-
وقت کی ضرورت ہے ’بھارت جوڑو یاترا‘
- سیاسی
- گھر
وقت کی ضرورت ہے ’بھارت جوڑو یاترا‘
377
m.u.h
12/09/2022
0
0
تحریر:ظفر آغا
یہ بات سنہ 2014 کی ہے۔ یومِ آزادی قریب تھا۔ نریندر مودی برسراقتدار ہو چکے تھے۔ کئی لوگوں کے ذہن میں ہندوتوا سیاست اور مودی کے ’گجرات ماڈل‘ کے تعلق سے بہت سارے سوال اور الجھنیں تھیں۔ ہم نے سوچا کیوں نہ ان سوالوں اور الجھنوں کو دور کرنے کے لیے سب سے سینئر صحافی کلدیپ نیر سے بات کی جائے۔ وہ اس وقت زندہ تھے۔ ان سے بہتر اس وقت کی الجھنوں کو دور کرنے والا کون ہو سکتا تھا۔ انھوں نے بٹوارا اور اس سے پیدا ہونے والی نفرت کا سیلاب دیکھا ہی نہیں، جھیلا بھی تھا۔ جواہر لال نہرو سے لے کر نریندر مودی تک سارے وزرائے اعظم کو دیکھا اور ان پر لکھا تھا۔ یہ سوچ کر ہم کلدیپ نیر سے بات کرنے پہنچ گئے۔
بنٹوارے سے لے کر گاندھی جی کے قتل اور جواہر لال و نریندر مودی تک ہر ایشو پر کھل کر بات چیت ہوئی۔ میں نے بعد میں کلدیپ نیر سے ایک ذاتی سوال پوچھا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ بہت مایوس نظر آرہے ہیں۔ وہ کچھ لمحات کے لیے گم سے ہو گئے۔ میں نے اپنا سوال پھر دہرایا۔ وہ چونک گئے، پھر بولے ’تم لوگ ابھی سمجھ نہیں رہے ہو‘۔ میں نے کہا کہ ایسی کون سی بات ہے جو آپ دیکھ اور سمجھ رہے ہیں، اور ہم نہیں سمجھ پا رہے ہیں۔ وہ بولے ’بھائی، بنٹوارے نے جو نفرت کا سیلاب پھیلایا تھا اس کو اس وقت روکنے والے گاندھی اور نہرو تھے۔ انھوں نے لوگوں کے دلوں کو جوڑ کر ملک بچا لیا تھا۔ لیکن مجھے آج ایسا کوئی نہیں دکھائی پڑتا ہے جو دلوں کو جوڑے اور نفرت کی آگ بجھا سکے۔‘
کلدیپ نیر کی دور اندیشی سچ ثابت ہوئی۔ 2014 کے بعد 2022 آتے آتے ملک نفرت کی آگ میں جھلس چکا ہے اور اس آگ کو بجھانے والا کوئی نہیں ہے۔ لیکن گزشتہ ہفتہ اس نفرت کے اندھیرے میں امید کی ایک شمع روشن ہوئی ہے۔ راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس پارٹی نے 7 اگست کو کنیاکماری سے جو ’بھارت جوڑو یاترا‘ شروع کی ہے، وہ ملک سے نفرت مٹانے کی ایک کوشش ہے۔ راہل گاندھی کوئی جواہر لال یا مہاتما گاندھی نہیں ہیں، لیکن اپنی اس کوشش سے وہ گاندھی اور نہرو کے راستے پر چلنے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں۔
آج یہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ مشن 1947 کے وقت سے بھی مشکل لگتا ہے۔ اب تو ملک کا گاؤںگاؤں تقسیم ہو چکا ہے۔ نفرت کی آندھی نے عوام کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ نہ مہنگائی کا خیال، نہ بے روزگاری کی فکر۔ لوگ سب کچھ بھول کر ہر انتخاب میں نفرت کے تاجروں کو ووٹ ڈال رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں کانگریس پارٹی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ ایک خوش آئند پیش قدمی ہے۔ یہ ایک ایسی تحریک بن جانی چاہیے جو صرف کانگریس پارٹی ہی نہیں، پورے ملک کی تحریک ہو جائے۔ ہندوستان اس وقت اندر سے ٹوٹ رہا ہے۔ اس لیے ’بھارت جوڑو یاترا‘ ہر ہندوستانی کا نعرہ ہونا چاہیے۔ اس تحریک کو کسی پارٹی کے نظریہ سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ یہ وقت کی آواز ہے۔ گاؤںگاؤں، نگر-نگر، سماجی کارکنان، ان کی تنظیمیں، ہندوستانی آئین میں یقین رکھنے والی ہر سیاسی پارٹی اور ہر شخص کو مل کر ’بھارت جوڑو‘ مہم کو ایک ملک گیر تحریک بنا دینی چاہیے۔
اس تحریک سے ہی اپوزیشن اتحاد کا مشن بھی پورا ہو سکتا ہے۔ ’بھارت جوڑو‘ ہی واحد راستہ بچا ہے جس کے ذریعہ ہندوستانیوں کے دل میں بسی نفرت کی آگ بجھائی جا سکتی ہے۔ اس لیے کانگریس پارٹی کو اس مہم کو صرف پارٹی کی مہم نہیں رکھنی چاہیے۔ اس مہم کو ویسے ہی چلانا چاہیے جیسے گاندھی جی اپنی مہم سارے ہندوستانیوں کے لیے چلاتے تھے۔ ہر ریاست میں وہاں کی علاقائی پارٹی کو بھی اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ ہر ذات، ہر سماج، ہر مذہب، کسان، مزدور، دانشور، سماجی کارکن اور ہر طبقہ کی آواز ’بھارت جوڑو‘ ہونی چاہیے۔
مکمل اپوزیشن ابھی تک ویسے سرگرم نہیں دکھائی پڑتا جیسا کہ اس کو ہونا چاہیے تھا۔ ’بھات جوڑو یاترا‘ ایک ایسی مہم ہے جو ملک جوڑنے اور اپوزیشن کو جوڑنے کا بھی ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس لیے کنیاکماری سے شروع ہوئی اس مہم کو ملک کے گوشے گوشے تک پہنچا کر ’بھارت جوڑو‘ اور ’بھارتیہ سماج جوڑو‘ مشن میں بدل دینا چاہیے۔ تبھی ملک میں پھیلی نفرت کی آگ بجھ سکتی ہے۔
تیستا سیتلواڈ کی واپسی
مشہور و معروف سماجی کارکن تیستا سیتلواڈ کو سپریم کورٹ نے عارضی ضمانت دے کر ملک میں عدلیہ کا وقار بڑھا دیا ہے۔ انہی تیستا کے خلاف اسی سپریم کورٹ نے دو ماہ قبل فیصلہ دیا تھا۔ اس سے سپریم کورٹ پر ایک طبقہ نے انگلی اٹھانی شروع کر دیا تھا۔ تیستا کے ادارہ ’سنٹر فار جسٹس اینڈ پیس‘ نے گجرات میں ہوئے 2002 کے فسادات کے درمیان نرودا پاٹیا علاقے کے فساد متاثرین کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی۔ نرودا پاٹیا علاقے میں مارے گئے احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کی طرف سے یہ معاملہ دوسری بار اٹھایا گیا تھا۔ ایک بار اس معاملے میں فیصلہ آچکا تھا۔ سنٹر فار جسٹس اینڈ پیس نے اپنے آئینی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں اس معاملے کو پھر اٹھایا تھا۔
دوسری بار سپریم کورٹ نے نہ صرف تیستا کی عرضی رد کر دی تھی بلکہ اس معاملے میں یہ بھی کہا تھا کہ ایسے لوگ جو گھڑی گھڑی یہ معاملہ اٹھا رہے ہیں، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ بس اسی بات کو بنیاد بنا کر گجرات حکومت نے تیستا کو گرفتار کر لیا تھا۔ لیکن چیف جسٹس یو یو للت کی قیادت والی بنچ نے تیستا کو ضمانت دے کر پہلے والے فیصلے پر اٹھے سوالوں کو کسی حد تک ختم کر دیا ہے۔اب یہ معاملہ گجرات ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ گجرات ہائی کورٹ سپریم کورٹ کے ذریعہ دی گئی ضمانت کو رد کر دے۔ تیستا اب جیل سے باہر آچکی ہیں۔ وہ بین الاقوامی سطح پر مشہور سماجی کارکن ہیں۔ تیستا کو اب دوبارہ کسی بھی حال میں جیل نہیں جانا چاہیے۔ 2002 میں ہوئے فسادات کے متاثرین کئی لوگوں کو اب بھی انصاف نہیں ملا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ابھی گزشتہ ماہ یومِ آزادی پر بلقیس بانو کے 11 زانیوں کی سزا معاف کر دی گئی اور وہ اب آزاد گھوم رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ گجرات حکومت کے اشارے پر ہی ہوا۔ واضح رہے کہ گجرات حکومت تیستا کو دوبارہ جیل بھیجنے کے لیے زور لگائے گی۔ ابھی سپریم کورٹ میں تیستا کو ضمانت نہ ملنے کے حق میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔ اس لیے انصاف میں یقین رکھنے والی سبھی سماجی تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کو تیستا کی اس لڑائی میں پوری مدد کرنی چاہیے۔ تیستا کی واپسی اب مستقل ہونی چاہیے۔