محمد خان مصباح الدین
راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس بھارت کی ایک ہندو تنظیم۔ یہ خود کو قوم پرست تنظیم قرار دیتی ہے۔ لیکن یہ بھی ہمیشہ دیکھا گیا کہ بہت سے دہشت گردانہ معاملوں میں اس تنظیم کا ہاتھ رہا ہے۔ اس کی اشاعت 1925ء کو ناگپور میں ہوئی۔ اس کا بانی کیشوا بلی رام ہیڑگیوار ہے۔ یہ ہندو سوائم سیوک سنگھ کے نام سے بیرون ممالک میں سرگرم ہے۔ یہ بھارت کو ہندو ملک گردانتا ہے۔ اور یہ اس تنظیم کا اہم مقصد بھی ہے۔ بھارت میں برطانوی حکومت نے ایک بار۔ اور آزادی کے بعد حکومتِ ہند نے تین بار اس تنظیم کو ممنوع کر دیا۔ مگر اسکے باوجود آر ایس ایس تناور درخت بن چکا ہے اور اسکی شاخیں ہر روز سیراب اور مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔
بھارت میں دنگے فسادات برپا کرنے میں اس تنظیم کا نام سر فہرت ہے۔ 1927ء کا ناگپور فساد ان میں اہم اور اول ہے۔ 1948ء کو اس تنظیم کے ایک رکن ناتھورام ونائک گوڑسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا۔ 1969ء کو احمد آباد فساد ، 1971ء کو تلشیری فساد اور 1979ء کو بہار کے جمشید پور فرقہ وارانہ فساد میں ملوث رہی۔ 6 دسمبر 1992ء کو اس تنظیم کے اراکین (کارسیوک) نے بابری مسجد میں گھس کر اس کو منہدم کر دی۔ آر ایس ایس کو مختلف فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہونے پر تحقیقی کمیشن کی جانب سے سرزنش کا سامنا کرنا پڑا ، وہ درج ذیل ہیں
1969 ء کے احمدآباد فساد پر جگموہن رپورٹ
1970 ء کے بھیونڈی فساد پر ڈی پی ماڈن رپورٹ
1971 ء کے تلشیری فساد پر وتایاتیل رپورٹ
1979 ء کے جمشیدپور فساد پر جتیندر نارائن رپورٹ
1982 ء کے کنیاکماری فساد پر وینوگوپال رپورٹ
1989ء کے بھاگلپور فساد کی رپورٹ
ہم خیال تنظیمیں ترميم
سنگھ پریوار : یعنی سنگھ کا خاندان۔ اس خاندان یعنی پریوار کے اراکین تنظیمیں ۔ آر ایس ایس کے آدرشوں کے مطابق سرگرم تنظیموں کو عام طور پر سنگھ پریوار کہتے ہیں ۔
آر ایس ایس کی دوسری ہم خیال تنظیموں میں
وشوا ہندو پریشد
بھارتیہ جنتا پارٹی – سنگھ پریوار کی سیاسی تنظیم
ون بندھو پریشد ،
راشٹریہ سیوکا سمیتی ،
سیوا بھارتی ،
اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد – سنگھ پریوار کا اسٹوڈینٹس ونگ
ونواسی کلیان آشرم ،
بھارتیہ مزدور سنگھ ،
ودیا بھارتی وغیرہ شامل ہیں ۔
قارئین کرام!
آرایس ایس نے صرف یہیں تک اپنا دائرہ محدود نہیں رکھا بلکہ ملک اور قوم کے ہر شعبے میں انہوں نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلیے اپنے نمائندوں کو جگہ دلایا تاکہ ہر روز کوئی نہ کوئی نیا جال بن سکیں ,اب چاہے حکومت کا شعبہ ہو, عدالت ہو,سرکاری دفتر ہو, پولیس دفتر ہو, وکالت کا پیشہ ہو گویا ہر جگہ انہوں نے اپنے نمائندوں کو لگا کر مکمل اختیار اپنے قبضے میں لے رکھا ہے تاکہ ہندوستان کا کوئی بھی مسلمان اپنا بنیادی حق آسانی کے ساتھ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور یہ نہایت دلیری کے ساتھ ہندوستان کو اپنے رنگ میں رنگ سکیں یہی انکا خواب اور مقصد تھا اور وہ اپنے مقاصد میں 90 فیصد کامیاب بھی ہو چکے ہیں اور ان سب کے ذمہ دار ہم خود ہیں _
یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے کہ یہ تنظیم پورے طور پر فارشسٹ سیاسی نظریات سے متاثر جمہوریت کی بجائے آمریت کی حامی رہی ہے اور مضبوط تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ اس کے رہنماؤں نے ہٹلر اور مسولینی کے قومی و سیاسی نظریات سے براہ راست استفادہ کیا ہے اور ان سے بیحد متاثر ہیں ۔ اس کے بڑے بڑے لیڈروں نے اٹلی اور جرمنی جاکر فاشزم کی تعلیم و تربیت حاصل کی ہے۔ چناں چہ ہندوسماج کو فوجی تربیت دینے کی ضرورت و اہمیت کو انھوں نے اٹلی و جرمنی کے ماڈلوں کو دیکھنے کے بعد ہی محسوس کی آج ملک میں اس کی شاکھاؤں کا جو جال پھیلا ہوا ہے، وہ درحقیقت اسی فاشسٹ ذہنیت کی آبیاری کرتے ہیں اور انہی شاکھاؤں کے ذریعہ ہندو فاشزم کے زہریلے جراثیم نئی نسل کے اندر سرایت کیے جاتے ہیں ۔
آر ایس ایس کا ایجنڈہ یہی ہے کہ ملک کو ہندو راشٹر بنادیا جائے۔ آر ایس ایس کے بانی ہیڈگوار اور مفکر اور نظریہ ساز گول والکر جنہوں نے ہندوتوا کے نظریہ کے خدو خال ترتیب دئیے تھے انہوں نے ملک میں غیر ہندوؤں کو درجہ دوم کا شہری بناکر رکھنے کی بات کی تھی لیکن آر ایس ایس کے موجودہ کرتا دھرتا ہندوستان میں کسی اور مذہب کے پیروؤں خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنانے یا ملک سے ہی نکال باہر کرنے کا نظریہ ہی نہیں ارادے رکھتے ہیں ورنہ اس قسم کے بیانات سامنے نہ آتے۔ اتنا خطرناک بیان دینے والے کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا نہ ہونا اور میڈیا خاص طور پر ٹی وی چینلز کی خاموشی آخر کس بات کی غمازی کرتی ہے؟ آر ایس ایس کو نصاب تعلیم پر ہندوتوا کے اثراٹ ڈالنے ہی نہیں بلکہ اسے ہندوتوا کے چوکھٹے تک محدود کرنے اور تاریخ ہی نہیں بلکہ سائنس کو بھی ہندودیومالائی داستانوں کے مطابق بنانے اور غیر ملکی حملہ آوروں (مسلمانوں اور انگریزوں ) کے ذکر کو تاریخ سے خارج کرنے کا شوق ہے_
آج ہماری لڑائی ہندو مسلم کی نہیں بلکہ اس گندی ذہنیت سے ہے جو اس خوبصورت ملک کی تصویر کو داغدار کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور آزادی سے لیکر اب تک وہ ہندوستان کی شبیہ کو برابر بگاڑنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں یہی وجہ ہیکہ جب جب انہوں نے کسی سے خطرہ محسوس کیا تو سب سے پہلے اسے خریدنے کی کوشش کی اگر اس میں کامیاب نہ ہوئے تو انہوں نے دوسرا پہلو اختیار کیا مگر اپنے راستے کی رکاوٹ کسی کو بننے نہیں دیا,جب بھی انکا معاملہ عدالت تک پہونچتا ہے تو ان پر خوف اور ڈر کا سایہ بالکل بھی نہیں ہوتا کیونکہ ان کے نمائندے ہر جگہ ڈھال بن کر موجود رہتے ہیں اور جرم ثابت ہو جانے کے باوجود بھی یہ لوگ بیل پر رہا ہو جاتے ہیں اس لیے مسلمانوں کو اصلی لڑائی جمہوری ایوانوں سے زیادہ عدالتوں میں لڑنا ہوگا جس کیلئے ہم کو قائدین سے زیادہ وکیلوں کی ضرورت ہوگی۔ مسلمانوں کی نئی نسل پیشہ قانون سے بہت کم دلچسپی رکھتی ہے۔ ہندوستان میں جہاں ہندوتواذہنیت ہر شعبہ میں گھس چکی ہے وہیں بیشتر محکموں میں مسلمان اقلیت میں ہی نہیں بہت کم ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے فرقہ پرست اعلیٰ عہدیدار مسلمانوں کو لیتے ہی نہیں ہیں یا مسلمان خود ہی نہیں جاتے ہیں ، لیکن قانون کے شعبہ میں کوئی پابندی نہیں ہے یہ آزاد پیشہ ہے۔ مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے مسائل سے غیر مسلم وکلاء کوئی تعلق نہ رکھنے کے باوجود محض شرارت یا اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت یا سنگھ پریوار کی وجہ سے غیر ضروری دخل اندازی کی کوشش کرتے ہیں جبکہ مسلمان وکلاء رضاکارانہ طور پر تو دور کی بات پیسہ لیکر بھی بعض صورتوں میں مسلمانوں کے مقدمات نہیں لیتے ہیں ۔ ممبئی کے ممتاز ایڈوکیٹ جو ایک سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں ان کو ہم نے اکثر مسلمانوں پر تنقید کرتے دیکھا ہے حال ہی اسد الدین اویسی کے ہر انسان کے مسلمان ہی پیدا ہونے والے بیان پر موصوف نے تنقید کو فرض سمجھا کوئی ان سے پوچھے کہ توگاڑیہ، اشوک سنگھل وغیرہ کے بیان پر ایف آئی آر درج کروانا یا مفاد عامہ کے تحت عدالت سے رجوع ہونا تو دور کی بات ہے کبھی تنقیدی بیان بھی دیا تھا؟ بدلتے ہوئے حالات میں ہم کو جوش سے کام لینے کی ضرورت نہیں ہے لیکن مسلمانوں کو اپنی مرعوب بلکہ غلامانہ ذہنیت اور مفاد پرستی اور مصلحت پسندی ترک کرنی ہوگی جس کا مظاہرہ ٹی وی چینلز پر مسلم چہرہ بن کر آنے والے بیشتر مسلمان کرتے ہیں جو کبھی قوم پرست قائدین کرتے تھے۔ زعفرانی یلغارسے پسماندہ ، ناخواندہ اور دین سے کم واقف مسلمانوں کو بچانے کے لئے ہمارے مبلغین کو نہ صرف آگے آنا ہوگا بلکہ ان کو دین سے واقف کروانا ہوگا اور ان کے ایمان کو پختہ کرنے کی مساعی ضروری ہے۔
قارئین کرام!
اتنا ہی نہیں بلکہ ہمیں صحافت کے میدان میں بھی اپنا سکہ جمانا ہوگا اور اردو صحافت کے ساتھ ساتھ ہمیں ہندی انگریزی صحافت کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا اور اپنے بچوں کو بھی اس میدان کا شہسوار بنانا ہوگا کیونکہ جب تک صحافت ہمارے ہاتھوں میں تھی ہم نے دنیا کی سب بڑی طاقت کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور ہندوستان کو آزاد کرا لیا جب صحافت کو ہم نے چھوڑا تو ہم غلام ہو گئے صحافت کے فرق کو ہم نے پہچان لیا_
مولانا ابولکلام آزاد,مولانا حسرت موہانی,مولانا محمد علی جوہر وہ عظیم شخصیتیں تھیں جنکی قلم کا لوہا پوری دنیا مانتی تھی اردو زبان نے ہندوستان کو 190 سال کی غلامی سے آزاد کرایا, اسکے عوض میں اردو کو قتل کر دیا گیا اور ہم خاموش رہے یہی خاموشی کل ہم اور آپ کو گونگا بہرا بنا دیگی ہمارے بچوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہونچا دیگی, ہم نے جب سےصحافت کو چھوڑ دیا ہم پھر سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیے گئے
1901 میں ہندو راشٹر کا خواب دیکھنے والے اس زبان کی اہمیت,اسکی طاقت, کو بخوبی جانتے تھے کہ اگر اس زبان کو یہیں ختم نہیں کیا گیا تو یہ قوم پھر سے طاقت ور ہو جائیگی اور کہیں ایسا نہ ہو کہ 700 سال مغلیہ سلطنت کی شروعات دوبارہ ہو جائے ہم نے دو ٹکڑوں میں بٹنا منظور کر لیا,اردو کا قتل ہم نے سر جھکا کر تسلیم کر لیا,صحافت ہمارے ہاتھوں سے چھین لی گئی اب کوئی ابوالکلام آزاد,محمد علی جوہر,حسرت موہانی اردو,ہندی,انگریزی صحافت میں نہیں ہے اسلیے ہم پریشان ہیں _
قارئین کرام!
ہمکو قطعا اس بات کا احساس نہیں ہیکہ ایک صحافی کا نہ ہونا ہمارے وکیل کا نہ ہونے کے برابر ہے ایک معمولی سے جرم میں اگر بھائی یا لڑکا قید کر لیا جاتا ہے تو آپ کا مقدمہ ایک وکیل لڑتا ہے کیونکہ عدالت میں آپ خود اپنے بچے کا مقدمہ نہیں لڑ سکتے, صحافت آپکی وکیل ہے جو ہر روز آپکا مقدمہ لڑتی ہے اور آپکو انصاف تک پہونچنے میں مدد کرتی ہے_
آج سے تقریبا 70 سال قبل انگریز ہم پر حکومت کر رہے تھے مگر آج انہیں کی شکل میں آرایس ایس اور اسطرح کے مختلف جماعتیں ہم پر حکومت کر رہی ہیں ہمیں انکو یاد دلانا ہوگا کہ وہ یہی مسلم قوم تھی جو پہلی صف میں گھڑے ہوکر انگریزوں سے لوہا لے رہی تھی اور تم انکی غلامی کے پروانوں پر دستخط کر رہے تھے آج تمہیں جو اقتدار ہم نےسونپا ہے یہ ہماری مرہون منت ہے, یہ تخت وتاج تمہیں تمہاری قابلیت سے نہیں بلکہ ہماری قربانیوں کی قیمت سے ملا ہے, جس دن ہم چاہینگے تخت سے تختے پر لا دینگے, تم جس دن ہماری طاقت کو سمجھ لوگے اس دن تمہاری آواز تمہارے گلے سے باہر نہیں نکلنے والی. اور تم سے پہلے ہماری طاقت کو امریکہ نے سمجھ لیا تھا اسے پوری طرح معلوم تھا کہ اسلام پوری دنیا میں بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے,اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ بش کا گھر اچھے سے چلتا رہے اس کے لیے لادین کی کمپنی سے ملنے والی خیرات کی ضرورت ہے,اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر صدام ایران سے جنگ لڑے گا تو وہ ایران کو کمزور کر سکتا ہے,کیونکہ اسے ہماری طاقت کا پورا علم ہے مگر ہم اپنی طاقت کو نہیں جانتے,اس نے بن لادین پر الزام نہیں لگایا تھا,اس نے القائدہ پر الزام نہیں لگایا تھا,اس نے دنیا میں بسنے والے تمام مسلمانوں پر الزام لگا کر انہیں جھکایا تھا,اگر ہم بیدار ہوجاتے تو ساری دنیا کے مسلمان جاگ جاتے,ہم اس بات سے فیصلہ کریں کہ امریکہ جسے دنیا کی سب سے پاورفل اور سب سے بڑی طاقت کہا جاتا ہے اسے جب ایک شخص سے لڑنا ہوتا ہے تو وہ دنیا کے تمام ممالک کے سربراہوں کے پاس بھیک کا کٹورا لیکر انکے دروازوں پے دستک دیتا ہے اور کہتا ہے کہ آو میرا ساتھ دو مجھے ایک مسلمان سےلڑنا ہے مجھے لادین کو زیر کرنا ہے گویا اسے اپنی کمزوری کا احساس ہے کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا یہ حال ہے صرف اس لیے کہ وہ ہماری طاقت کو پہچانتا ہے مگر ہم اپنی طاقت کو نہیں پہچانتے.
اس نے اپنی طاقت دکھائی کہ وہ ایک فرضی عدالت میں عراق کے سربراہ پر جھوٹا مقدمہ چلا کر اسے پھانسی کی سزا دے سکتا ہے. مگر صدام زندگی میں کچھ بھی رہا ہو لیکن ساری دنیا نے کیمروں کے حوالے سے دیکھا کہ جب وہ موت کی سزا کے اعلان کے بعد تختئہ دار پر جا رہا تھا تو اس کے قدم لڑکھڑا نہیں رہے تھے,اسکی زبان لرز نہیں رہی تھی,اسکی آنکھوں سے آنسو نہیں بہہ رہے تھے,وہ کانپتے لبوں سے رحم کی بھیک نہیں مانگ رہا تھا,وہ نہیں کہہ رہا رھا کہ میرے آقا مجھے معاف کردو اور میرے ملک پر قبصہ کرلو,میری تیل کی دولت پر قبضہ کرلو بلکہ اسکے ہاتھ میں قرآن تھا,اس کے دل میں ایمان تھا,اسکی زبان پے اللہ کا نام تھا,اسکی شکل میں ایمان بول رہا تھا, ساری دنیا کے کیمروں نے اسبات کو محسوس کیا اور بخوبی دیکھا کہ ایک سچا مسلمان سر کٹا سکتا ہے مگر سر جھکا نہیں سکتا.
بش نے اسی وقت اس سرزمین پر قدم رکھا جب حکمرانی اسکی تھی,اسکا زرخرید غلام اس ملک کا حکمراں تھا,اسکی فوج مسلط تھی,اسے صد فیصد یقین تھا کہ آج عراق پر میری حکومت ہے,میں وہاں جاونگا تو ہر شخص میرے آگے سر جھکائیگا مگر ایک صحافی منتظر الزیدی کے جوتے نے بتایا کہ بش تو دنیا میں سب سے پاورفل اور سب سے طاقت ور ہو سکتا ہے مگر میرا جوتا تیرا سر جھکا سکتا ہے,تو صدام کا سر نہیں جھکا سکا اسکی زندگی کے آخری لمحہ تک,میں اس سرزمین پر جہاں آج تیری حکومت ہے تیرا سر اپنے جوتے سے جھکا کر دکھا سکتا ہوں جسے ساری دنیا نے دیکھا,
یہی بات اپنے زہن میں رکھیئے اور اپنے جوتوں پے نظر ڈالیے اور الزام تراشی کرنے والوں کے سر پر نظر ڈالیے جس دن آپکا جوتا آپ کے ہاتھ میں آ گیا اس دن انکا سر زمین کیطرف ہوگا ورنہ آپکا سر ہمیشہ جھکا رہیگا_
اللہ ہمیں متحد ہونے کی توفیق دے آمین.
ہر سنگ خاکسار ہے تہذیب کی دلیل
اتنا نہ سر جھکاو کہ دستار گر پڑے
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)