فدا حسین بالہامی
قبلۂ اول کا تقدس اس کے نام سے ہی عیاں ہے اور اس کی تقدیم و تقدس کیلئے یہ امر کافی ہے کہ اسے مسلمانان عالم کے قبلہ اول ہونے کا شرف حاصل ہے خدا کے اس مقدس گھر کی جانب رخ کرکے اولین و سابقین مومنوں نے امام المرسلین ۖ کی پیشوائی میں نماز ادا کی۔ خداوند قدّوس نے اپنے محبوب کو معراج پر لے جانے کیلئے روئے زمین پر اسی مقدس مقام کا انتخاب کیا۔ جب سے اس کی بنیاد پڑی ہے خاصان خدا بالخصوص پیغمبروں نے اس کی زیارت کو باعث افتخار جانا ہے۔ بیت المقدس بارگاہ خداوندی کے ان اولین سجدہ گزاروں اور توحید پرستوں کا مرکز اول ہے جن کے سجدوں نے انسانیت کو ہزار سجدے سے نجات دلادی۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ جو بیت المقدس مدت مدید سے خداجو افراد کے واسطے خدا نما ثابت ہوا۔ جس نے پریشان فکروںکو مجتمع کر کے مسلمانوں کو مختلف الجہتی اور پراگندگی سے بچایا۔ جس نے فرزندان ِ تو حید کی قوت ِ بندگی کو مرتکز (’’کنسنٹریٹ ‘‘)کیا ۔جس کی بنیاد خدا کے ایک برگزیدہ پیغمبر نے رکھی ہوو ہی قبلہ اول آج صیہونیت کے نرغے میں ہے۔ اور بزبان حال دنیا کے تمام مسلمانوں سے اپنی بازیابی کا مطالبہ کررہا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ ان کی زبوں حالی پر نوحہ کناں بھی ہے۔قبلہ او ل اس اسرائیل کے قبضے میں ہے کہ جس کے لغوی معنی ہیں ''خدا سے گتھم گتھا ہونے والا''۔یہ معنی یہودیوں کی ایک معتبر کتا ب ( ’’دی حولی سپیلکر‘‘ ) میں بیان کئے گئے ہیں۔انسائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر کے مطابق ''لفظ ِاسرائیل ''کے معنی ٰ'' خدا کے ساتھ کشتی کرنے والا '' ہیں۔(بحوالہ ٔ یہودی پروٹوکولز از: وکٹر ای مارسڈن )۔اس بات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل کی بنیاد ہی خدا ستیزی کے تصور پر مبنی ہے۔
یقینا ہر باغیرت مسلمان کے دل میں یہ بات کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے کہ خدا کا یہ گھر اسی خدا ستیز ریاست کے قبضے میں ہے۔ وہ اسکی جب چاہے بے حرمتی کا مرتکب ہوسکتی ہے اور کب سے اس تاک میں ہے کہ اسے مسجد اقصی ٰکی مسماری کا موقع فراہم ہوجائے۔
ظاہر ہے کہ صہیونی حکومت اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ عالم اسلام کے نزدیک بیت المقدس کامسئلہ کافی حساسیت کا حامل ہے۔ لہذا اس مکار حکومت نے بھی اپنی توسیع پسندی کے ایجنڈے میں یروشلم کو ہی مرکزی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ جس طرح عیسائی پادری اور حکمران صلیبی جنگوں سے قبل اور ان جنگوں کے دوران عیسائیوں کو غلط بیانی کے ذریعہ اکساتے تھے کہ وہ اس مقدس شہر کے حقیقی وارث ہیں۔ نیز اسی شہر میں حضرت مسیح دوبارہ ظہور فرمائیں گے وہ ہرسال اپنے پیروکاروں سے کہتے تھے کہ اگلے سال حضرت عیسی کا ظہور اسی شہر میں ہوگا۔ لہذا اس شہر کا ہمارے قبضے میں ہونا نہایت ہی اہم ہے۔ اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈبن گوریان نے صہیونی ایجنڈے کی سنگ بنیاد اس بیان سے ڈالی تھی کہ "یروشلم یہودی ریاست اسرائیل کا جزولاینفک ہے"۔ حالانکہ اقوام متحدہ نے اس شہر کی بین الاقوامی حیثیت کے پیش نظریروشلم کو ’’کورپس سیپریشن ‘‘ یعنی "جدا گانہ شہر" قرار دیا تھا اور یہ بات بہ اتفاق رائے اقوام متحدہ میں طے پائی تھی کہ اس پر یہودی یا عرب حکمرانی کے بجائے اقوام متحدہ کے ماتحت ایک بین الاقوامی حکومت ہوگی۔ لیکن اسرائیلی حکومت نے امریکہ اور برطانیہ کی پشت پناہی کے بل پر ابتدا سے ہی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو درخوار اعتنا نہ جانا اور مسلسل خلاف ورزی کرتا آرہا ہے۔ اقوام متحدہ میں بھی رسما ًاسرائیل کے خلاف قرار دادوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا غالبا اسرائیل دنیا بھر میں واحد ریاست ہے کہ جس کے خلاف اقوام متحدہ میں سب سے زیادہ قرار دادیں پیش ہوئیں۔
بہر عنوان اسرائیل کی یہی کوشش رہی کہ یروشلم ان کے ناجائز قبضے کے پرکار کا مرکزی نقطہ رہے۔ مسلمانوں کے مقاماتِ مقدسہ ان کے زیر نگین رہیں۔ اس سلسلے میں غاصب اسرائیلی حکومت نے یروشلم کے متعلق یہ تصور کیا کہ یہ شہر یہودی ریاست کا دارالحکومت ہوگا۔ چنانچہ ١٩٤٨ ء سے قبل اسرائیل نامی ملک نام ونشان تک دنیا کے نقشے پر نہیں ملتا ہے ۔ اور عالمی طاغوت کی ایک سازش کے تحت1948 میں اس کاقیام عمل میں آیا تھا۔ اسرائیل کو وجود بخشنے کے مغربی یروشلم کو اسرائیل پارلمنٹ کے لئے منتخب کیا گیا ۔ 1967 ء میں اسرائیل اور چند ایک عرب ممالک کے مابین جنگ ہوئی ۔اسرائیل نے اپنے سرپرست ممالک کی حمایت کے بل بوتے پر اپنے دشمنوں کو شکت دی ۔جس سے وہ مزید جری ہو گیا اور اس نے مشرقی یروشلم پر بھی اپنا ناجائز قبضہ جما لیا۔پورے مشرقی یروشلم پر جبری قبضے کو آج تک عالمی برادری نے تسلیم نہیں کیا۔لیکن اسرائیل نے عالمی برادری کے موقف کو کبھی بھی خاطر میں نہیں لایا۔
اسرائیل کے ایک سابقہ وزیر اعظم اسحاق رابن کے یہ ہیجان انگیز الفاظ قابل توجہ ہیں کہ "ہر یہودی چاہے وہ مذہبی ہو یا لادینی (سیکولر)اس کا عہد کرتا ہے کہ اے یروشلم! اگر میں تجھے بھول جاوں تو میرا دایاں ہاتھ برباد ہو"۔ صہونیوں نے بیان بازی پر ہی اکتفا نہیں کیا (اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی طرح)ایک منظم اور مستحکم پالیسی ترتیب دی اور اسے عملی شکل دینے کے سلسلے میں کئی ظالمانہ اور کٹھور اقدامات اٹھائے۔دجل و فریب کے تمام ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کئے۔ فلسطینی مسلمانوں کو شہر بدر کرکے اس میں یہودیوں کو بڑے ہی شدو مد سے بسایا۔ وقتا ً فوقتا ًاس شہر میں اسلامی شعائر و آثار مٹانے کی کوشش کیں حتیٰ کہ مسجد اقصیٰ میں آگ بھی لگادی۔بیت المقدس میں عبادت پر پابندی لگا دی۔بارہا مسجد اقصی کے فرش کو فلسطین کے نمازیوں کے خون سے رنگین بنایا گیا۔ ا سرائیل کی نیت اور کاروائیوں کے پیش نظر 1986 میں اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر 19 کے تحت اسرائیلی اقدامات کی شدید مذمت کی گئی جب مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی توہین کی گئی تھی۔ مگر دوسری جانب امریکی جائنٹ چیفس آف اسٹاف کی ایک خفیہ رپورٹ زیر نما 1948/11 مورخہ 31 مارچ 1948 کے مطابق عظیم اسرائیل کا جو خاکہ تیار ہوا تھا اس پر اسرائیلی صیہونیت اور عالمی سامراجیت مرحلہ وار عمل پیرا ہے اور اس سلسلے میں عرب کی آمریت اپنے آقاوں کے مقاصد کی آبیاری میں مشغول ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جس شجرِ ملعونہ (گریٹر اسرائیل)کی عرب حکمران آبیاری کررہے ہیں۔ اسکے مہیب سائے ان کے شاہی محلوںاور حکومتی ایوانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق گریٹر اسرائیل کے چند ایک درج ذیل اہداف مقرر ہوئے ہیں۔
1۔ ابتدا میں فلسطین کے ایک حصے پر یہودی اقتدار
2۔ پھر فلسطین میں یہودیوں کا غیر محدود داخلہ(جو اب تک جاری ہے)
3۔ پھر، پوری فلسطین پر یہودی اقتدار کی توسیع
4۔ اسکے بعد اردن، لبنان، شام (بلکہ اس کے آگے)ارضِ اسرائیل کی توسیع
5۔ پھر، پورے شرقِ اوسط پر اسرائیل کو فوجی، سیاسی اور معاشی تسلط۔(بحوالہ مغرب اور عالم اسلام۔۔۔ ایک مطالعہ۔۔ از خرم مراد)
بہرحال اسرائیل آزادی ٔ قدس و فلسطین کے سر خیلوں کے ٹھکانے لگانے کے پلان پر عمل پیرا ہے۔اور آزادی پسند فلسطینیوں کا دائرہ حیات تنگ کر نے پر کمر بستہ ہے۔اس کا زندہ ثبوت غزہ کا طویل مدتی محاصرہ ہے ۔جسے غزہ ایک عرصے سے انسانی بحران سے دوچار ہے۔ڈیڑھ ملین نفوس پر مشتمل ایک انسانی بستی کھلی قید میں مقید ہے بنیادی سہولیات مفقود ہیں ۔پوری دنیا سے تمام قسم کی ارتباطی راہیں مسدود ہیں۔بے سرو سامانی کے عالم میں اہلیانِ غزہ کا ایک ایک لمحہ بھاری ہے
یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے کہ اپنی انتھک لگن اور محنت کے بل بوتے پر صہیونیوں نے پو ری دنیا پر اپنا اثر و رسوخ قائم کیا ہوا ہے۔ اس چھوٹی سی قوم نے اقوام ِ عالم کو اپنے فریب کاریوں کے دام میں اسیر کر لیاہے۔حتیٰ کہ امت ِ مسلمہ جیسی عظیم ملت بھی اس کی چالبازیوں کے سامنے فی الوقت بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ چھوٹی سی قوم منظم و متحد اور متعہد ہے جب کہ بحیثیت ِ مجموعی امت ِ مسلمہ انتشار و افتراق اور بد عہدی میں اسوقت یگانہ ٔ روزگار ہے۔
قابل ستائش بات یہ ہے کہ ایک جانب اگر بیت المقدس کے قریب و جوار میں اسرائیلی حکومت نے ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا تاکہ وہ شعائر اللہ کی تعظیم اور بیت المقدس کی بازیابی کے ارادے سے باز آجائیں تو دوسری جانب حضرت ابراہیم کی سنت کی تقلید میں سینکڑوں فلسطینی والدین نے اپنے لخت ہائے جگر قبلہ اول کی تقدیس میں قربان کئے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی عظیم قربانیاں رائیگان ہوتی دکھائی دیتی ہیں کیونکہ ما سوائے چند مسلم ممالک فلسطینیوںکی نمائندگی اور حمایت کرنے سے کترارہے ہیں ۔ مسجد اقصی کے درو دیوار مظلوم فلسطینیوںکی حالت زار پر لرزاں و ترساں ہیں اور مسلم حکومتوں کے سربراہ اپنے عشرت کدوں میں بے حس و حرکت پڑے ہیں۔ ان شعائر اللہ کا اغیار کے قبضے میں ہونا اور ان کی روزانہ توہین در اصل مسلمانان عالم کی لاچاری و محکومی کی کھلی دلیل ہے۔ جہاں تک مسجد اقصی کی بازیابی کا تعلق ہے یہ کسی خاص خطہ یا فرقہ کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے وابستہ نہیں ہے بلکہ مذہبی اور اخلاقی طور پر فرض عائد ہوتا ہے کہ عالمی پیمانے پر حتی الوسع آزادی قدس کی تحریک کا اہتمام کریں۔ جو جذباتی وابستگی، روحانی وابستگی اور قلبی احترام کعبہ شریف کے تئیں دنیا بھر کے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے۔ وہی احترام و تقدیس قبلہ اول کے حوالے سے بھی ہونا چاہئے تو پھر اس طرح کے سوالات حقیقی مسلمان کے دل کو بے چین کیوں نہ کریں کہ بیت المقدس کی صیہونیت کے چنگل سے رہائی کے سلسلے میں عالمی پیمانے پر کوئی تحریک چلائی کیوں نہیں جاتی؟ کیوں اس مسئلے کو طاق نسیاں کے حوالے کیا گیا ہے؟ کیوں اس معاملے میں مسلم حکومتیں بالخصوص مشرق و سطٰی اور عرب ریاستوں کے حکمران سرد مہری کے شکار ہوئے؟
یہ صورت حال ایک حساس مسلمان کا سکونِ قلب غارت کیوں کرنہ کرے کہ ایک طرف عہد حاضر کا ابرہہ جدید کیل کانٹوں سے لیس ہوکر برسوں سے مرکز اول پرقابض ہے اور عالم اسلام کے لیڈر محض دعا کرتے ہیں کہ رب کعبہ ایک بار پھر سے لشکر ابابیل فضائے فلسطین میں بھیج دے۔ محض دعاوں پر انحصار کرنے والے لیڈرانِ قوم کی یہ نفسیات پوشیدہ نہیں رہ پائی کہ وہ ایک غیر حقیقی طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہیں نیز حرکت و عمل اور قربانی کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ اسی لئے محض نیک جذبات سے کام چلا لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ ربِ لامکان چاہے تو آج کے جدید دور میں بھی معجزہ ابابیل دہرا کر اپنے گھر کو اسرائیلی غاصبوں کے قبضے سے آزاد کراسکتا ہے۔ لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ پھر قریبا 58ممالک پر مشتمل ایک ارب سے زائد مسلمانوں کا وظیفہ کیا ہے؟ خانہ کعبہ پر ابرہہ کی فوج کشی کے زمانے کی صورت حال اور مسجد الاقصی کے گردا گرد صہیونی حصار کا مسئلہ مختلف ہے۔ اس زمانے میں کوئی مسلم ریاست تھی نہ توحید پرستوں کی کوئی پہچان تھی۔ برعکس اس کے آج دنیا کے کونے کونے میں مسلمان قوم واحد یعنی امت مسلمہ سے منسلک ہیں۔ اور اللہ کے گھر کی محافظت انکی ملی ذمہ داری ہے۔ یقینا اللہ مسلمانوں کا ناصر و مددگار ہے لیکن اس الہی قانون سے یہ ملت بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
اس مسئلے کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ عالم اسلام کے عظیم رہنما اور بانی ٔ انقلاب ِ اسلامی حضرت امام خمینی علیہ رحمہ نے اپنے انقلاب کی بنیاد نہ صرف اسی مسئلے پر رکھی بلکہ انقلاب کے بعد اسی کی خاطر اپنا سب کچھ داو ٔ پر لگا دیا ۔واضع رہے یہ جو اسلامی جمہوریہ ایران کے تیئں مغربی ممالک خصوصاً طاغوتی طاقتیںمخاصمانہ رویہ ا ختیار کئے ہوئے ہیںاس کی بنیادی وجہ قدس کی بازیابی اور آزادیٔ فلسطین کے تئیں مظبوط موقف اور مستحکم ارادہ ہے۔پچھلے سینتیس سالہ اقتصادی پابندی ملت ایران پر عائد کردی ۔آئے روز اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے دھمکیوں پر دھمکیاں دی جارہی ہیںجن کے ذریعے اعصابی جنگ سماں ایران کے سیاسی فضا میں باندھا جاتاہے یہاں تک کہ بڑے بڑے علماو فضلا ، سائنس دانوں ،اور سیاست دانوں کو قتل اسی قصور میں قتل کیا گیا کہ ایران خطے میں فلسطین کا واحد اور زبردست حامی ہے اس نکتے کی مزید وضاحت کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ آٹھ سالہ دفاع ِ مقدس(ایران پر سابق عراقی صدر کا حملہ اور ایرانیوں کا دفاع)کے دوران جو لاکھوں ایرانی نوجوان شہید ہوئے وہ بظاہر ملکی دفاع میں کام آئے لیکن اس تنازے کی گہرائی و گیرائی کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ نو جوانوں نے قدس کی حرمت ، اور مظلوم فلسطینیوںکے حق میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔کیونکہ یہ تمام حربے ایران کے خلاف صرف اور صرف اس عناد میں آزمائے جا رہے ہیں کہ وہ فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کا سب سے بڑا حمایتی ہے بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ اگر آج ایران اپنی خارجہ پالیسی میں مسٔلہ فلسطین و قدس کے چیپٹر کو بند (کلوز) کر دے تو پھر شرعی نظام حکومت اسرائیل اور اربابِ اسرئیل کے نظر میں قبیح ہو گا نہ ایران کے ایٹمی پلانٹ سے اقوام عالم کوئی خطرہ لاحق ہو گا اگر چہ بالفرض اس میں جوہری بم بھی تیار ہوگا ۔گویا ہر اسلامی ملک بشمول ایران کی اسلام نوازی کا معیار یہی ہے کہ وہ مظلوموں کی حمایت کی خاطرپوری دنیا سے کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو اور اس سلسلے میں اپنے وجود تک کو مٹانے پر آمادہ رہو۔اگر یہ عنصر ملکی خارجہ پالیسی میں شامل نہ ہو تو سمجھ لیجئے کوئی لاکھ شرعی نظام کی دہائی دے(جیسا کہ بعض اسلامی ممالک میں دیکھنے کو ملتا ہے) اسکے اس دعوے کی کوئی وقعت نہ ہو گی۔لہٰذا جب تک ایران فلسطین سمیت تمام مظلومان جہاں کی حتی الوسع پشت پناہی کر رہا ہے اس کے اسلامی نظام کی آبرو باقی ہے یہی وجہ ہے کہ بانی ٔ انقلاب امام خمینی نے بیت المقدس اور فلسطین کے موقف میںسر مو بھی پیچھے ہٹے نہ ہی اس معاملے میں کسی مصلحت سے کام لیا۔یہ ان کی پر خلوص جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں مسلمان بلا لحاظ مسلک و مشرب امام خمینی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یوم القدس مناتے ہیں اور مختلف انداز سے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیںامام خمینی کی نظر میں قدس کی بازیابی ان مسائل میں سے تھی جن کو اولیت حاصل تھی اور وہ عالم اسلام میں اس کی اہمیت اجاگر کرنے میں کامیاب بھی ہوئے انہوں نے ایک عظیم ترین دن اس کے لئے وقف کیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام خمینی کے دل میں بیت المقدس کی آزادی کا جذبہ کس قدر موجزن تھا ۔
امام خمینی کی نظر میں بیت المقدس باطل کے خلاف ایک فروزاں علامت ہے جسے راہ ِ حق میں جدوجہد کرنے والے اپنے لئے مینارہ ٔ ہدایت سمجھتے ہیں ۔لیکن امت اس مسٔلے کو شایانِ شان مقام دینے میں ابھی تک کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی اگر قدس اور اس جیسے جملہ ملی مسائل کو امتِ مسلمہ واقعاًسنجیدگی سے لے لیتی تو عالم ِ کی نو عیت کچھ اور ہوتی ۔ جب کوئی کسی ایسے مسئلے کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے تو جان لیجئے وہ اپنے دشمن کو غیر شعوری طور یہ پیغام دیتی ہے کہ اس ملت کے ساتھ کسی بھی قسم کی دست درازی آسان سی بات ہے اسی غیر سنجیدگی ، سرد مہری ، اور جمود زدگی کا منطقی نتیجہ ہے جو مینامار جیسی بہیمت کی صورت میں سامنے آ تی ہے۔نیز ڈونلڈ ٹرمپ بھی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کے لئے ہرزہ سرائی نہ کرتا۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)
(ابنا)