آصف اقبال
حکومت ہند کی وزارت داخلہ کے مطابق، سنہ2011سے اکتوبر2015تک3365فرقہ وارانہ واقعات رونما ہوئے۔ یہ فرقہ وارانہ واقعات فی ماہ اوسطاً 58درج کیے گئے ہیں ۔ نیز ان فرقہ وارانہ فسادات کا 85%فیصد حصہ ملک کی آٹھ ریاستوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ان میں بہار، گجرات، کرناٹک، کیرلہ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، راجستھان اور اترپردیش ہیں ،بقیہ 21ریاستوں میں 15%فیصد فرقہ وارانہ واقعات رونما ہوئے ہیں ۔ سال 2012میں اترپردیش کی حکومت کی باگ دوڑ ملک کے سب سے کم عمر، نوجوان وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے سنبھالی اور اسی سال2012میں اترپردیش میں 118فرقہ وارانہ واقعات رونما ہوئے۔ 19؍جولائی 2016،لوک سبھا میں شری سنجے دھوترے نے حکومت سے سوال نمبر35میں معلوم کرنا چاہا کہ کیا ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اضافہ ہے ؟ اگر ہاں تو ان کی تعداد اور وجوہات سے واقف کیا جائے۔ سوال کے جواب میں وزرات داخلہ کے وزیر مملکت شری کرن رججو نے جو اعداد و شمار پیش کیے وہ حد درجہ افسوس ناک ہی نہیں ہیں بلکہ ملک کے کمزورترین انتظامی صورتحال پر روشنی بھی ڈالتا ہینیز قانونِ انصاف کی دھجیاں بکھیرتا ہے۔ سال 2013تامئی 2016تک فرقہ وارانہ واقعات کی تعداد 2496درج کی گئی ہے۔ ان فسادات میں 363شہری ہلاک اور7357زخمی ہوئے۔ وہیں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ملک کی ریاست اترپردیش میں اِسی مدت میں 596فرقہ وارانہ واقعات رونما ہوئے۔ جن میں 138شہری ہلاک اور1338زخمی ہوئے تھے۔ درج شدہ مدت میں ملک کے کل فروقہ وارانہ واقعات اور ان میں ہلاک شدگان اور زخمیوں کا اوسط نکالا جائے تو ریاست اترپردیش کے نظم و نسق کی بدترین صورتحال بھی سامنے آتی ہے۔ دوران مدت ملک کی 29ریاستوں میں سے صرف ایک ریاست اترپردیش میں 23.87%فیصد فرقہ وارانہ واقعاترونما ہوئے، اِن میں ہلاک شدگان کا اوسط38.01%فیصد اور زخمیوں کا اوسط18.18ہے۔ اس پس منظر میں ریاست کی کارکردگی کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ وہیں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ریاست کی ہمہ جہت ترقی ہو یا فرد واحد اور خاندان کا معاشی،معاشرتی،اورتعلیمی ارتقاء، دونوں ہی، اسی وقت ممکن ہیں ،جبکہ ماحول خوف کی فضا سے پاک فراہم کیا جائے۔ بصورت دیگر،ترقی،جسے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے،وہ عام انسانوں سے تعلق نہیں رکھے گی۔ اور جو عمل یا کام عام انسانوں سے تعلق نہ رکھتا ہو،سماجی اور معاشرتی اعتبار سے بے وقت ہے۔
2011کی مردم شماری کی روشنی میں اترپردیش میں 79.73%فیصد ہندو ہیں تو وہیں 19.31%فیصد مسلمان ہیں ۔ اس تعداد اور فیصد کو اگر مسلمانوں کے پس منظر میں دیکھا جائے تو اترپردیش کے صرف 7اضلاع ایسے ہیں جن میں 40.70%فیصد مسلمان رہتے ہیں ۔ یہ اضلاع سہارنپور،مظفر نگر،میرٹھ،بجنور،مرادآباد،بریلی اور رامپور ہیں ۔ آزاد ہندوستان میں پہلی مرتبہ مردم شماری کے اعداد و شمار1951میں سامنے آئے اور گزشتہ مردم شماری 2011میں کی گئی۔ اس لحاظ سے اترپردیش کے ان ساتھ اضلاع کا جائزہ لیا جائے تو دیکھنے میں آتا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ 1951کی مردم شماری کی روشنی میں سہارنپور میں 30.47%،مظفر نگر میں 27.35%،میرٹھ میں 20.09%،بجنور میں 36.52%،مرادآباد میں 37.33%،بریلی میں 27.36%اوررامپور میں 49.25%فیصد مسلمان رہتے تھے۔ جو2011کی مردم شماری میں سہارنپور میں تقریباً 9%فیصد اضافہ کے ساتھ 39.4%،مظفر نگر میں 14.07%اضافہ کے ساتھ41.42%،میرٹھ میں 9.16%اضافہ کے ساتھ29.25%، بجنور میں 6.66%اضافہ کے ساتھ43.18%،مرادآباد میں 8.29%اضافہ کے ساتھ45.62%،بریلی میں 7.82%اضافہ کے ساتھ35.18%اور رامپور میں 1.61%اضافہ کے ساتھ 50.86%فیصد مسلمانوں کی تعداد درج کی گئی ہے۔ اس پس منظر میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی کا اضافہ مظفر نگر میں 14.07%فیصد سامنے آیا ہے وہیں سب سے کم آبادی کا اضافہ رامپور میں 1.61%فیصد درج کیا گیا ہے۔ دوسری جانب 1951اور2011کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1951میں ان ساتھ اضلاع میں مسلمان، ریاست کے کل مسلم آبادی کا 32.62%فیصد حصہ تھے جو 2011میں بڑھ کے 40.70%ہوگئے، یعنی 8.07%فیصد کا اضافہ ہوا۔ اعداد و شمار کے اسی پس منظر میں 2012تا2016کے درمیان میں پیش آنے والے فرقہ وارانہ فسادات اور واقعات کو بھی دیکھنا چاہیے۔ خصوصاًمظفر نگر کا فساد جہاں اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صرف ایک ضلع مظفر نگر میں 1951اور 2011کے درمیان سب سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ گفتگو کی روشنی میں یہ بات بھی واضح ہو جانی چاہیے کہ جن فرقہ وارانہ واقعات اور فسادات کو ہم کسی بھی چھوٹے یا بڑے واقعہ سے جوڑ کر دیکھتے ہیں ، یا تجزیہ نگار دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ، درحقیقت وہ واقعہ کا حقیقی پس منظر نہیں ہوتا ہے۔ یہ بات بھی حقیقت سے بالا تر نہیں ہے کہ فسادات یا فرقہ وارانہ واقعات جو رونما ہوتے ہیں یا کروائے جاتے ہیں ، وہ بہت منظم اور منصوبہ بند انداز میں ہوتے ہیں ۔ فرقہ وارانہ فسادات اور واقعات کے وقوع پذیر ہونے سے قبل، فسادی نہ صرف مختلف زایوں سے حالات کا جائزہ لیتے ہیں بلکہ اعداد و شمار بھی اکھٹا کرتے ہیں یا انہیں فراہم کیے جاتے ہیں ۔ اس سب کے باوجود حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اُن واقعات پر گرفت کرے،اُن کو ختم کرے،فسادیوں پرسخت کاروائی ہواور مقام،علاقہ،محلہ،ضلع،یاست اور ملک میں امن و امان کا ماحول فراہم کیا جائے۔ پھر ایک حکومت جو کسی بھی سطح پر سرگرم عمل ہے،وہ اگر اِن فرقہ وارانہ واقعات کو ختم کرنے میں ناکام ٹھہرتی ہے،تو اس کے معنی یہی نکالنے چاہیے کہ آیا حکومت خود سنجیدہ نہیں ہے یا پھر اندرون خانہ ایسے افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اس اہم ترین مسئلہ پر فیصلہ سازی اور عمل درآمد میں ، آراء کے لحاظ سے بٹے ہوئے ہیں ۔ ساتھ ہی وہ نہیں چاہتے کہ امن و امان کی فضا ہموار ہواورعدل و انصاف کا قیام عمل میں آئے۔
17ویں اترپردیش قانون ساز اسمبلی کے لیے الیکشن کمیشن آف انڈیا نے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کر دیا ہے۔ 11؍فروری سے 8؍مارچ کے درمیان کل 7مراحل میں الیکشن ہونے والے ہیں ۔ ریاست میں 403اسمبلی حلقے اور 80پارلیمانی حلقے ہیں ۔ گزشتہ 2012کے انتخابات میں عوام نے بہوجن سماج پارٹی کو ناکام بناتے ہوئے سماج وادی پارٹی کو کامیاب کیا تھا۔ 403اسمبلی حلقوں میں سے 224سیٹیں پر برسراقتدار حکومت کو ملی تھیں جو کل ووٹوں کا 29.13%فیصد تھا۔ ناکام ہونے والوں میں بہوجن سماج پارٹی کو 80سیٹیں ملی تھیں اورجو ووٹ شیئرکے لحاظ سے25.91%تھا۔ وہیں 47سیٹیں بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی ملی تھیں اور ان کا ووٹ شیئر15% تھا۔ ایک بار پھر انتخابات سامنے آچکے ہیں اس کے باوجود ریاست کے عوام بہت حد تک کنفیوژ ن کا شکار ہیں ۔ اس کی بڑی وجہ ریاست میں برسراقتدار پارٹی، سماج وادی پارٹی کا کانگریس پارٹی سے اتحاد ہے۔ اسمبلی میں حسب مخالف بہوجن سماج پارٹی اور اس کی سربراہ مایاوتی کو امید ہے کہ اس مرتبہ انہیں گزشتہ 2012کے مقابلہ زیادہ سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوگی۔ وہیں الیکشن سے قبل ہونے والے سروے اس جانب اشارہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ اس مرتبہ بہوجن سماج پارٹی کو 2012کے مقابلہ کم سیٹیں حاصل ہوں گی نیز بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس مرتبہ زیادہ سیٹیں ملیں گی۔ اس سب کے باوجود کہیں دلت مسلم اتحاد کے نعرے لگ رہے ہیں تو کہیں یادو،برہمن اور مسلم اتحاد کی باتیں کی جارہی ہیں ۔ اور چونکہ مسلمانوں کا ووٹ شیئر19%فیصد ہے،لہذا مسلمانوں کو فسطائی طاقتوں کا خوف دلاتے ہوئے اور خود کو اُن کا سب سے بڑامد حریف پیش کرنے کے دعوے،وعدے اور نعرے لگائے جا رہے ہیں ۔ فیصلہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کدھر جانا پسند کریں گے؟لیکن سوال یہ بھی ہے کہ وہ اپنی طاقت کو تقسیم کریں گے یا پھر اپنی حیثیت اور طاقت کا جنازہ نکالیں گے؟لیکن یہ طے ہے کہ وہ جدھر کا بھی یک طرفہ رخ کریں گے،کامیابی اسی کی لکھی جا چکی ہے!