-
ملک کے تعمیری ایجنڈے کو نیا رُخ دینے کی ضرورت ہے
- سیاسی
- گھر
ملک کے تعمیری ایجنڈے کو نیا رُخ دینے کی ضرورت ہے
1371
M.U.H
14/04/2018
1
0
ملک کے تعمیری ایجنڈے کو نیا رُخ دینے کی ضرورت ہے
محمد عارف اقبال
دہلی
تخریب سے تعمیر کا عمل بڑا دشوار ہوتا ہے۔ ایک دیاسلائی ہزاروں گھر کو خاکستر کرسکتی ہے لیکن ان گھروں کی تعمیر میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ انڈین نیشنل کانگریس کی تشکیل انگریزی دور حکومت میں سلطنتِ برطانیہ کی ایک خیرخواہ اور وفادار جماعت کی حیثیت سے مسٹر اے او ہیوم کے دیے ہوئے نظریے کے مطابق 28 دسمبر 1885 کو ہوئی۔ اس کے بنیاد گزاروں میں انگریزی تہذیب کے دلدادہ ایک پارسی تاجر دادا بھائی نوروجی (و:1917) بھی تھے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ہندوستانی سیاست میں جب گاندھی جی داخل ہوئے تو کانگریس کے مقاصد اور طریق کار میں انقلابی تبدیلی آئی۔ اب انڈین نیشنل کانگریس انگریزوں کی وفادار جماعت کے بجائے قومی تحریک بن گئی۔ 1925 میں پہلی ہندوستانی خاتون سروجنی نائڈو اس کی صدر بنائی گئیں۔ 1947 میں ملک کی آزادی کے بعد ملک کا اقتدار کانگریس پارٹی کو منتقل ہوا۔ گویا آزادی کی یہ تحریک کانگریس پارٹی بن چکی تھی۔ کانگریس کی اس مختصر تاریخ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب مئی 2014 میں نریندر مودی پارلیامانی الیکشن میں واضح اکثریت کے ساتھ فتح حاصل کرنے کے بعد ہندوستان کے وزیر اعظم ہوئے تو الیکشن کے دوران میں ان کے سیاسی ایجنڈے کا ایک جملہ یہ بھی مشہور ہوا کہ ’کانگریس مُکت بھارت‘۔ وزیر اعظم اپنی تقریروں میں اب بھی اس بات کو بار بار دہراتے ہیں۔
یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس نے ملک کی باگ ڈور اس وقت سنبھالی جبکہ ملک سنگین صورتِ حال سے دوچار تھا۔ ملک کی مجموعی تعمیر میں اس کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو (و: 27 مئی 1964) نے اپنے دورِ اقتدار میں ملک کو پُرامن رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی ان کے لیے باعث تشویش بنی رہی۔ ان کے جانشین وزیر اعظم لال بہادر شاستری (و: 11 جنوری 1966) کے اچانک انتقال کے بعد ان کی جگہ پر 24 جنوری 1966 کو اندرا گاندھی وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہوئیں۔ ان کا دور اقتدار ہر لحاظ سے سنسنی خیز رہا ہے۔ ان کے بعض کارناموں کو ’ہندو احیا پسند تحریک‘ کے افراد بھی تحسین کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں۔ بالخصوص 1971 میں انہیں ’شکتی‘ اور ’درگا‘ کے القاب سے نوازا گیا۔ یہ بات بھی عیاں ہے کہ کانگریس اپنے طویل دورِ اقتدار میں اور آزادی سے قبل بھی اپنی سیاسی پالیسی کے اعتبار سے ہمیشہ ’اکثریت‘ کو خوش کرنے کی پالیسی پر گامزن رہی اور اقلیتوں کو نظر انداز کیا۔ اس کے باوجود ملک کی ’اکثریت‘ نے ہر سطح پر اسے زک ہی پہنچایا۔ آزادی سے قبل ہی جبکہ کانگریس ایک تحریک تھی، فرقہ پرستی کا بیج بڑی گہرائی میں ڈال دیا گیا تھا۔ آزادی کے بعد ہندوستان کی ترقی کی رفتار اس کے طویل دور اقتدار کے باوجود انتہائی سست رہی۔ البتہ دنیا سے پوشیدہ نہیں کہ اس کے دور اقتدار میں بڑے بڑے فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے۔ نفرت کی آگ سے اندرا گاندھی کے ساتھ راجیو گاندھی بھی نہیں بچ سکے۔ خود گاندھی جی (1948 میں) اسی کا شکار ہوئے جبکہ وہ ملک میں ’رام راجیہ‘ کا خواب دیکھتے تھے۔ ’رام راجیہ‘ کے سلسلے میں گاندھی جی کا قول آج بھی راج گھاٹ میں ان کی سمادھی کے قریب بڑے پُرکشش انداز میں آویزاں ہے۔ کانگریس کی فرقہ پرستی کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے 2015 میں شائع ایک مجاہد آزادی، کانگریسی نیشنلسٹ مسلمان، راجیہ سبھا کے سابق ممبر اور اسکالر ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی مرحوم (1921 151 10 جنوری 2017) کی کتاب The Life and Times of a Nationalist Muslim کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
ہندوستان کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی ایک مخصوص نظریہ کے حامل انسان ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کا ظاہر و باطن یکساں ہے۔ وہ Extrovert بھی ہیں، لاگ لپٹی باتیں شاید کرنا نہیں جانتے۔ وہ ایک ایسے ’بھارت‘ کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں جس کا خواب برسوں سے بی جے پی کی مدر تنظیم آر ایس ایس دیکھتی رہی ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد نریندر مودی کی گفتگو میں ’تخریب‘ کے بجائے تعمیر کا عنصر غالب ہوگیا ہے۔ اس کا اندازہ 15 اگست 2017 کو لال قلعے کی فصیل سے ان کی تازہ تقریر سے بھی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ وہ ایک بین الاقوامی شخصیت بنتے جارہے ہیں۔ انہوں نے گیتا و رامائن کے ساتھ ساتھ اپنی مذہبی شخصیات کا بھی خوب مطالعہ کیا ہے۔ گاندھی جی کے مطالعے میں انہیں ’رام راجیہ‘ کا نکتہ یقیناًملا ہوگا، یہ بھی کہ گاندھی جی نے اپنے سر پر گندگی کے ٹوکرے بھی اٹھائے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی ’سُوچھ بھارت ابھیان‘ کا آغاز کیا جس میں گاندھی جی کو علامتی طور پر خاص انداز سے فوکس (Focus) کیا گیا۔ مودی جی کو یہ بھی اندازہ ہے کہ موجودہ ہندوستانی معاشرہ کی اکثریت ذہنی اور فکری اعتبار سے انتہائی پس ماندہ ہے یا پس ماندہ بنادی گئی ہے۔ ملک میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور ذات پات کی سیاست اپنے شباب پر ہے۔ ناجائز کمائی تو یہاں کی اکثریت کی سرشت میں داخل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے چند تعمیری اور انقلابی پروگرام شروع کیے تو اکثریت میں بے چینی اور اضطراب بڑھنے لگا۔ مودی جی کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ اس اضطراب کی آگ میں خود ان کے اپنے لوگ گھی ڈالنا شروع کردیں گے۔ ان کے بعض غیر تربیت یافتہ رفقا کم علمی یا لاعلمی میں دماغ سے زیادہ اپنے ’انتقامی جذبے‘ کا استعمال کرنے لگے جو کسی جمہوری حکومت کے لیے سم قاتل کے مترادف ہوتے ہیں۔ حد یہ ہوگئی کہ میڈیا نے بھی مین اسٹریم کا پاس و لحاظ چھوڑ دیا۔ اکثر میڈیا گھرانے نے اپنی پیشہ ورانہ دیانت داری کو طاق پر رکھ دیا۔ الکٹرانک میڈیا کے بیشتر اینکرز ’اقتدار‘ کے سامنے سربسجود ہوگئے۔
نریندر مودی جی واضح اکثریت کے ساتھ حکومت کر رہے ہیں۔ بلاشبہ وہ اپنے پارلیمانی ارکان کے بل بوتے پر ’دستور ہند‘ کو بھی بدل سکتے ہیں۔ ’دستور ہند‘ کی حیثیت گیتا یا قرآن کی نہیں ہے کہ اس میں تبدیلی نہ ہو۔ کیونکہ چند انسانوں نے مل کر ہی اسے ملک کے مفاد میں ترتیب دیا تھا۔ اس میں خوش گوار جمہوری تبدیلی بلاشبہ قابل قبول ہوسکتی ہے۔ لہٰذا بعض تنظیموں کی طرف سے ’دستور بچاؤ تحریک‘ بے معنی اور وقت کا ضیاع ہے۔ البتہ وزیر اعظم کے لیے غور و فکر کا مقام یہ ہے کہ وہ ’بھارت‘ کو ’قدیم و جدید‘ کے سنگم کے ساتھ جس رخ پر لے جانا چاہتے ہیں، کیا اس کے لیے ’تخریب‘ ضروری ہے۔ ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ تعمیر کا عمل بے حد دشوار ہوتا ہے۔ تعمیر کے لیے اب ’کانگریس مکت بھارت‘ کہنا بھی شاید ضروری نہیں ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم کو اپنے ان رفقا پر بھی نظر رکھنی ہوگی جن کی وجہ سے تعمیر کا کام ’تخریب‘ میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی کو ان سوالوں پر غور و فکر کرنا چاہیے جو بار بار اٹھائے جارہے ہیں اور عوام میں شدید بے چینی پائی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر چند بنیادی سوالات اس طرح ہیں:
’ہندتو‘ کے آر ایس ایس ایجنڈے کو ’فاشزم‘ سے تعبیر کیا جارہا ہے، کیا مودی جی اس تعبیر کو غلط ثابت کرسکتے ہیں۔
کیا وزیر اعظم ’سنگھ‘ کے ان لاکھوں کارکنوں پر نظر رکھ سکتے ہیں جن کی حرکتوں سے ملک کی فضا مسموم ہوتی جارہی ہے اور عوام محفوظ نہیں ہیں۔ گورکشکوں کو کس قانون کے تحت مسلمانوں اور دلتوں کو زد و کوب کرنے کی اجازت دی گئی ہے؟
یہ الزام بھی عائد کیا جارہا ہے کہ موجودہ حکومت میں دلتوں پر سب سے زیادہ ظلم ہورہا ہے اور مسلمانوں کو دو نمبر شہری بن کر رہنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ کیا وزیر اعظم اس الزام کو غلط ثابت کرسکتے ہیں؟
نریندر مودی اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ ایک مذہبی آئڈیالوجی سے وابستہ ہیں۔ اس لحاظ سے ان کو سچائی کا علمبردار کہا جاسکتا ہے۔ ظلم و جبر سے وہ شدید نفرت بھی کرتے ہوں گے۔ کیا وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ملک کے عوام حدود میں رہتے ہوئے تنقید کی آزادی سے ہم کنار ہوں اور ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے حل کرنے کی فوری تدبیر کی جائے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ بے ضرر عوام کو عدالت کا چکر لگانے پر مجبور نہ کیا جائے۔ ملک کی تمام ریاستوں میں قانون کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے اور ظلم و جبر کی تاریخ رقم نہ کی جائے۔ ہندوستان کی تعمیر میں جن شخصیات نے جس قدر رول ادا کیا ہے، ان کی نشانیوں کو مسمار نہ کیا جائے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ تنگ نظری کو ترک کرکے وسعتِ قلبی کے ساتھ ملک کی تعمیر کے بنیادی نکات پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے۔ اس ضمن میں وزیر اعظم نریندر مودی سے یہ بھی گزارش ہے کہ انہوں نے جس طرح گیتا اور رامائن کا مطالعہ کیا ہے، اللّٰہ کی کتاب قرآن کے تاریخی واقعات کا بھی مطالعہ کریں، جس میں قوموں کی تاریخ کے نشیب و فراز کے ساتھ عبرت کے سامان ہیں۔ یہ مشورہ اس لیے ہے کہ وہ ایک عظیم ملک کے منتخب حکمران ہیں۔ زمین اللّٰہ کی ہے اسے صرف بھارت تک محدود کرنا مناسب نہیں۔ روئے زمین ماں کی گود کی طرح ہوتی ہے جس میں ہر کوئی پیوندِ خاک ہو رہاہے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)