-
غیر متوقع نتائج اور 2024 کا ممکنہ منظرنامہ
- سیاسی
- گھر
غیر متوقع نتائج اور 2024 کا ممکنہ منظرنامہ
303
m.u.h
07/12/2023
1
0
پسِ آئینہ: سہل انجم
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی غیر متوقع جیت نے سیاست دانوں، صحافیوں، سیاسی پنڈتوں اور تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا۔ خود بی جے پی کے بہت سے رہنما متعجب ہیں۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق کئی کامیاب امیدواروں کو اب بھی اپنی جیت کا یقین نہیں ہو رہا۔ ایکزٹ پول کے نتائج دھرے کے دھرے رہ گئے اور تین ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے عوام نے وہ کر دیا جو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اس وقت جو کیفیت ہے بالکل 2004 کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے والی ہے۔ اُس وقت انڈیا شائننگ کے نعرے کی وجہ سے بی جے پی زبردست خود اعتمادی میں مبتلا تھی اور اس کو اپنی جیت کا پورا پورا یقین تھا۔ کانگریس بھی یہی سمجھتی تھی کہ بی جے پی جیت رہی ہے۔ لیکن نتائج نے بی جے پی کی شکست اور کانگریس کی جیت کا اعلان کر دیا تھا۔ اُس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی سے جب صحافیوں نے نتائج کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا تھا کہ ہمیں نہیں لگ رہا تھا کہ ہم ہار رہے ہیں اور انھیں بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ جیت رہے ہیں۔ یہی صورت حال اِس وقت بھی ہے۔ کانگریس کو پورا یقین تھا کہ وہ چھتیس گڑھ، راجستھان اور تیلنگانہ جیت رہی ہے اور مدھیہ پردیش بھی اس کی جھولی میں آسکتا ہے۔ بی جے پی کو بھی ایسا ہی لگ رہا تھا۔ لیکن ہوا بالکل الٹا۔ اب اس کا تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ آخر ایسا کیوں اور کیسے ہوا۔ مبصرین کے مطابق بی جے پی کی اس چونکانے والی جیت میں کئی عوامل کارفرما رہے ہیں۔ دراصل بی جے پی سیاسی تجربہ کرنے سے گھبراتی نہیں۔ جب اس نے کئی ارکان پارلیمنٹ کو مدھیہ پردیش میں اتارا تو سب نے اس کا مذاق اڑایا لیکن اس نے پروا نہیں کی۔ اس نے کسی بھی ریاست میں وزیر اعلیٰ کے امیدوار کا اعلان نہیں کیا۔ اس نے ایک بار پھر وزیر اعظم نریندر مودی پر داؤ لگایا۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں اندرونی گروپ بازی کو قابو میں کیا۔ چھتیس گڑھ میں پارٹی کی کمزور قیادت کا احساس کرتے ہوئے بوتھ سطح پر کارکنوں کو منظم کیا۔ تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کیا۔ الگ الگ ریاستوں میں متعدد فلاحی اعلانات کیے۔ اس نے خواتین پر خاص توجہ دی۔ شیوراج سنگھ نے لاڈلی بہنا اسکیم کا اعلان کیا تو پارٹی نے چھتیس گڑھ میں غیر شادی شدہ خواتین کو بارہ ہزار روپے سالانہ دینے کا اعلان کیا۔ حالانکہ چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل نے بی جے پی کے جواب میں تمام خواتین کو پندرہ ہزار روپے سالانہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ راجستھان میں وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے پانچ سو روپے میں رسوئی گیس کا سلینڈر دینے کا اعلان کیا۔ لیکن خواتین نے کانگریس کے بجائے بی جے پی کے اعلانات پر یقین کیا۔ بی جے پی نے قومیت، ترقیاتی پروگراموں، فلاحی اسکیموں اور مودی کی گارنٹی کو ایک ساتھ مربوط کرکے انتخابی مہم چلائی۔ پسِ پردہ ہندوتو کی سیاست بھی آزمائی جاتی رہی۔ وزیر اعظم نے ادے پور میں ایک ہندو ٹیلر کے قتل اور پی ایف آئی کا معاملہ اٹھایا۔ رام مندر کے مفت درشن کا اعلان کیا گیا۔ اس طرح اس نے معجون مرکب بنا کر رائے دہندگان کے سامنے پیش کیا جسے انھوں نے قبول کر لیا۔
ادھر کانگریس نے کئی محاذوں پر غلطیاں کیں۔ سب سے پہلی بات تو اس کا تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہے۔ کانگریس میں بھی مدھیہ پردیش اور راجستھان میں گروپ بازی رہی لیکن اعلیٰ کمان اس پر قابو پانے میں ناکام رہا۔ ریاستی رہنماؤں نے اپنی اپنی چلائی۔ کمل ناتھ، اشوک گہلوت اور بھوپیش بگھیل نے اپنے حساب سے امیدواروں کو ٹکٹ دیے۔ اس بارے میں راہل اور پرینکا تک کی بات نہیں سنی گئی۔ کمل ناتھ تو ایک بابا کے چرنوں میں گر گئے۔ اس سے قبل انھوں نے بابری مسجد کا تالا کھولنے کے حوالے سے رام مندر کی تعمیر کا کریڈٹ کانگریس کو دینے کی کوشش کی۔ انھوں نے سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو کے لیے انتہائی قابل اعتراص بیان دیا۔ کانگریس نے علاقائی جماعتوں سے اتحاد کرنے کے بجائے تنہا لڑنے کا فیصلہ کرکے بھی نقصان اٹھایا۔ ادھر بھوپیش بگھیل نے بی جے پی کو اسی کے داؤ سے کاٹنے یعنی ہندوتو کے ہتھیار سے پچھاڑنے کی کوشش کی۔ کانگریس نے نرم ہندوتو کا سہارا لیا۔ اسے اس بات کا احساس نہیں رہا کہ بی جے پی تو کھلی ہوئی ہندو پارٹی ہے۔ وہ نقلی ہندوتو سے اس کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے۔ اس نے اقلیتوں اور مسلمانوں کی بات کرنی چھوڑ دی۔ دراصل بی جے پی کی پالیسی بالکل واضح اور دو ٹوک ہے جبکہ کانگریس کی گومگو کی ہے۔ وہ جب تک بی جے پی کے بالمقابل پختہ سیکولرزم کی پالیسی نہیں اپنائے گی، اقلیتوں اورمسلمانوں کی آواز نہیں اٹھائے گی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ایک بار ارون جیٹلی نے کہا تھا کہ کانگریس نقلی ہندو پارٹی بننے کی کوشش کر رہی ہے۔ جب اصلی ہندو پارٹی موجود ہے تو نقلی کو کوئی کیوں اپنائے گا۔ لیکن یہ بات کانگریس کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اس نے اب تو مسلمانوں کا نام لینا سیاسی پاپ سمجھ لیا ہے۔
انتخابی نتائج نے فطری طور پر بی جے پی میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کر دیا اور وزیر اعظم نے پارلیمانی انتخابات میں ہیٹ ٹرک بنانے کا اعلان کر دیا۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے اور کیا اب بی جے پی کے لیے پارلیمانی الیکشن جیتنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ اگر ہم ماضی کے تجربات کی روشنی میں جائزہ لیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ بی جے پی کو بہت زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ 2004 کے پارلیمانی انتخابات کی مثال پیش کی جا چکی ہے۔ 2018 میں کانگریس نے مذکورہ تینوں ریاستوں میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن بی جے پی نے 2019 میں انھی ریاستوں کی بیشتر پارلیمانی نشستیں جیت لی تھیں۔ خود کانگریس نے ابھی مئی میں کرناٹک میں الیکشن جیتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ مذکورہ تینوں ریاستوں میں وہ ہار گئی۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ 2024 بی جے پی کے لیے بہت آسان ہو گیا ہے۔ سیاست میں کسی بھی لمحے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ 2024 میں نقشہ پلٹ بھی سکتا ہے بشرطیکہ اپوزیشن محنت کرے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر کانگریس کی شکست اس کے لیے نقصاندہ اور مایوس کن ہے تو اپوزیشن اتحاد کے لیے اسے نیک شگون بھی سمجھا جا رہا ہے۔ اگر کانگریس کو بڑی کامیابی حاصل ہوتی تو وہ اتحاد کے اندر زیادہ سودے بازی کی پوزیشن میں آجاتی اور علاقائی پارٹیوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔ اس وقت اس کے رہنماؤں کا غرور بہت زیادہ بڑھ جاتا۔ اگر ایسا ہوتا تو اتحاد کے ٹوٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا۔ یاد رہے کہ اتحاد کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی پیش رفت نہ کرنے اور صرف انتخابات پر توجہ دینے پر نتیش کمار نے کانگریس پر تنقید کی تھی۔ کانگریس نے اس محاذ پر کوئی کوشش کرنے کے بجائے انتخابات پر اسی لیے زیادہ توجہ دی تھی کہ کامیابی کی صورت میں وہ سودے بازی کرنے کی بہتر پوزیشن میں آجائے گی۔ لیکن اب جبکہ ایسا نہیں ہوا تو علاقائی پارٹیوں کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ ’انڈیا‘ اتحاد کو مضبوط کیا جا سکتا ہے اور اب سب کی حصہ داری برابر ہوگی۔ کانگریس کی قیادت پر بھی سوال اٹھ رہا ہے۔ ٹی ایم سی نے اپنی قیادت پیش کر دی ہے۔ تاہم بعض سیاست دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسمبلی انتخابات کے نتائج سے نہ تو کانگریس کو مایوس ہونے کی ضرورت ہے نہ ہی اپوزیشن جماعتوں کو۔ اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات میں الگ الگ ایشوز ہوتے ہیں اور یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس لڑائی میں ڈی ایم کے، ٹی ایم سی، آر جے ڈی، جے ڈی یو، ایس پی، این سی پی، شیو سینا (اودھو) اور عام آدمی پارٹی وغیرہ بھی میدان میں ہوں گی اور توقع ہے کہ وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گی۔ اس بات کا بھی امکان قوی ہو گیا ہے کہ اب شاید بی جے پی کے مقابلے میں اپوزیشن کا ایک ایک امیدوار اتارنے کا مرحلہ آسان ہو جائے۔ جلد ہی ’انڈیا‘ کی میٹنگ ہونے والی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس میں الگ الگ پارٹیوں کی کیا باڈی لینگویج ہوتی ہے اور کیا حکمت عملی اپنائی جاتی ہے۔ اگر اپوزیشن نے ابھی سے پارلیمانی انتخابات کی تیاری شروع کر دی تو پانسہ پلٹ سکتا ہے۔