زبیر حسین
یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے چار سو سال پہلے کی بات ہے۔
اس زمانے میں یونان میں اگرچہ جمہوریت تھی لیکن یونانی مذہب کے عقائد اور رسومات کا ماخذ اساطیری داستانیں یا دیومالائی قصے کہانیاں تھیں۔لوگ دیوی دیوتاؤں کو خدا سمجھتے اور ان پر ایمان کامل رکھتے تھے۔ خیال رہے زمانہ قبل مسیح کے یونانی اپنے مذہب کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ ان کے مذہب کی بنیاد یا ماخذ دیومالائی قصے کہانیاں تھیں۔ ان کہانیوں کے کردار دیوی دیوتا تھے اور ان کی تعداد ١٤ تھی۔
ان دیوی دیوتاؤں کے نام زیوس، اپالو، ہرمیس، حادث، آریس، آرتمیس، دیمیتر، دیونیسوس، پوسیدون، افرودیت، ایتھنا یا اثینا، ہیرا، ہیستیا، اور ہیفایستوس ہیں۔یونانیوں کے نزدیک دنیا میں اچھی زندگی گزرنے اور آفات سے محفوظ رہنے کے لئے ان خداؤں کو خوش رکھنا ضروری تھا۔ نیز مرنے کے بعد اگلی دنیا میں بھی یہی خدا ان کا خیال رکھتے تھے۔
لہذا اپنے ان خداؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے وہ کھڑے ہو کر اور ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر ان کی حمدوثنا کرتے رہتے تھے۔ ان میں کئی خدا ایسے بھی تھے جن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے انہیں جانور بھی قربان کرنے پڑتے تھے۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کچھ یونانی اپنے دیوتا حادث اور آرتمیس کو خوش کرنے کے لئے انسانوں کی قربانی دینے کے لئے تیار ہو گئے۔ جہاندیدہ بزرگوں نے مداخلت کرکے انھیں اس عمل سے باز رکھا۔ اسی دور میں ایک مشہور فلسفی اور ماہر لسانیات گزرے ہیں۔ ان کا نام فروتاغورث تھا۔ یورپ کو گرائمر کے اصول اور منطق یا استدلال سے مکالمہ کرنے کے آداب بھی انہوں نے سکھائے۔
انہوں نے اپنی کسی کتاب میں لکھ دیا کہ ہر چیز کی پیمائش کا پیمانہ آدمی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کسی شئے کے اچھا یا برا ہونے یا اچھائی برائی کا فیصلہ انسان کرتا ہے ناکہ کوئی آسمانی دیوی دیوتا۔ نیز انہوں نے صاف صاف کہہ دیا مجھے نہیں معلوم کہ یونانیوں کے خدا یعنی دیوی دیوتا وجود رکھتے ہیں یا نہیں۔ یتھنز کی اسمبلی نے فروتاغورث کے ان خیالات یا بیانات کو یونان کے مذہب کی توہین قرار دے دیا اور فروتاغورث کی شہریت منسوخ کرکے اسے جلاوطن کر دیا۔
نیز فروتاغورث کی لکھی ہوئی تمام کتابیں ضبط کرکے جلا دیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کے چیمپئن افلاطون نے ایتھنز کی اسمبلی کے اس فیصلے (فروتاغورث کی جلاوطنی اور اس کی کتابوں کو نذرآتش کرنے) کو درست قرار دیا۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ فیثا غورث اور فروتاغورث دو مختلف شخصیات ہیں اور ان کے زمانوں میں کم از کم ایک صدی کا فرق ہے۔ فیثا غورث ریاضی دان اور سائنسدان تھا۔ اس کے کلیے یا اصول اب بھی ریاضی کے مضمون میں پڑھائے جاتے ہیں۔ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے ٥٠٠ سال پہلے فوت ہو گئے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ مذہبی جنونیوں نے انھیں قتل کر دیا تھا۔ جلاوطنی کے بعد فروتاغورث سسلی کی طرف چلے گئے۔ انھیں پھر کسی نے نہیں دیکھا۔ غالب امکان ہے کہ وہ سمندر میں ڈوب گئے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)