شاہدکمال
ہمارے انسانی سماجیات میں منفی نظریات کے جدلیاتی تصادم سے رفتہ رفتہ ایک ایسی بحرانی خلیج پیدا ہو تی جارہی ہے ۔ جس کے خلا سے جبر و تشدد ناانصافی،استحصال،قتل و غارت گری کا مسلسل جنم ہورہا ہے،موجودہ عہد میں دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں ہے ۔جہاں کے لئے یہ کہاجائے کہ وہاں کے عوام کو ہر طرح کا سکون و اطمینان حاصل ہے۔یہ بڑا دشوار کن مرحلہ ہے۔اس کی ایک امکانی صورت یہ بھی ہے کہ اس مشینی عہد میں ہمارا طرز معاشرت پہلے سے بالکل مختلف ہوچکا ہے۔مزیدہماری ناآسودہ طبیعت کی یلغار نے ہم سے ہماری قوت برداشت کو سلب کر لیا ہے۔جس کی وجہ سے ہم چھوٹی سی چھوٹی بات پرباہم دست و گریبان ہوجاتے ہیں۔یہ تو ہمارے روزمرہ کے معمولات میں شامل ہیں۔
لیکن اس کے برعکس ہم اس منفی نظریات کے جدلیات تصادم کو سمجھنے کی کوشش کریں گے جس کا تعلق کہیں نہ کہیں ہم سے بھی ہے۔ اس کے لئے عالمی سیاست کے منظر نامے کو ایک انلارج کینویس پر اس کی نکتہ بہ نکتہ تفہیم کریں، تو ہم اس بات کو بہت آسانی سے درک کر سکتے ہیں۔کہ وہ کون سی طاقتیں ہیں جو ہمارے عالمی سماج کے تانے بانے کو بکھیر نے میں مصروف ہیں،اور پوری دنیا کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دینے کی منصوبہ بند سازش میںملوث ہیں۔دہشت گردی کی یہ سازش بڑے پلانگ کے ساتھ پوری دنیا میں پورموٹ کی جارہی ہیں۔جس کے وجہ سے ہر ملک کے عوام میں ایک خوف و ہراس کا ماحوال بہت واضح طریقے سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔خاص کر وہ ممالک جہاں جمہوریت ہے ،وہاں پر دہشت گردی کا یہ عفریب اقلیت اور اکثیریت ،رنگ و نسل، قوم و ملت اور مسلک و مذہب کے نام پر کافی فروغ پارہاہے۔اس کے پیچھے تخریب کار قوتوں کا سوشل میڈیا میں ایک دوسرے کے خلاف افواہوں کو ہوا دینا بھی ہے۔جس کی زد میں اچھے خاصے پڑھے لوگ بھی آجاتے ہیں۔لہذا ،ایسی کسی بھی غلط انفارمیشن کو سوشل میڈیا پر ٹیگ کرنے اور شیر کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔اس لئے کہ آپ کا یہ غیر دانشمندانہ قدم صرف کسی قوم و مذہب کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
مشرق اوسطیٰ میں برپا ہونے والی جنگ انھیں تخریب کار طاقتوں کا ایک عبرت ناک نمونہ ہے ۔جس سے دیگر ممالک کو سبق لینا چاہئے۔ان تخریبی طاقتوں نے اپنے مزموم مقاصد کے حصول کے لئے اپنی ڈسٹرکٹیوپالیسی اور کنزرویٹیو سوچ کو عملی جامہ پنہانے کے لئے قتل و غارت گری کرنے والے گروہوں کو منظم کیا ،اور انھیں ہر طرح کی مالی اور لاجسٹک امداد فراہم کی،اور انھیں ریموٹ سے کنٹرول ہونے والے کھلونے کی طرح دیگر ممالک کی طرف’’ اللہ اکبر ‘‘کے کھوکھلے نعروں کے ساتھ روانہ کردیا ، اور یہ یہودی و عیسائی نژاد جو دیکھنے میں مسلمان ضرور لگتے ہیں۔دراصل ان کا تعلق دور دور تک اسلام سے نہیں ہے۔وہ اللہ اکبر ‘‘ کے نعروںکے ساتھ بے گناہ انسانوں کی گردنیں کاٹ کر اپنی بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔اصل میں وہ مسلمان نہیں بلکہ یہودیت اور صہیونیت کے محض ایک آلہ کار ہیں۔داعش و دیگر دہشت گرد گروہوں کے منصوبہ ساز لوگوں کو اس طرح کے اقدام کے ارتکاب سے دو طرح کے فائدے ہیں۔۔۔
پہلا فائدہ چونکہ وہ ابتدا سے ہی اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوف زدہ ہیں،اور انھیں کہیں نہ کہیں اسلام سے خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں اسلام دنیا کے تمام نشیب و فراز کو اپنے حلقہ تسخیر میں نہ لے لے۔لہذا اسلام کی مقبولیت کو روکنے کے لئے انھوں نے اسلام کے نام پر پوری دنیا میں دہشت گردی کو ایکسپورٹ کرنا شروع کردیا ۔اور یہ کام مسلمانوں کے ذریعہ ہی انجام دلوائے گئے مسلکی منافرت کو فروغ دے کر، اس لئے کہ ان تخریب سازوں کو مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری کا علم ہے،کہ اس قوم کو کیسے غلط کاموں کے انجام دہی کے لئے خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے،لہذا انھوں نے اس حکمت عملی کا بھر پور استعمال کیا۔
ان تخریب سازوں کا دوسرا ہدف۔۔۔ وہ ممالک ہیں،جو اسلام کی ترویج اور فروغ میں کافی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ان کو معلوم ہے کہ اگر ایسے ملکوں پر لگام نہیں لگائی گئی تو عنقریب وہ اسلام کو اس طرح سے دنیا کے سامنے پیش کریں گے، کہ لوگوں کو اسلام کی سچائی کا علم ہوجائے گا، او ران کا یہ دیرینہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔لہذا ان ممالک کو دیگر میدان سے دور رکھنے کے لئے اُن پر معاشی، اقتصادی ،سیاسی ، سماجی اور دیگر میدان سے دور رکھنے کے لئے،اُن پر بھر پور سوشل پریشر کریٹ کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی ان ملکوںنے اپنی بھر استقامت کا مظاہر کرتے ہوئے،اپنے آپ کو دشمنوں کے مقابلے منظم و مستحکم بنانے میں کسی طرح کی گنجائش باقی نہیں رکھی ۔یہی وجہ ہے کہ وہ ملک آج بھی اپنے حریف ممالک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا ہنر جانتے ہے،یہی وجہ ہے کہ ان کے نام سے صہیونی،استعماری اورامریت پسندطاقتیں خوف زدہ ہیں۔
داعش و دیگر دہشت گرد تنظیموں کے مہم جویوں نے مذہب و مسلک کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑی ساز ش یہ انجام دی، کہ اسلام کے سبھی مسلکوں کے درمیان ایسا خلفشاپیدا کرو کہ لوگ ایک دوسرے سے اسقدر متنفر ہوجائیں کہ ان کے درمیان افہام و تفہیم کے سارے راستے بند ہوجائیں۔جب ہم اس میں کامیاب ہوجائیں گے تو ان کے درمیان پائی جانے والی اخلاقی روادی ،اسلامی اقدرار کی اہمیت خود بخود ختم ہوجاے گی ایسی صورت میں لوگ ایک دوسرے کو سننے اور سمجھنے کی کوشش سے محروم ہوجائیں گے اور ان کے تعلقات میں خود بخود ہمہ ہنگی فقدان ہوجائے گا،سب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور انھیں قتل کرنے کے پر در پے ہوجائیں گے۔جس کا براہ راست فائدہ ہمیں ہوگا۔یہ تخریب ساز اپنے اس مقصد میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوچکے ہیں ، اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کے نام پر حکومت کر رہے ،آمریت پسند ذہنیت رکھنے والے نام نہاد بادشاہوں کے چہروں کو سامنے رکھا اور ساری دنیا کے مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اصل میں یہی سارے دنیا کے مسلمانوں کے اصل قائد ہیں ،اور یہ جو کہیں گے وہی اسلام ہے،اور آپ کا شرعی فریضہ ہے کہ آپ ان کی آواز پر لبیک کہیں۔
جیسا کہ ابھی چند ہفتے پہلے ریاض حکومت نے امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا خیر مقدم بڑے پُر جوش انداز میں کیا تھا ،اس گرم جوشی کا عالم یہ تھی کہ اپنے ضعیفی کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھنے والاآمریکہ کے صدر کی آمد پر ہاتھوں میں تلوار لے کر رقص آرائی فرما رہا تھا۔امریکہ کا ریاض حکومت کا دورا بڑا کامیاب رہا ۔اس کا نتیجہ دھیرے دھیرے کھل کر سامنے آنے لگا ہے، کہ امیر قطر نے سعودی کے شیخ سے اپنے تماتر اقتصادی ، سیاسی و سماجی روابط منقطع کر لئے ہیں، یہاں تک کہ قطری فضائیہ کے لئے سعودیہ اور اس کے حلیف ممالک نے اپنی فضائیہ حدودکے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔قطر کے امیر نے کھلے ہوئے لفظوں میں یہ اعلان بھی کردیا ہے کہ ہم ایران کا ساتھ قطعی نہیں چھوڑیں گے۔
ریاض حکومت اور قطر کے درمیان اچانک ہونے والی اس کشیدگی سے لوگ حیران ہیں اور سیاسی دانشور ابھی کسی حتمی نتیجے تک پہونچنے میں قاصر ہیں، کہ اس معاملہ کو کس تناظر میں دیکھا جائے ۔ اسی بیچ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک ٹوئیٹ نے ،پورے عرب ممالک کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ ضرور کہا ہے کہ۔’’پچاس ممالک کے اتحاد کے ساتھ امریکی صدارت کے دورے کا نتیجہ سامنے آنے لگا ہے،،یہ پیغام ایک ایسے وقت پر دیا گیا ہے، جب کہ دونوں ممالک ایک دوسرے پر دہشت گردی کا الزام خود لگا رہے ہیں۔اب دونوں ممالک میں صلح کے امکان بہت کم نظر آ رہے ہیں،اب یہ بھی ممکن ہے کہ قطر کے ساتھ وہی عمل انجام دیا جائے، جیسا کہ ریاض حکومت ،قطر اور اس کےدیگر حلیف ملکوں نے آپسی اتحاد کے ساتھ یمن پر ایک نہ ختم ہونے والی جنگ مسلط کر رکھی ہے۔لیکن اس کشیدگی کے بعد قطر نے یمن کے محاظ سے اپنے فوجی واپس بلا لئے ہیں۔
لیکن ایسے نازک موقع پر ایران نے قطر کی طرف اپنی امداد کا ہاتھ ضرور بڑھایا ہے۔ جس کی وجہ سے قطر کو وقتی طور سے ہی سہی لیکن اپنے اکیلے پن کا احساس نہیں ہورہا ہے۔لیکن ایک بات ضرور یاد کرنے کی ہے ، جب ریاض حکومت اور قطر کے ساتھ دیگر ممالک نے ملک کر سیریا کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا تھا تو اسوقت ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ نے ایک بات کہی تھی ،جو سچ ثابت ہوتی ہوئی دیکھائی دے رہی ہے، انھوں نے کہا تھا کہ ، اس وقت سے ڈرو کہ دہشت گردی کی لگائی ہوئی آگ جب تمہار ے دامن کو آ لپکے گی ،تب تمہارے پاس اسے بجھانے کا کوئی راستہ نہ ہوگا۔
موجودہ عالمی سیاسی تناظر میں ہونے والی اُتھل پتھل سے اس بات کو علم تو ساری دنیا کو ہوگیا کہ اس پردے کے پیچھے کون لوگ ہیں جو اس پوری دنیا کو آگ اور خون کے دریا میں جھونکنے کی کوشش کرہے ہیں۔ آج ان کے مکروہ چہرے بے نقاب ہوچکے ہیں جنھوں نے داعش جیسے گروپ کو بنانے میں بڑی منصوبہ بند سازشوں سے کام لیا تھا، آج انھیں ایک بڑی شکست سے دوچار ہوکر عالمی سطح پر ذلت و رسوائی کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے۔