ان پر اپنے علاقوں اور گلیوں میں گھسنے پر بھی پابندی لگا دی۔ میڈیا کے اس غیر ذمہ دار رویہ کی وجہ سے سماج پوری طرح منقسم نظر آیا۔ حکومت کی خاموشی نے اس آگ کے پھیلنے میں مدد کی۔ وقت بدلا وبا نے خوفناک شکل اختیار کی اور وبا وہاں پھیلی جہاں سماج کےاس طبقہ کا کوئی ذکر بھی نہیں تھا پھر سماج کے اس طبقہ نے آگے بڑھ کر جس طرح سب کی مدد کی اس نے سوچ کو تبدیل کیا اور میڈیا کے ذریعہ پھیلائے گئے زہر کا اثر کچھ کم ہوا۔ اس سال پھر ان دنوں تبلیغی جماعت کا نطام الدین میں واقع مرکز سرخیوں میں ہے لیکن گزشتہ سال اس کو بند کیا گیا تھا اور اس سال عدالت نے اس کو کھولنے کا فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے اس میں محدود تعداد کے ساتھ نماز پڑھنے کی اجازت دے دی ہے۔
اس سال کمبھ کو لے کر بہت کچھ کہا جا رہا ہے لیکن گزشتہ سال کی طرح شدت کے ساتھ نہیں۔ کورونا وبا کے دوران کمبھ میں ضروری احتیاط نہ برتنے کے لئے مثبت اور لازمی تنقید کی جا رہی ہے لیکن یہ بہت اچھا ہے کہ زہر نہیں اگلا جا رہا۔ وجہ کچھ بھی ہو لیکن یہ ایک مثبت تبدیلی ہے۔ گزشتہ سال وبا کی یہ شکل پورے عالم کے سامنے پہلی مرتبہ آئی تھی جس کی وجہ سے ہر شخص خوفزدہ تو تھا ہی لیکن وہ ساتھ میں ڈاکٹر، جج، پولیس والا اور یہاں تک کہ خود کو حکومت سمجھنے لگا تھا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں جیسے کئی اداروں سے غلطی ہوئی ویسے ہی تبلیغی جماعت سے بھی غلطی ہوئی۔ وبا کی شدت کو سمجھنے میں جیسے حکومت ناکام رہی ویسے ہی تبلیغی جماعت بھی ناکام رہی جس کی وجہ سے ذمہ داران کے غلط بیان بھی سامنے آئے۔ اس سال وبا کے تعلق سے لوگوں میں زیادہ اور ٹھوس معلومات تھی لیکن اس کے با وجود لاپروائی کی۔ جیسے بہت ساری تقاریب کو لوگوں نے محدود پیمانہ پر منعقد کیا ویسے ہی احتیاط کے طور پر کمبھ کو بھی محدود پیمانہ پر کیا جا سکتا تھا۔
کورونا وبا ہندوستان میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے اس لئے حکومت اور عوام کو ہر وہ قدم اٹھانا چاہئے جس سے اس وبا کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔ سیاست اور فرقہ وارانہ تعصب سے پرہیز کرتے ہوئے اس وبا کو متحد ہو کر شکست دینے کی ضرورت ہے۔ مرکز اور ریاستوں کو سیاست سے گریز کرتے ہوئے آگے آ کر قیادت کرنی چاہئے جبھی ہم اس وبا کو شکست دے سکتے ہیں نہیں تو خوف کے سائے میں گھروں میں قید رہیں گے۔