درود و سلام ہو محمد و آل محمد پر جو وجہ خلقت کائنات ہیں۔ سلام ہو محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس حقیقی پیروکار خمینی بت شکن پر جس نے ایک با ر پھر علوی و حسینی راستے کو سب کے لیے روشن و تابندہ کردیا۔ اس آرٹیکل کے آغاز میں ایک بار پھر امام خمینی رضوان اللہ کی اس بصیرت، معرفت اور دوراندیشی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے جمعہ الوداع کو یوم القدس قرار دیکر حق و باطل کے درمیان حد فاصل کھڑی کر دی۔
قبلہ اول اور بیت المقدس استقامت، مزاحمت اور مقاومت کی علامت ہے۔
قبلہ اول اور بیت المقدس اتحاد بین المسلمین کی نشانی ہے۔
قبلہ اول اور بیت المقدس مردہ باد امریکہ اور مردہ باد اسرائیل کے نعرے کی حقیقی تعبیر ہے۔
بلکہ یوں کہوں تو بہتر ہو گا کہ بیت المقدس نے حق و باطل کی صفوں کو علیحدہ علیحدہ کر دیا ہے۔ منافقت کے چہروں کو بے نقاب کردیا۔ اسلام دشمن طاقتوں کے حقیقی مکروہ چہرے کو بر ملا کر دیا۔ آج بیت المقدس نے اسلام اور انسانی حقوق کے دبیز پردوں کے پیچھے چھپے بظاہر خوشنما چہروں کو دنیا بھر میں آشکار کر دیا ہے۔
کیا آج واضح نہیں ہو گیا ہے کہ کون بیت المقدس کی آزادی کے بجائے غاصب صیہونی حکومت سے تعلقات کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ کیا اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے والوں کو کوئی نہیں پہچانتا۔ اس موضوع کو آپ قارئین کے لیے تھوڑا مزید کھولتے ہیں۔
دیکھیں امام خمینی ابھی نجف اشرف میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے آپ نے اس وقت بھی اسرائیل کی مخالفت اور فلسطین کی آزادی کے لیے ایسا موقف اپنایا تھا کہ اس دور کے عربوں کے بڑے بڑے قائدین بھی اس صراحت اور قاطعیت کے ساتھ قبلہ اول کی آزادی کی بات نہیں کرتے تھے۔
امام خمینی نے ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد فلسطین اور قبلہ اول کو مسلمانوں کا سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ قرار دیا۔ انقلاب کے بعد فلسطینی قیادت کا استقبال، ایف 14 طیاروں کی سلامی سے کیا گیا۔ جس تہران میں پہلوی شاہ کے زمانے میں اسرائیل کا باقاعدہ سفارتخانہ تھا اس کو فلسطین کے سفارتخانے میں بدل دیا گیا۔ ایران کے آئین میں فلسطین کی حمایت کا قانون اور پھر اس کے بعد عالمی یوم القدس کا اعلان ایسا اقدام تھا جو اسرائیل پر سب سے کاری وار ثابت ہوا۔
گزشتہ بتیس تینتیس سالوں میں یوم القدس کے عظیم اجتماعات کو دنیا بھر میں کیوں سنسر کیا جاتا ہے؟ میڈیا بائیکاٹ کی وجہ کیا ہے؟ اس پر سیر حاصل بحث کی ضرورت ہے ۔اسرائیل کو بچانے کے لیے نیو ورلڈ آرڈر، گریٹر اسرائیل، نیومڈل ایسٹ جیسے منصوبے تشکیل دئیے گئے۔ آج شام، عراق اور لبنان وغیرہمیں جو کچھ ہو رہا ہے صرف اسرائیل کے تحفظ کے لیے ہے۔ آج خطے کو شیعہسنی جنگ میں کیوں الجھایا جا رہا ہے صرف اسرائیل کے تحفظ کے لیے۔ آج آل سعود اور آل خلیفہ اپنے عوام اور بالخصوص شیعہمسلمانوں پر کیوں ظلم ڈھا رہے ہیں؟ آج حزب اللہکو لبنان میں تباہکرنے کے لیے کبھی دہشت گرد اور کبھی اندرونی تکفیریوں کو کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟ اب تو قطر کو بھی اس لئے بائیکاٹ کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ وہ حماس کا حامی ہے۔
اس وقت اسرائیل کو صرف حقیقی اسلام جسے امام خمینی اسلام محمدی کہتے تھے، سے خطرہ ہے۔ امریکی اسلام جو آج تکفیریت، داعش، النصرہ، القاعدہ، طالبان اور اسطرح کے دوسرے ناموں سے سرگرم عمل ہے، اس کا بنیادی مقصد اسلام ناب محمدی کے راستے کو روکنا ہے۔
اس وقت عالمی سطح بالخصوص خطے میں جو سرگرمیاں سامنے آرہی ہیں ان کے پیچھے صیہونی پروٹوکول کی سازشیں واضح طور پر نظر آنا شروع ہو رہی ہیں۔ ریاض میں ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں اسلامی ممالک کے ڈکٹیٹر اور نام نہاد جموری سربراہوں نے جس طرح ٹرمپ کی پالیسیوں پر لبیک کہا اور اسرائیل کے ساتھ ہم پیالہ او رہم نوالہ ہونے کے لیے جس طرح اپنی آمادگی کا اظہار کیا اس سے واضح ہو رہا ہے کہ ان ممالک کے سربراہوں کو اپنی عوام پر نہیں بلکہ ڈونالڈ ٹرمپ اور صیہونی لابی پر اعتماد ہے جو انہیں اقتدار میں باقی رکھ سکتے ہیں۔
ایک طرف مسلمان ممالک کے سربراہوں کی یہ حالت ہے کہ وہ اسرائیل کی گود میں بیٹھنے کے لیے بےتاب ہیں جبکہ اسرائیل کی غاصب حکومت روز بروز زوال پذیر ہے اور ان کے داخلی اختلافات کھل کر سامنے آرہی ہیں۔ غاصب اسرائیل نے پوری دنیا میں بسنے والے یہودیوں اور صیہونیوں کو بڑے بڑے خواب دکھا کر مقبوضہ فلسطین میں آباد ہونے کی دعوت دی تھی لیکن آج یہجعلی اور مصنوعی معاشرہخزاں کے پتوں کیطرح جھڑ رہا ہے۔
گزشتہچودہسالوں میں فلسطین چھوڑنے والے اڑتیس فیصد مہاجرین روس سے تعلق رکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ روس سے تعلق رکھنے والے ان یہودی مہاجرین کو مقبوضہ فلسطین میں مختلف طرح کے مسائل کا سامنا ہے جن میں دینی رسومات کی ادائیگی، شادیوں کی رجسٹریشن، حکومتی مسائل، مردوں کی تدفین اور اقتصادی دشواریوں کا خصوصی طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ان مہاجرین کے ساتھ غیر منصفانہ رویہاپنایا جاتا ہے ان مہاجرین کو ایک طرف تو مقامی فلسطینوں کی طرف سے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تو دوسری طرف صیہونی بھی انکے ساتھ تعصب سے پیش آتے ہیں اور شاید یہی ان کی فلسطین کو ترک کرنے اور اس علاقے میں دوبارہ نہ آنے کی بنیادی وجہ ہے۔
یہودی مھاجرین کی مقبوضہ فلسطین میں واپسی اسرائیل کے لیے ایک اسٹریٹیجک اور بنیادی مسئلہ ہے۔ طے یہ تھا کہ دنیا بھر کے صیہونی اس تصوراتی ریاست میں اکھٹے ہوں اور یہاں پر انہیں ایک آئیڈیل ماحول فراہم کیا جائے جس میں نہ بے روزگاری، نہ بدامنی اور نہ غربت و افلاس ہو۔ یہاں پر انہیں وسیع سرمایہ کاری کا موقع دیا جائیگا اور ان سے کسی قسم کا تعصب نہیں برتا جائے گا۔ یہودیوں کے لیے یہ علاقہ بشت موعود کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا لیکن اس وقت صورت حال اس کے برعکس ہے اس تخیلان ریاست میں مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ بدامنی کے ساتھ ساتھ خود صیونیوں کیطرف سے دنیا کے مختلف ممالک سے آئے یودیوں کے ساتھ نسل پرستان اور متعصبان روی اختیار کیا جا رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غاصب صیہونی حکومت ایک جعلی حکومت ہے اور اس کو اپنی ریاست میں متعدد مشکلات اور دشواریوں کا سامنا ہے۔ غاصب اسرائیل کو مقبوض فلسطین کی آبادی کو اپنے حق میں کرنے کے لیے یہودی آبادی کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور وہ یہ کمی باہر سے یہودی مہاجرین کو بلا کر پوری کرنا چاہتا ہے لیکن مختلف ممالک اور علاقوں سے آئے یودیوں کے درمیان بعض ثقافتی اور نسلی تفاوت اور تعصب کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
ماہرین سماجیات کے مطابق اسرائیل نے فلسطین کی آبادی کی شرح کو تبدیل کرنے کے لیے مختلف علاقوں کے یہودیوں کو ایک معاشرے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے جو ایک ناممکن امر ہے۔
فلسطین میں موجود ی ودی نسلی حوالے سے تقسیم ہیں جو مغرب سے مہاجرت کر کے آئے ہیں انہیں اشکنازی کہتے ہیں۔ انہیں اول درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے جبکہ مشرقی علاقوں سے آئے یہودیوں کو سفاردیم" کہا جاتا ہے جو دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ ی ودیوں میں ی تقسیم خود نسل پرستی کی بڑی علامت ہے اور اس نے ثابت کر دیا ہے کہ صیہونی معاشرے میں عدم مساوات، ناانصافی اور طبقاتی تقسیم موجود ہے۔بہر حال صیہونیوں نے جس بہشت موعود کا اپنے شہریوں اور یہودیوں کو خواب دکھایا تھا وہ بہشت اب روز بروز ایک جہنم میں تبدیل ہو رہی ہے اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس سے مقبوضہ فلسطین سے جانے والے یہودی اور صیہونی دوبارہ فلسطین واپس نہیں آتے۔ پرانے مہاجرین کی عدم واپسی اور نئے مہاجرین کی عدم آمد غاصب صیہونی حکومت کے لیے ایک ڈراونے خواب میں تبدیل ہو گئی ہے جس نے غاصب اسرائیل کے مستقبل کو تاریک کر دیا ہے اور فلسطین کی آبادی کی شرح کو تبدیل کرنے کا مقصد ہر آنے والے دن دشوار سے دشوار تر نظر آرہا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دسمبر دو ہزار سولہ میں قرارداد تئیس چونتیس میں فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں صیہونی بستیوں کی تعمیر کی مذمت کرتے ہوئے ان بستیوں کی تعمیرات کا سلسلہ فوری طور پر بند کئے جانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسرائیل کی ہاؤسنگ منسٹری نے مقبوضہ بیت المقدس میں صیہونیوں کے لئے پچیس ہزار رہائشی مکانات بنانے کا اعلان کیا ہے۔
فلسطینی ذرائع کے مطابق اسرائیل کی رہائشی مکانات کی تعمیر سے متعلق وزارت کے حکام نے اعلان کیا ہے کہ صیہونیوں کے لئے پچیس ہزار مکانات بنائے جائیں گے جن میں سے دس ہزار بیت المقدس اور پندرہ ہزار گرین لائن کے پیچھے بنائے جائیں گے۔ گرین لائن، سنہ سڑسٹھ کی سرحدوں سے معروف ہے جو مقبوضہ فلسطین اور مصر، اردن، لبنان اور شام کے درمیان انیس سو انچاس میں فائربندی کے وقت کھینچی گئی ہے۔
امریکہ بیت المقدس کی تقسیم پر راضی ہے۔ تاہم یہ امریکی تجویز صہیونی حکومت کے لئے جو بیت المقدس پر مکمل قبضہ رکھنے کی خواہاں ہے قابل قبول نہیں ہے۔ اسی لئے صہیونی حکام امریکی تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے بیت المقدس پر اپنا مکمل تسلط جمائے رکھنے پر مصر ہیں۔ اس لئے کہ صہیونی حکومت، فلسطینی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کے وقت سے ہی بیت المقدس پر دائمی قبضے کو اپنے مد نظر رکھے ہوئے ہے۔
صہیونی حکومت نے انیس سو اڑتالیس میں مغربی بیت المقدس پر قبضہ کرلیا اور پھر اس غاصب حکومت نے اپنی توسیع پسندانہ پالیسی جاری رکھتے ہوئے انیس سو سڑسٹھ میں مشرقی بیت المقدس پر بھی قبضہ جمالیا۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ صہیونی حکومت بیت المقدس میں اپنے تسلط پسندانہ اقدامات کے تمام مراحل میں فلسطینی علاقوں اور خاص طور سے بیت المقدس پر اپنا غاصبانہ قبضہ مستحکم بنانے میں کوشاں رہی ہے اور اس سلسلے میں غاصب صہیونی حکومت، فلسطینی آبادی کے ڈھانچے کو فلسطینی علاقوں میں یہودی کالونیوں کی تعمیر صہیونیوں کے حق میں تبدیل کرنے، اور فلسطینی علاقوں، خاص طور سے بیت المقدس میں فلسطینی اور اسلامی آثار کی نابودی کے ذریعےاسلامی تشخص کو مٹانے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ اور یہ چاہتی ہے کہ فلسطینی علاقے، یہودی علاقوں میں تبدیل ہوجائیں۔ اور عالمی برادری، صہیونی حکومت کی دیرینہ خواہش اور ناجائز مطالبے کو تسلیم کرلے۔ لہذا کچھ عرصے قبل بیت المقدس کو یہودی بنانے کے مقصد سے پندرہ ارب ڈالر سے زیادہ کا بجٹ مختص کرنا غاصب صہیونی حکومت کی اسی توسیع پسندانہ پالیسی کا ہی ایک حصّہ ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں، دوسوبیالیس اور تین سو اڑتیس، اور جنیوا کنونشن چار کے مطابق، صہیونی حکومت کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ہر قسم کے عمل دخل کی اجازت نہیں ہے۔
اسرائیلی حکومت کو باہر سے یہودی لاکر فلسطین میں آباد کرنے کا منصوبہ اگرچہ ناکام نظر آتا ہے اسکے باوجود وہ صیہونی کالونیوں کی تعمیر کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ فلسطینی علاقوں میں غاصب صہیونی حکومت کے توسیع پسندانہ اقدامات کے تناظر میں کچھ عرصہ پہلے صہیونی اخبار ہاآرتص نے لکھا تھا کہ غاصب صہیونی حکومت کی کابینہ نے نقب کے علاقہ میں واقع فلسطینی دیہات ام الحیران کو منہدم کرنے اور وہاں یہودی کالونیاں بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ صہیونی پارلیمنٹ میں کچھ دنوں قبل اسی حوالے سے منظور کئے جانے والے ایک بل کے تناظر میں کیا گیا۔ صہیونی حکومت نے اس بل کی بنیاد پر نقب کے علاقہ میں موجود فلسطینیوں کو ان کے وطن سے باہر نکالنے اور اس رہائشی علاقہ کو مکمل طور پر منہدم کرنے اور دس یہودی رہائشی کامپلکس تعمیر کرنے کا عمل اپنے ایجنڈے میں شامل قرار دیا ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ صہیونی حکومت نے ساز باز مذاکرات کے ایک ساتھ قدس کے علاقہ میں بھی فلسطینی رہائشی مکانات کو منہدم کرنے کا حکم جاری کیا ہے اگر یہ عمل انجام پایا تو کئی فلسطینی گھرانے بے گھر ہو جائیں گے۔
واضح رہے کہ غاصب صہیونی حکومت اپنے توسیع پسندانہ نئےمنصوبوں کی بنیاد پر مقبوضہ علاقوں اور خاص طور سے نقب سے ہزاروں فلسطینیوں کو آوارہ وطن کرنے کے درپے ہے ۔اس منصوبہ کے مطابق نقب کے علاقہ میں ستر ہزار ہیکٹر فلسینیوں کی زمینوں پر صہیونی حکومت غاصبانہ قبضہ جمانا چاہتی ہے ۔صہیونی پارلیمنٹ میں منظور کردہ اس بل کے تناظر میں چھتیس فلسطینی دیہات منہدم کئے جائیں گے اور چالیس ہزار فلسطینی بے گھر ہوں گے۔
فلسطینیوں کے گھر وسیع پیمانے پر تباہ کرنے اور انہیں اپنے گھروں سے نکالنے کے لیے صیہونی حکومت کے بڑھتے ہوئے اقدامات سے متعلق خبریں ایک ایسے وقت میں منظرعام پر آ رہی ہیں کہ جب صیہونی حکومت نے مختلف فلسطینی علاقوں میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر کو بدستور اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے۔ یہ سب باتیں تمام فلسطینی علاقوں میں صیہونی حکومت کی تباہ کن اور توسیع پسندانہ پالیسیوں میں تیزی کی عکاسی کرتی ہیں۔
صیہونی حکومت مقبوضہ فلسطین کے مختلف علاقوں میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر جیسے انسانیت مخالف اقدامات اور فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر کے مختلف فلسطینی علاقوں میں آبادی کا تناسب صیہونیوں کے حق میں کرنا چاہتی ہے۔
مشرق وسطی میں ساز باز کے عمل کے فلسطینیوں کے لیے نقصان دہ نتائج کے باوجود نام نہاد خود مختار فلسطینی انتظامیہ ساز باز عمل پر زور دے رہی ہے۔ فلسطینی انتظامیہ کے اس طرز عمل پر فلسطینی سخت احتجاج اور تنقید کر رہے ہیں۔مشرق وسطی میں ساز باز کے عمل نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ فلسطینیوں اور عربوں کے لیے صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ اور جارحانہ پالیسیوں میں مزید شدت کے سوا اس کا اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔