ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
پورے ملک کی نگاہیں گجرات الیکشن پر لگی تھیں ۔جبکہ ہماچل پردیش کا چناؤ بھی اسی کے ساتھ ہوا تھا۔ وہاں ویر بھدر سنگھ اور پریم کمار دھومل کے درمیان اقتدارکی تبدیلی کا سیاسی کھیل چلتارہا ہے۔ اس لئے بی جے پی کی سرکار بننے میں بہ ظاہر یہاں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ دھومل کی ناکامی کے بعد نریندرمودی کی پسند دھومل کی جگہ جے رام ٹھاکر بنے اور گجرات میں بھاجپا نے روپانی کو ہی دوبارہ سرکار بنانے کا موقع دیا۔ کانگریس نے ہماچل پردیش پر اتنی توجہ نہیں دی جتنی گجرات پراس نے توانائی صرف کی۔ اگر گجرات کا آدھا وقت بھی ہماچل میں دیا گیا ہوتا تو کانگریس کی پوزیشن بہتر ہوتی۔ گجرات میں پٹیل، دلت، کسان اور کاروباریوں کی ناراضگی کے باوجود کیسے بی جے پی ریاست میں کمل کھلانے اور 49 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی اوراب اس کے بعدملک کی سیاست پراس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس انتخاب کے نتائج نے یہ واضح کر دیا کہ بی جے پی کا کانگریس کے بغیر بھارت کا خواب شاید خواب ہی رہے گاکیونکہ اسے گجرات کی جیت کانگریس کے ساتھ ملی ہے۔ کانگریس نے 43 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے 80 نشستیں اپنے نام کر لیں ۔ جبکہ اس کے پاس بی جے پی کے مقابلے 25 فیصد بھی تنظیمی ڈھانچہ نہیں تھا ورنہ نتائج کچھ اور ہوتے۔ اس کا اندازہ ان دو واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔ کپل سبل کی بابری کیس میں عدالت سے کی گئی درخواست اور منی شنکر ایر کے بیان کو نریندر مودی نے اپنی سبھاؤں میں نہ صرف بھنایا بلکہ ایر کی بات کو تو گجرات کی عزت سے جوڑ دیا۔جبکہ ایر نے اپنے بیان پر فوراً معافی مانگ لی تھی۔ وہیں راہل گاندھی بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ کے پارٹی چھوڑ نے کے سوال کو اپنی ریلی میں نہیں اٹھا سکے۔کانگریس کی جارحانہ تشہیری مہم سے مودی اور امت شاہ کا وجے رتھ ہانپنے لگا تھا جسے منی شنکر ایر کے بیان سے سنجیونی مل گئی۔ بی جے پی کی جانب سے خود مودی جی نے کمان سنبھالی اور الیکشن جیتنے کیلئے سیاسی اخلاقیات کی ساری حدیں پار کر دیں ۔ ماہرین کے مطابق انہوں نے ہاری ہوئی بازی کو جیت میں بدل دیا۔
گجرات الیکشن کے عوامل پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ چناؤ کا مقصد صرف الیکشن جیتنا ہو گیا ہے۔ چاہے یہ جیت کسی طرح حاصل کی جائے جبکہ جمہوریت انتخاب کی شکل میں عوام کو اپنی پسند نا پسند ظاہر کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ پچھلے کئی ریاستی انتخابات عوام پر مخصوص رائے تھوپنے کے مظہر رہے ہیں ۔ ایسا ہی کچھ گجرات کے الیکشن میں بھی دیکھنے کو ملا۔ بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم ترقی کے نام پر شروع کی تھی۔ جاپان کے وزیر اعظم کا روڈ شو اور بلٹ ٹرین کا معاہدہ اسی کا حصہ تھا۔ عام ناراضگی کی وجہ سے رانی پدماوتی، لو جہاد اور مندروں کی پریکرما نے ترقی، گڈ گورننس اور کرپشن جیسے مدعوں کی جگہ لے لی۔ سومناتھ مندر کی تعمیر کیلئے پنڈت نہرو کے ذریعہ سرکاری فنڈ نہ دینے کی بات کر راہل گاندھی کے ہندو ہونے پر سوال اٹھایا گیا۔ کانگریس بھی راہل کا جنیو دکھا کر انہیں جنیو دھاری پنڈت ثابت کرنے میں پیچھے نہ رہی۔ الیکشن کے دوران راہل گاندھی نے 18 مندروں میں متھا ٹیک کر بی جے پی کو غلط ثابت کر دیا۔ راجستھان میں ایک مسلم مزدور کے بے رحمی سے مارے جانے کا ویڈیو (جس میں قتل کی وجہ رانی پدماوتی اور لوجہاد کو بتایا گیا) فرقہ وارانہ ماحول گرمانے کی طرف اشارہ کر تا ہے۔ اس سب کے باوجود گجرات کے انتخاب پر فرقہ وارانہ رنگ نہیں چڑھ سکا۔ اس کیلئے ہندوؤں اور مسلمانوں کا ضبط قابل ذکر ہے۔
پارٹی اور کابینی وزراء کی ساری تک و دو کے بعد بھی یوگیندر یادو نے پہلے مرحلے کی ووٹنگ کا تجزیہ کرتے ہوئے گجرات میں کانگریس کی سرکار بننے کی پیش گوئی کی تھی۔ تو ہاردک پٹیل نے ووٹنگ کے بعد ای وی ایم میں ہیر پھیرکے ذریعہ بی جے پی کے جیتنے کا شک ظاہر کیا تھا۔ پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم تیکھی اور دھار دار کر دی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یوپی کے بلدیاتی انتخابات کی طرح گجرات میں بھی گاؤں کے مقابلہ شہروں میں بی جے پی کو زیادہ کامیابی ملی۔ احمدآباد، سورت، بڑودہ اور راجکوٹ کی 55 سیٹوں میں سے 46 پر بی جے پی قبضہ کرنے میں کامیاب رہی۔ جبکہ باقی کی 127 سیٹوں میں سے اسے صرف 53 سیٹیں ملیں ۔ وہیں دیہی علاقوں نے ہاتھ کا ساتھ دیا۔ کانگریس نے ہاردک پٹیل، جگنیش میواڑی، الپیش ٹھاکر اور آدی واسی لیڈر چھوٹو وساوا کے ساتھ گٹھ بندھن کیا جس کی وجہ سے اسے ان طبقات کے ووٹ ملے۔ 40 فیصد پٹیل اور 47 فیصد دلت کانگریس کے ساتھ گئے۔ آدی واسیوں میں سے 40 فیصد نے کانگریس میں اور 52 فیصد نے بی جے پی میں یقین ظاہر کیا۔ جبکہ پچھلے چناؤ میں بڑی تعداد میں آدی واسیوں نے کانگریس کو ووٹ دیئے تھے۔
موجودہ گجرات الیکشن کئی اعتبار سے الگ رہا۔ یہاں اقتدار کی لڑائی بی جے پی اور کانگریس کی نہ ہو کر نریندر مودی اور راہل گاندھی کی بنا دی گئی تھی۔ جس میں مودی کی جیت ضرور ہوئی لیکن ہارے راہل بھی نہیں ۔ اس سے بلا شبہ کانگریس کارکنان کا حوصلہ بڑھا ہے لیکن کانگریس کی واپسی ابھی دور ہے۔ الیکشن کمیشن پر بھاجپا کی بے جا حمایت کا الزام لگا۔ اس سے قبل کمیشن کے رول پر اتنے سوال کبھی نہیں اٹھے۔خرچ کے لحاظ سے گجرات الیکشن اب تک کا کسی ریاست کا سب سے خرچیلا الیکشن رہا۔ جانکاروں کے مطابق اس چناؤ میں بھاجپا نے لگ بھگ 1500 کروڑ روپے خرچ کئے ہیں ۔ جو 2012 کے مقابلے دس گنا زیادہ ہے۔ 2012 میں بی جے پی نے 152 کروڑ روپے خرچ کئے تھے۔ صوبائی اور مرکزی حکومت نے چناؤ کے مدنظر جو 3000 کروڑ سے زیادہ کی اسکیموں کا اعلان کیا اگر اس رقم کو جوڑ دیا جائے تو یہ اور زیادہ مہنگا الیکشن بن جائے گا۔ کانگریس پارٹی کا خرچ 750 کروڑ روپے بتایا جا رہا ہے یعنی بی جے پی کا آدھا۔ گجرات میں راہل کی 30 ریلیاں ہوئیں جبکہ مودی کی 34 اور امت شاہ کی 32 کل ملا کر بھاجپا نے 700 سبھائیں کیں ۔ ووٹروں کو بی جے پی کے حق میں ووٹ دینے کیلئے حوصلہ افزائی کر نے کی غرض سے ہر پولنگ بوتھ پر دو پرچارک یعنی 50128 پولنگ اسٹیشن پر ایک لاکھ سے زیادہ پرچارک تعینات تھے۔
اس اعتبار سے بھی یہ الیکشن جدارہا کہ پہلی مرتبہ 551615 لوگوں نے ’’نوٹا ‘‘ کا بٹن دبایا۔ یہ اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ این سی پی، بی ایس پی اور جے ڈی یو نے گجرات میں بی جے پی سے دوستی کا حق ادا کیا۔ ان سیاسی جماعتوں کی وجہ سے 16 سیٹوں پر کانگریس کے ہارنے کا مارجن 200 سے 2000 کے بیچ رہا۔ ان میں ہمت نگر، پوربندر، وجاپور، دیودر، ڈانگس، منسا، ڈھولکا، چھوٹا ادیپور اور گودھرا قابل ذکر ہیں ۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ کانگریس کو این سی پی اور بی ایس پی کے ساتھ اتحاد کرنا چاہئے تھا۔ 2012 میں کانگریس این سی پی نے ساتھ مل کر چناؤ لڑا تھا۔ کانگریس نے این سی پی کو چھ سیٹیں دی تھیں جن میں سے اسے دو پر ہی کامیابی ملی تھی۔ اس بار این سی پی زیادہ سیٹوں کی خواہشمند تھی جس کی وجہ سے شاید وفاق نہیں ہو سکا۔ کئی جگہ آزاد امیدواروں نے بھی کانگریس کو جیت سے دور رکھا۔ تین سیٹیں ایسی رہیں جہاں کانگریس جیت چکی تھی لیکن دوبارہ گنتی میں یہ بھاجپا کے ہاتھ میں چلی گئیں ۔ الیکشن کمیشن نے وی وی پیٹ پرچیوں کے ای وی ایم سے ملان کی مانگ کو قبول نہیں کیا۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے بھی دخل دینے سے انکار کردیا۔ 50128 پولنگ بوتھ میں سے صرف 182 پر وی وی پیٹ پرچیوں کا ای وی ایم سے ملان ہو سکا۔ سوال یہ ہے کہ اگر پرچیوں کا ملان ہونا ہی نہیں تھا تو پھر وی وی پیٹ مشینیں لگائی کیوں گئیں ؟
یہ ایسا انتخاب رہا جو وکاس سے شروع ہو کر فرقہ واریت کی وادیوں سے گزر کر گجرات کی عصمت کو آگے کر دوارکا مندر میں پوجا کے ساتھ مکمل ہوا۔ اس میں بابری مسجد، لوجہاد اور تین طلاق وغیرہ کی باتیں تو آئیں لیکن مسلمانوں کے ہی نہیں گجرات کے مسائل پر بھی بات نہیں ہو سکی۔ گجرات میں مسلم آبادی9.67 فیصد ہے، اور 21 اسمبلی حلقوں میں مسلمان 20 فیصد ہیں ۔ چار مسلمان اس الیکشن میں کامیاب ہوئے وہ چاروں کانگریس کے ٹکٹ پر جیتے ہیں ۔ بی جے پی نے کسی ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ریاست کی دس فیصد آبادی کو نظر انداز کر کے سب کا ساتھ سب کا وکاس کیسے ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ 2019 کے الیکشن میں کامیابی کیلئے کیا بی جے پی مسلمانوں کو ساتھ لے گی یا پھر فرقہ واریت کے آزمائے ہوئے فارمولے پر ہی عمل کرے گی۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)