-
ان حالات کا ذمہ دار کون؟
- سیاسی
- گھر
ان حالات کا ذمہ دار کون؟
899
M.U.H
17/05/2021
0
0
تحریر: مولانا عازم حسین زیدی
دیکھوگے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گ
گذشتہ سال کو رونا وائرس ہنگامی تباہ کن حالات سے ابھرنے کے بعد زیادہ تر افراد یہ سوچ رہے تھے کہ یہ موزی اور مہلک وائرس اب ہمارے ملک عزیز سے ختم ہوچکا ہے اور رواں سال میں ہم بے خوف وخطر خوشحال زندگی گذارتے ہوئے گذشتہ سال میں ہونے والے اقتصادی اور سماجی نقصانات کی بھرپائی کرلیں گے۔ لوگوں کو یقین تھا کہ اگر دوسری لہر آتی بھی ہے تو حکومتی اداروں کی سطح پر اس طرح کے انتظام اور تیاریاں کر لی گئی ہونگی جس کے ذریعہ اس وبا سے باآسانی نپٹ لیا جائے گا۔ اور اس وباء کو شکست دینے کے لیے سب سے بڑا اسلحہ کووٹ کی ویکسین کو قرار دیا گیا دنیا بھر میں جس کے کامیاب تجربات عمل میں آچکے تھے۔ لیکن اس کے برخلاف کرونا کی دوسری لہرنے سونامی کیطرح پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔۔ان ہنگامی حالاتِ میں مہاماری کے سامنے حفظان صحت کی حکومتی تیاریاں بونی نظر آنے لگیں اور تمامتر سرکاری دعووں کی پول کھل گئی ۔
افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ایکسال سال قبل تھالی بجواکر اور شمع روشن کروانے کے بعد ملک کی قیادت نے فاتحانہ انداز سے جو ’’وشوگرو‘‘ بننے کا اعلان کیا تھا دنیا بھر میں وہ تمسخر اور مذاق بن کر رہ گیا وسائل کے فقدان کی کیفیت یہ ہے دارلحکومت دہلی میں وزیر اعظم کی قیام گاہ سے چند کلومیٹر کے فاصلوں پر اسپتالوں میں اکثر آکسیجن ختم ہونے کے سبب مریض تڑپ تڑپ کرمررہے ہیں سڑکوں اور چوراہوں پر لوگ دم توڑ رہے عوام الناس کا کیا ذکر خواص کو بے انتہا پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے کچھ عرصہ قبل ایک معروف مرکزی وزیر نے اپنے عزیز کے لیے بیڈ مہیا کرنے کی گہار اپنے ٹیوٹر پر لگائی۔ یوپی میں برسراقتدار جماعت کے ایم ایل اے کیسر سنگھ گنگوار کا خط وائرل ہوا جس میں وہ عاجزانہ او رمایوسانہ انداز سے مرکزی وزیر صحت سے اپنے لیے بیڈ کی درخواست کررہے ہیں جس سے انکی بے بسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس کے باوجود ان کے رشتہ داروں کے بقول ایک رات انہیں بغیر آئی سی یو کے میکس ہاسپٹل میں رہنا پڑا جس کی وجہ سے مرض بے قابو ہوگیا اور وہ دنیا سے چلے گئے۔جب مرکزی اور صوبائی حکومت ایوانوں میں بیٹھنے والے اراکین کا اعلاج کرانے میں ناکام ہیں تو غریب عوام کا پرسان حال کون ہو گا ۔
دہلی کے کیجریوال سرکار نافہ نےآکسیجن بلیٹن جاری کرتے ہوئے کہا دہلی کو ۹۷۶ میٹرک ٹن آکسیجن کی ضرورت ہے لیکن دہلی کو ۴۳۳ میٹرک ٹن ہی آکسیجن مل پائی ہےدہلی کو 55% آکسیجن کم مل پا رہی ہے جب دارالحکومت کی صورت حال دل دہلا دینے والی ہے تو چھوٹے شہروں کی صورتحال کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔. ان حالات کا فایده اٹھا کر دواوں کا کاروبار کرنے والے بھی منافہ خوری پر آمادہ ہیں ۔جہا ں تک دواوں کی اونچی قیمتوں اورمنافہ خوری کا سوال ہے اسکے پیچھے بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اختیارات ہیں ملک کے تاجروں اور منافہ خوروں سے زیادہ رول ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ہے جنہیں دواوں اور طبی اعلات فروخت کرنے کے خصوصی اختیارات دینے گیے ہیں جسکی منمانی قیمتیں یہ کمپنیز وصول کرتی ہیں حال ہی میں ا دواوں کے مارکیٹ میں جو کا لا بازاری دیکھنے کو ملی وہ نا گفته بہ اور افسوسناک ہے کو رونا کے اعلاج میں استعمال ہونے والا، ریمڑیسیور انجکشن، جسکی قیمت عام حالات میں تین ہزار سے پانچ ہزار تک ہوتی ہے وہ تیس سے پچاس ہزار میں بلیک میں با مشکل دستیاب ہو رہا ہے اسی طرح tebuzumaab انجکش جسکی قیمت چالیس ہزار ہے اسکے ڑیڑہ لاکھ سےدو لاکھ منمانی قیمت وصولی جا رہی ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ ہندوستانی کمپنیاں ان دواوں کو بنانے میں ناکام ہیں وجہ صرف یہ ہے کہان دواوں کو فروخت کرنے کے خصوصی اختیارات ملٹی نیشنل کمپنی کے پاس ہونے کی وجہ سے مجبور ہیں ۔عدالت اعظمی نے مرکزی حکومت سے دریافت کیا تھا کہ کو رونا سے متعلق دواوں کا لایسنس لاگو کرنے کے بارے میں سرکار کیوں نہیں سوچ رہی ہے۔اگر ہندوستانی کمپنیوں کو اختیارات مل جائیں تو دواوں کی قلت کے ساتھ کا لا بازاری بھی ختم جائیگی ۔
پچھلی لہر کے دوران حکومت کی ناکام حکمت عملی اور اچانک لاک ڈاؤن لگانے کی وجہ سے ہزاروں لوگ تڑپ تڑپ کر مرگئے تھے کسی طرح وہ دور تو گزر گیا تھا لیکن ملک معاشی اور اقتصادی طور پر پوری طرح ٹوٹ چکا تھا کاروبار ختم ہوگئے تھے مزدورطبقہ بھک مری کے کگار پر تھا۔ ایسے میں برسراقتدار جماعت کا فریضہ تھا کہ وہ عوام اور ملک کے حالات سدھارنے، اقتصادی اور معاشی بدحالی دور کرنے کے لیے کارگر حکمت عملی بنائیں اس کے برخلاف عوام کی پریشانیوں سے بے فکر ہوک ارباب اقتدار سیاسی قلعے فتح کرنے میں مصروف رہے ۔ یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے حکومت کی طرف سے جو گائڈلائن نافظ کی گئی اس میں مذہبی عبادت گاہوں کو تو بند کردیا گیا لیکن سیاسی ریلیوں پر کوئی پابندی نہیں، نہ حکومت نے کمبھ میں ڈبکی لگانے والے لاکھوں افراد پر کوئی پابندی عائد کی نہ الیکشن میں ہونے والی ریلیوں پر۔ پانچ صوبوں میں باقائدہ طور پر الیکشن کے نتائج آنا شروع ہوگئے جس کے نتیجہ میں لاکھوں افراد روزانہ کورونا سے متاثر ہونے لگے بنگال کی عدالت عالیہ نے الیکشن کے درمیان ہونے والی اموات کو قتل بتاتے ہوئے کہا انکا مقدمہ الیکشن کمیشن پر چلنا چاہئے۔ اترپردیش میں بھی ضلع پنچایت اور پردھانی کے الیکشن کے بعد محفوظ رہنے والے گاؤں دیہاتوں میں بھی کورونا نے خطرناک صورت حال اختیار کرلی۔ دیہی علاقوں میں انتخابات کو کامیابی سے تکمیل تک پہنچانے کے لیے سرکاری ملازمین نے حاکم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پوری ایمانداری اور دیانت داری سے اپنا کام تو کیا لیکن انتخابات کے چند روز بعد ہی سے کرونا کا شکار ہوکر ایک ہزار سے زیادہ لوگ زندگی کی جنگ ہارچکے ہیں۔ مرنے والوں میں زیادہ تر ٹیچرس ہیں۔ ٹیچرس کی فلاحی تنظیموں کی مسلسل دباؤ کی وجہ سے صوبائی حکومت کی جانب سے امداد کا اعلان تو کیا ہے لیکن اس پر عملدرآمد ہوتا ہے یا نہیں یہ وقت بتاییگا وگرنہ۔ان مہلوکین کے اہل خانہ اور بچوں کی کفالت کا ذمہ دار کون ہو گا ۔
ملک کراہ رہا ہے۔ قیادت غیر ذمہ زمہ دار ہے۔ ایک سال گزرنے کے بعد نہ اسپتال، نہ وینٹی لیٹر، نہ دوسرے وسائل، ویکسین کے لیے جن کمپنیوں سے قرار داد ہوئی وہ اس مقدار میں کھپت نہ کرسکی ان ڈراونے حالات کے در میان کو رونا کی تیسری لہرا کی خبریں بھی دل دہلا نے والی ہیں ماہرین کے حوالے سے چھپنے والی خبروں میں بچوں کے متاثر ہو نےکی پیشین گوئیاں کی جا رہی ہیں عدالت عظمی نے حکومت سے ان حالاتِ کو قابو میں رکھنے والی تیاریوں سے متعلق دریافت کیاہے تاکہ جانی نقصان کم سے کم ہو، صاحبان اقتدار کی بے حسی اور لا پرواہی کو دیکھتے ہوے نہیں لگتا کہ آنے والے حالاتِ سے نبٹنے کے لئے جنگی پیمانہ پر کسی طرح کی کوئی کوشش کی گئی ہو نہ کوی حکمت عملی نظر آتی ہے نہ ہی کوی ماہرین کی کورکمیٹی کا انتخاب کیا گیا ہے حالات کے پیش نظر بہت سے سوالات ہیں جو زہنوں میں ابھرتے ہیں جنکا کوی جواب دینے والا نہیں۔ایسے روح فرسا ما حول میں اپنے ملک کے باوقار شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم صدیوں پرانی تہذیب کی حفاظت کریں- مہذب سماج اپنی اخلاقی اقدار سے پہچانا جاتا ہے۔ آج قبرستانوں سے شمشانوں تک جس طرح قومی یکجہتی کے مناظر سوشل میڈیا کے ذریعہ دیکھنے کو مل رہے ہیں لکھنؤ کے امداد امام اور اس کے ساتھی نوجوان پی پی کٹ پہن کر کہیں قبرستان میں تو کہیں شمشان میں آخری رسومات ادا کرتا ہوے نظر آتے۔یہ ہماری تہذیب کے زندہ ہونے کی علامت ہے جو امید افزا اور تقویت پہنچانے والا ہے۔ یہ سونامی کچھ دن میں گزر جائے گی طوفان ٹھہرجائے گا۔ سرکاریں اور سرکاری ادارے جو بھی اقدامات کریں وہ اپنی جگہ ہمیں از خود اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرنا ہوگا مہذب سماج اپنی اخلاقی قدروں سے پہچانا جاتاہے اس وبائی طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے قوم کو سماجی ضابطۂ اخلاق کو نافظ کرنے کی اشد ضرورت ہے جس میں ہر شخص اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے۔ ان حالات میں جن لوگوں نے اپنے پیاروں کو کھویا ہے ہمیں ان کا درد بانٹنا ہے۔ اور اسی بات کا تجزیہ بھی کرنا ہے کہ وبائی لہر کا روکنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے لیکن وسائل کے فقدان کی وجہ سے ناگفتہ بہ حالات پیدا ہونا متاثرین کو علاج نہ ملنا کسی طرح کی سیاسی حکمت عملی نہ ہونا اس کا ذمہ دار کون؟ لوگوں کا تڑپ تڑپ کرمرنا جس کو عدالت عالیہ نے بھی قتل عام سے تعبیر کیا کتنا تکلیف دہ ہے۔ بی۔جے۔پی کے بزرگ سیاسی رہنما لال کرشن اڈوانی نے تو اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے ٹیوٹ کیا کہ میں نے غلط ہاتھوں میں ملک دے دیا۔ لیکن اکثریتی طبقہ کو اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ ملک چلانے کے لیے کس طرح کی قیادت کا انتخاب کرنا ہے قوم کو اس کو رونا سے ہونے والے نقصانات کا تجزیہ کرتے ہوے اپنے سیاسی شعور کو بیدار کرنا ہو گا وگرنہ ان تباہ کاریوں کا ذمہ داری ہر وہ شخص ہو گا جو اس حکومت و قیادت کی تعمیر میں کسی طرح بھی حصہ دار رہا ہے ۔