-
ہندوستان میں انتہا پسندی عروج پر
- سیاسی
- گھر
ہندوستان میں انتہا پسندی عروج پر
555
M.U.H
14/11/2021
0
0
تحریر:عادل فراز
ہندوستان میں مدت دراز سے فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کو کچلنے اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے کوشاں ہیں ۔یہ سلسلہ کانگریس کے آخری عہد حکومت سے شروع ہوا اور بی جے پی کے دور اقتدار میں ان کوششوں نے تحریک کی صورت اختیار کرلی ۔ابتدائی طورپر یہ یوں ہواکہ پردۂ سیمیں کو مسلمانوں کے خلاف اور نوجوان نسل کے دل و دماغ میں نفرت کا زہر بھرنے کے لیے استعمال کیا گیا ۔1990ء کے بعد زیادہ تر فلموں میں بدمعاش ،مافیا اور دہشت گردوں کے کردار مسلمانوں پر مبنی ہوتے تھے ۔رفتہ رفتہ یہ ہوا کہ زیادہ تر فلمیں جو ’وطن پرستی ‘ کے جذبات پر مبنی ہوتی تھیں ،ان میں مسلمانوں کو ’وطن مخالف‘ اور غدار کی طرح پیش کیا جانے لگا ۔اسی دور میں حقیقت پرست فنکا ر بھی تھے جنہوں نے اس سازش کو سمجھا اور حقیقت پر مبنی فلموں کو فروغ دیا ۔ان کی فلموں میں فرقہ وارانہ فسادات کی حقیقت کو بے نقاب کیا گیا جس پر فاشسٹ طاقتوں نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی ۔اس کے باوجود فلموں میں مسلمانوں کی کردار کشی اور تاریخی و سماجی حقائق کو مسخ کرنے کی جدوجہد جاری رہی ۔بدمعاشوں اور دہشت گردوں کےنام ایسے افراد کے ناموں پر رکھے جانے لگے جو مسلمانوں کے یہاں مقدس اور محترم سمجھے جاتے ہیںتاکہ ہندوستان کی موجودہ نسل ان ناموں سے متنفر ہوجائے ۔بی جے پی کی اقتدار میں آمد کے ساتھ ہی فاشسٹ طاقتوں نے فلم انڈسٹری کو زعفرانی انڈسٹری میں بدل دیا اور استعماری طاقتوں کے ساتھ مل کر پردۂ سیمیں کے ذریعہ تہذیبی و ثقافتی یلغار کا دوسرا دور شروع ہو ا۔کرن جوہر کی ’مائی نیم از خان ‘ اور ’قربان‘ اس سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں ۔اس کے بعد’ ’پدماوت ‘‘، ’’ کیسری ‘‘،’’تھانا جی ،دی وارئیر‘‘، اور ’’سوریہ ونشی ‘‘جیسی بڑے بجٹ کی دیگر فلمیں شامل ہیں ۔آج تقریباً ہر دوسری فلم میں مسلمانوں کے خلاف منظم بیانیہ پیش کیا جارہاہے تاکہ فلم بین طبقے کے دل و دماغ میں نفرت کا زہر گھول دیا جائے ۔اس کےلیے ناکام اور کم شہرت یافتہ اداکاروں کا انتخاب کیا گیا ۔مثال کے طورپر اکشے کمار جومسلسل ناکامی کے بعد ذہنی دبائو میں تھے انہیں پروپیگنڈہ فلموں کا ہیرو بناکر پیش کیا گیا ۔کنگنا رناوت جس کو اداکاری کے بجائے اس کی زہر افشانی کے لیے پدم شری اعزاز سے نوازا گیا اس کی دوسری مثال ہے ۔اسی طرح اجئے دیوگن جیسے دیگرمعتدل مزاج اداکاروں کو بھی زعفرانی رنگ میں رنگ دیا گیا ۔موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اگر کسی ناکام اداکار کو کامیابی کے زینے طے کرنےکی خواہش ہے تو وہ اکشے کمار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یرقانی و زعفرانی تنظیموں کا آلہ ٔ کار بن جائے اور ان کے پروپیگنڈہ سنیما کا حصہ بننے میں تامل سے کام نہ لے ۔بوقت ضرورت انہی اداکاروں کا استعمال انتخابی تشہیر اور دیگر جگہوں پر بھی ہوتاہے جس طرح پریش راول اور انوپم کھیر کا بہترین استعمال کیا گیا ۔
زعفرانی تنظیموں نے سنیما سے بڑا حملہ میڈیا کی آزادی پر کیا ۔کیونکہ ہندوستان کا ایک طبقہ سنیما میں رغبت نہیں رکھتا مگر ہر طبقہ کسی نا کسی صورت میں میڈیا سے دلچسپی ضرور رکھتاہے ۔اس لیے میڈیا کو منصوبہ بند سازش کے تحت کارپوریٹ گھرانوںکے حوالے کردیا گیا تاکہ میڈیا کی آزادی پرقدغن لگادیا جائے ۔میڈیا کے تمام تر بڑے اداروں پر کارپوریٹ کا تسلط ہے اور چینلوں پر وہی Content نشر کیا جاتاہے جو ان کے مفاد ات کے خلاف نہ ہو ۔آج نیوز چینل اربوں روپے کے اشتہارات حاصل کررہے ہیں ۔بدلے میں وہ Content نشر کیاجارہاہے جو کارپوریٹ کمپنیاں انہیں provide کروارہی ہیں ۔ان تمام تر کمپنیوں کے مالکان اور عہدیداران ایک مخصوص طرز فکر کے مبلغ اور سرمایہ گذار ہیں ۔اس لیے زیادہ تر نیوز چینلوں پر ’دیش بھکتی ‘ کے نام پر اقلیتی طبقات کے خلاف نفرت انگیزی کی جارہی ہے ۔’بحث و مباحثے ‘ (Debate) کے نام پرفرقہ واریت کو فروغ دیا جارہاہے ۔نیوز چینل کا اینکر سوال کرنے کے بجائے جانبداری کے ساتھ خود بحث میں فریق کی حیثیت سے شامل ہوتاہے اور چیخ چیخ کر طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق گفتگو کرتاہے ۔ہندوستانی سیاست اور سماج کی بے راہ روی میں میڈیا کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔میڈیا جب سوال کرنے بجائےایک فریق کی حیثیت سے بحث و مباحثے میں شریک ہو تو سمجھ لیجیے جمہوریت کا ستون اکھڑ چکاہے ۔ان نیوز چینلوں نے’دیش بھکتی ‘ کے نام پر زعفرانی سیاست کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا اور مسلمانوں کو ’اچھے اور برے ‘مسلمان نیز ’ملک کے وفادار اور غدار‘ مسلمان کے طورپر تقسیم کردیا ۔آج پورا ملک ان کے تیار کردہ بیانیہ کی گرفت میں ہے اور اس مسلمان کو وطن پرست تسلیم کیا جاتاہے جو زعفرانی ایجنڈے کے مطابق عمل کررہاہو ۔البتہ سوشل میڈیا پر موجود بعض چینلوں نے آزادیٔ اظہار کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے میڈیا کے وقار کو بحال کرنے کی کوشش کی ہے اور کسی بھی طرح کی دھمکیوں سے خوف زدہ نہیں ہوئے ،یہ ایک خوش آئند خبر ہے ۔
تیسرا ہدف نصابی و تاریخی کتابوں کو بنایا گیا ۔نصابی کتابوں میں اپنے ایجنڈے کے مطابق تبدیلیاں کی جارہی ہیں اور ہندوستان کی اصل تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرنے کی کوشش ہورہی ہے تاکہ موجودہ اور آئندہ نسل کو گمراہ کرکے اپنے مفاد کے تحت استعمال کیا جاسکے ۔آرایس ایس نے ہر چھوٹے اور بڑے شہر میں ’’شیشو مندر ‘ ‘ اور ’’سنکلپ‘‘ کے نام سے اسکول اور کوچنگ سینٹر کھول رکھے ہیں جہاں ان کا تیار کردہ نصاب رائج ہے ۔ظاہر ہے ان اسکولوں اور کوچنگ سینٹر سے نکلا ہوا دماغ ہمارے مطابق نہیں سوچ سکتا ۔ان تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے بچے بھی پڑھ رہے ہیں ۔ان کا برین واش کرنے کے لیے تربیت یافتہ ٹیچرز رکھے گئے ہیں ۔صرف ’شیشو مندر‘ اور ’سنکلپ‘ میں ہی یہ کھیل نہیں ہورہاہے بلکہ دیگر سرکاری و نیم سرکار ی تعلیمی اداروں میں بھی آرایس ایس کے تربیت یافتہ افراد گاہے بہ گاہے جاکر نوجوان نسل کا برین واش کررہے ہیں ۔ہندوستانی کی نوجوان نسل کو بلاتفریق مذہب و ملت گمراہ کیا جارہاہے اور تعلیم کے نام پر پروپیگنڈہ نصاب پڑھایا جارہاہے ۔ساتھ ہی تاریخی کتابوں میں تحریف کا کام جاری ہے ۔ہندوستان کی تاریخ پر ازسرنو کام کیا جارہاہے تاکہ ’گوڈسے ‘ جیسے شخص کو ’دیش بھکت ‘ ثابت کرکے گاندھیائی نظریات کا جنازہ نکال دیا جائے ۔بعض کتابوں میں اس قدر تحریف کردی گئی ہے کہ آریائی قوم کو ہندوستان کا قدیم باشندہ بتلاکر انہیں ہندوستان کے مالک کی حیثیت سے پیش کیا جارہاہے ۔
آرایس ایس کی ذیلی شاخوں نے ان کے اہداف کی تکمیل میں بہت آسانیاں پیدا کی ہیں ۔خاص طورپر مسلم راشٹریہ منچ جس کے روح و رواں اندریش کمار ہیں ۔اس تنظیم کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ اس نےمسلمانوں کے درمیان نفوذ پیدا کرکے ضمیر فروشوں اور مفاد پرستوں کو تلاش کیا۔آج تقریباً ہر سرکاری اور نیم سرکاری ادارے میں جہاں بھی مسلمان کسی اہم عہدے پرفائز ہے وہ مسلم راشٹریہ منچ کا رکن ہے ۔انہوں نے قانونی و انتظامی اداروں ،عدلیہ ،کالجوں اور یونیورسٹیوں ،پولیس محکمہ جات اور انتخابی کمیشن تک میں اپنے افراد کو معین کردیاہے ۔ظاہر ہےان کے مقرر کردہ افراد ملک و ملت کے وفادار نہیں ہوسکتے بلکہ ایک مخصوص طرز فکر کے ترجمان اور تنظیم کے آئین کے وفادار ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ جو کچھ چاہتے ہیں آسانی سے کرلیتے ہیں اور ہم بہت جدوجہد کے بعد بھی کچھ نہیں کرپاتے۔ان کا معین کردہ قاضی ’عقیدت ‘ کی بنیاد پر حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے ’بابری مسجد ‘ کا فیصلہ تبدیل کردیتاہے ۔اس کے برخلاف دیگر فرقوں اور طبقات کے عقائد اور مذہبی جذبات کا حترام ملحوظ نہیں رکھا جاتا،یہ قابل افسوس ہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد بابری مسجد کا متنازعہ فیصلہ سنانے والے چیف جسٹس کو راجیہ سبھا کا رکن بنادیا جاتاہے اور ملک کی سیکولر جماعتیں تماشہ دیکھتی رہ جاتی ہیں ۔جس ملک کی عدالتیں ،قاضی ،قانونی ادارے اور حفاظتی ایجنسیاں ملک کی سالمیت اور تحفظ کے بجائے کسی تنظیم یا افراد کے وفادار کی حیثیت سے کام کررہی ہوں ،وہاں امن کا قیام ایک سنگین مسئلہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تخریبی و شرپسند عناصرببانگ دہل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کررہے ہیں اور پورا ملک خاموشی کے ساتھ تماشا دیکھ رہاہے ۔
ہندوستان میں سیاسی روّیے اور سماجی قدریںتیزی کے ساتھ تبدیل ہورہی ہیں ۔اس برقی تبدیلی پر ملت کے دانشوروں اور قوم کے رہنمائوں کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں سرچھپاکر شکاری کے آنے کا انتظار نہیں کرسکتے ۔جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ شکاری ہماری نسلوں کے سروں پر مسلط ہیں اور جھپٹنے کے انتظار میں ہیں۔مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مرکزی قیادت کا بحران ہے جس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔نیم ملّائی نظام سے نجات کے بارے میں مضبوط لائحۂ عمل ترتیب دینا ہوگا جس نے ہماری قوم کو ذہنی و نفسیاتی مریض بنادیا ہے ۔اگرآج پوری ملت سیاسی و سماجی سطح پر ذہنی و نفسیاتی کشمکش کا شکار ہے تو اسکی تمام تر ذمہ داری نیم ملّائی نظام پر عائد ہوتی ہے ۔جب تک اس قوم کی لگام ناعاقبت اندیش ملّائوں،خطیبوں اور بصیرت سے عاری رہنمائوں کے ہاتھوں میں رہے گی ،ہم اسی طرح مسلسل ناکامیوں کا شکار ہوتے رہیں گے ۔