-
یوم جمہوریہ دیش کا کسان اور جوان مد مقابل
- سیاسی
- گھر
یوم جمہوریہ دیش کا کسان اور جوان مد مقابل
1002
M.U.H
26/01/2021
0
0
تحریر: ڈاکٹر محمد سراج الرحمن فاروقی
یقیناً سارا ہندوستان 72 واں یوم جمہوریہ منانے جارہا ہے، جس دیش کی ترقی جوان اور کسان پر منحصر ہے، اسی لئے ہندوستانی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے جئے جوان جئے کسان کا نعرہ لگاکر تحریک آزادی ہند کی یاد کو تازہ کیا تھا۔ وہی کسان ہزاروں کی بلکہ لاکھوں کی تعداد میں اپنے مستقبل کو موجودہ حکومت کی قانون میں تاریک ہوتا دیکھ کر پچھلے تقریباً 2 ماہ سے زیر سماں، سڑکوں، گلیوں، میدانوں میں بھوک پیاس، رہن سہن کی تکالیف جھیلتے ہوئے، بے یار و مددگار پڑے ہیں۔ جو ایک پرامن احتجاج، آندولن، تاریخ ہند میں طویل ترین احتجاج درج کرتے ہوئے اس قانون کی منسوخی کا جائز مطالبہ کررہے ہیں جس کے ذریعہ سے ان کسانوں کو دیش کے متمول صنعت کاروں کا غلام بنایا جارہا ہے۔ یہ کسان اپنی سواریوں سے مطالبات کی تکمیل کے لئے جب دارالحکومت دہلی میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے ہی دیش کے پولیس جوانوں کے ذریعہ ڈرایا دھمکایا جارہا ہے جیسے دیش دروہی پر لاٹھی، گولی برسائی جاتی ہے اسی طرح کسانوں ان داتا کو جوانوں دیش رکھشکوں سے ہراساں کیا جارہا ہے۔ دلی میں داخل ہونے سے کسانوں کو قندقیں (کھدے 10 فٹ گہرے) کھود کر خاردار تار لگاکر پولیس، نیم فوجی دستے کے ذریعہ روکا جارہا یہ جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ جمہوری ملک ہندوستان میں اس کے اپنے کسانوں کو دہشت گرد، خالصستانی، ماؤسٹ، نکسلائٹ جیسے شرمناک نام دیئے جارہے ہیں۔ ایسے لگ رہا ہے کسان اپنی آزادی کی دوسری اندرونی لڑائی لڑ رہا ہے، حیقینی طور پر اگر اس زرعی بلز پر روک نہیں لگائی گئی تو اس کا بوجھ مہنگائی کے روپ میں ہندوستانی پر پڑے گا اور ملک میں بڑے صنعت کاروں کا راج اور دبدبہ کے بوجھ سے سنبھلنے نہ پائے گا۔
حکومت مسئلہ کا حل تو نہیں ڈھونڈتی، کسانوں کی بھلائی کے جھوٹے وعدے اور مگرمچھ کے آنسوں بہاتی ہوئی کہتی ہے اس آندولن کے لئے اپوزیشن فنڈنگ کررہی ہے اور الزام لگاتی ہے کہ اس کے پیچھے چین، پاکستان کا ہاتھ ہے، جو بھارت کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں یہ ایک بہانہ ہے بلکہ غیر ذمہ دار حرکت ہے اپنے دیش کے کسان کو اس طرح مورود الزام ٹھہراتے ہوئے بھارتی وزا اور جھوٹے دیش بھکتوں کو شرم بھی محسوس نہیں ہوتی۔
سب سے پہلے حکومت اس ملک کی آزادی میں مسلم علماء، زعماء، جامعات کی جانب سے دی گئی قربانی جدوجہد اور سکھ اقلیتوں کی جانب سے سرحد پر دی جارہی قربانی سکھ رجمینٹ جس کے بدولت آج ہند آزاد ہے، اور ہندوستانی آرام کی نیند سو رہے ہیں انبار احسان کو ہم کبھی بھول نہیں سکتے اور اس احسان سے سبکدوش نہیں ہوسکتے، ورنہ احسان فراموشی ہوگی۔ دہلی میں برسر اقتدار عاپ پارٹی کے ممبر آف پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے بجا طور پر کہا آج جس داڈھی اور ٹوپی والے مسلمان سے تم (بھگوا بریگیڈ) نفرت کرتے ہو، یا دہشت گرد یا پاکستانی قرار دیتے ہو بھارت کو پہلی آزادی کی لڑائی 1857 سے 1947 ء تک یہی داڑھی ٹوپی والے مسلمانوں نے ہزاروں کی تعداد میں سینوں پر گولی کھائی، انگنت تحریکیں چلاکر ہمیں آزادی دلائی ہے ان کی احسان فراموشی کرنا نمک حرامی ہوگی۔
یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے یہ آج جو ہندوستان یوم جمہوریہ منا رہا ہے، دستور ہند کے مصنف بی آر امبیڈکر جب مہاراشٹرا سے پارلیمانی انتخاب ہار گئے تو یہی مسلمان قوم نے امبیڈکر کو بنگال سے کامیابی دلواکر پارلیمنٹ میں بھیجا تب ہی دستور تحریر ہوا یعنی جس طرح ہندوستان کو آزادی دلانے والے مسلمانوں نے اہم کردار نبھایا اسی طرح دستور ہند مرتب کروانے میں بھی مسلمانوں نے ذمہ دارانہ رول ادا کیا جس کی بدولت آج ہم 72 واں یوم جمہوریہ منارہے ہیں۔
تبھی تو ملک کی تقسیم کے فسادات سے جو انگریزوں کی Devide & Rule کی پالیسی تھی کے دوران پاکستان جانے والے مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے جامع مسجد دہلی میں امام الہند مولانا آزادؒ نے کہا اے مسلمانوں تم کدھر جارہے ہو، اس ملک کی تقدیر کے فیصلے تمہارے قلم سے لکھنا ہے۔ کیا یہ لال قلعہ تم نے تعمیر نہیں کیا تاج محل، قطب مینار کے تم معمار نہیں ہو، اس جامع مسجد دہلی کے حوض پر تم نماز فجر کا وضو نہیں کرتے ہو، تو سنو پھر یہ ملک تمہارا ہے اس ترقی اور تقدیر کے تم بھی خیر خواہ و ذمہ دار ہو، اس دیش کی قسمت کے فیصلے کی بنیاد تمہاری اٹھائی ہوئی متحدہ آواز پر ہوگی ہم مسلمانوں کو غیرت ایمانی کو للکارتے ہوئے مولانا آزادؒ نے کہا :
آہ تم زلزلوں سے ڈرتے ہو، کبھی تم ایک زلزلہ تھے آج اندھیرے سے کانپتے ہو یاد نہیں کہ تمہارا وجود ایک اجالا تھا یہ بادلوں نے میلا پانی برسایا ہے تم نے بھیگ جانے کے خدشے سے اپنے پائینچے چڑھالئے ہیں۔ وہ تمہارے ہی اسلاف، باپ دادا تھے جو سمندروں میں اتر گئے۔ پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا، بجلیاں آئیں تو مسکراکر استقبال کیا۔ بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا، صر صر اٹھی تو ان کا رخ پھیر دیا۔ آندھیاں آئیں تو ان سے کہا تمہارا راستہ یہ نہیں ہے، یہ ایمان کی کمزوری اور جان کنی کے شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والی قوم۔ آج خود اپنے اپنوں کے گریبانوں سے کھیل رہی ہے اور خدا سے اس درجہ غافل ہوگئے جیسے کبھی اس پر ایمان ہی نہیں تھا۔
عزیز امت مسلمہ ! بس بستر مدہوشی سے سر اٹھاکر اب تمہیں خواب غفلت سے بیدار ہونا ہے، اب ہمیں ہماری آپسی فروعی اختلافات کو پیروں تلے روند کر کلمہ کی بنیاد پر متحد و متفق ہوکر موجودہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔
ہمارا رشتہ رب العالمین سے ٹوٹا ہوا رشتۂ رسالت رحمت للعالمین سے دوبارہ قائم کریں گے۔ دعوت دین کی محنت کو ہمارا مقصد حیات بنائیں گے، رضائے الٰہی نصرت الٰہی آج بھی نصیب ہوگی، کھویا وقار بحال ہوگا حکومت کی باگ ڈور ہمارے ہاتھ ہوگی، ہند میں پائیدار امن قائم ہوگا، یہی ہمارے تمام مسائل کا واحد حل ہے۔