-
اب ’سبزی جہاد‘ کا نیا پروپیگنڈہ،کیا ہندو بیدارہوں گے؟
- سیاسی
- گھر
اب ’سبزی جہاد‘ کا نیا پروپیگنڈہ،کیا ہندو بیدارہوں گے؟
382
m.u.h
17/07/2023
1
0
تحریر: سہیل انجم
اس ملک میں ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد ہے یا پیدا ہو گئی ہے جو مسلمانوں سے خدا واسطے کا نہیں بلکہ بھگوان واسطے کا بیر رکھتی ہے۔ 2014 سے قبل ایسے لوگ خال خال ہی تھے یا تھے تو ذرا پردے میں تھے۔ لیکن اب وہ سب بے نقاب ہو گئے بلکہ عریاں ہو گئے ہیں۔ ایسے لوگوں میں تعلیم یافتہ افراد بھی شامل ہیں اور ناخواندہ بھی۔ حکومت و انتظامیہ میں اعلیٰ مناصب پر فائز لوگ بھی ہیں اور سبکدوش ہو جانے والے بھی ہیں۔ انہی میں کئی وزرائے اعلیٰ بھی ہیں اور ان وزرائے اعلیٰ کے قائد اور اگُوا آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما ہیں۔ حالانکہ اس سے قبل جب وہ کانگریس میں تھے تو انھوں نے مسلم دشمنی کے جذبات کو سات پردوں میں چھپا رکھا تھا۔ لیکن بی جے پی میں آتے ہی اور آسام کا وزیر اعلیٰ بنتے ہی انھوں نے اپنے ان جذبات کا برملا اظہار شروع کر دیا ہے۔
اس وقت پورے ملک میں سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ جو سبزی پہلے کلو کے بھاؤ بک رہی تھی وہ اب گرام کے بھاؤ بک رہی ہے۔ اس کی وجوہات پر ابھی تک گفتگو نہیں ہو رہی تھی۔ لیکن ہیمنت بسوا سرما ایک دور کی کوڑی لے کر آگئے۔ وہ دور کی کوڑی ان کی مسلم دشمنی کی جھولی سے نکلی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ آسام میں سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ’میاں‘ لوگوں یعنی مسلمانوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ریاست کے مسلم سبزی فروش آسامی باشندوں کو مہنگی سبزی فروخت کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آسام میں سبزی کی آڑھت پر مسلمانوں کا قبضہ ہے۔ انھوں نے ہی سبزیوں کی قیمتیں آسمان پر پہنچائی ہیں۔
انھوں نے آسامی نوجوانوں سے کہا ہے کہ وہ سامنے آئیں اور سبزی کا کاروبار کریں تاکہ ان کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جا سکے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ آسامی ہندوؤں کو سبزی کی دکانیں لگانے کی جگہ دیں گے۔ اگر وہ آگے آئیں تو وہ میاں لوگوں کو بھگا دیں گے۔ یعنی مار بھگا دیں گے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ آسام کے مسلم سبزی فروشوں کو ایک دھمکی ہے۔ وہ اس طرح ان کو ہراساں کرکے ان کی دکانوں کی جگہیں خالی کرانا چاہتے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ مسلمانوں کی آبادی ہی کتنی ہے اور ان میں سے کتنے لوگ کاروبار میں ہیں۔ ان میں سے کتنے سبزی فروش ہیں۔ یہ کیا بے تکی بات کہہ دی سرما نے۔
خیال رہے کہ آسام میں میاں بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کو کہا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان کے آبا و اجداد بنگلہ دیش سے ترک وطن کرکے آسام میں آئے تھے۔ لیکن اب وہ کئی نسلوں سے آسام میں آباد ہیں۔ اس کے باوجود اب بھی ان کے ساتھ متعصبانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ ان مسلمانوں کے بارے میں پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ وہ بہت متعصب ہیں اور آسام کی ثقافتی و لسانی شناخت مٹانا چاہتے ہیں۔
دراصل ہیمنت بسوا سرما ایک طرح سے آسام کے مسلمانوں پر ’سبزی جہاد‘ کا الزام عاید کر رہے ہیں۔ جس طرح لو جہاد، کرونا جہاد، تھوک جہاد، یو پی ایس سی جہاد اور جانے کون کون سے جہاد کا پروپیگنڈہ کیا گیا اور ان کی آڑمیں مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اسی طرح اب سبزی جہاد کا پروپیگنڈہ کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے تاکہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا ایک اور بہانہ مل جائے۔ حالانکہ اب تک نہ تو لو جہاد کا کوئی ثبوت ملا ہے اور نہ ہی کسی اور جہاد کا۔ بلکہ کرونا جہاد کے بارے میں تو عدالتوں نے حکومت و انتظامیہ کو بارہا پھٹکار بھی لگائی ہے۔
ممبر آف پارلیمنٹ اور مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے سرما کے بیان کا خوب مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کا بیان مضحکہ اڑانے والا ہے ہی۔ اویسی نے کہا کہ اگر ان کی بھینس دودھ دینا یا ان کی مرغی انڈے دینا بند کر دے تو وہ اس کا الزام بھی مسلمانوں کے سر دھر دیتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ شاید وہ لوگ اپنی ذاتی ناکامیوں کا ذمہ دار بھی مسلمانوں کو ہی بتا دیں۔ ان کی بات درست معلوم ہوتی ہے۔ اس وقت ہندوستان میں کچھ بھی غلط ہو جائے تو اس کا الزام مسلمانوں کے اوپر ڈال دیا جاتا ہے۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ اگر آسام میں سیلاب آجائے یا زیادہ بارش ہونے لگے تو اس کے لیے بھی مسلمانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔
اگر سرما کی بات مان بھی لی جائے کہ آسام میں سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے کے ذمہ دار مسلمان ہیں تو بھلا وہ یہ بتائیں گے کہ ملک کے دیگر حصوں میں سبزیوں کی مہنگائی کے لیے کون ذمہ دار ہے۔ ہر جگہ تو مسلمان ہیں نہیں اور ہر جگہ وہ سبزیوں کا کاروبار نہیں کرتے یا ہر جگہ سبزیوں کے بزنس پر ان کی اجارہ داری نہیں ہے تو پھر دوسری جگہوں پر سبزیاں کیوں مہنگی ہو رہی ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسرے صوبوں اور علاقوں میں سبزیوں کی قیمتیں بڑھانے کے ذمہ دار ہندو ہیں جو مسلمانوں کو مہنگی سبزی بیچنے کے چکر میں تمام لوگوں کو مہنگی سبزی فروخت کر رہے ہیں۔ اس قسم کے خیالات یا تو ذہنی دیوالیہ پن کا نتیجہ ہیں یا پھر وہی یعنی مسلم دشمنی ہی ہے۔
ہیمنت بسوا سرما نے پہلی بار مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان نہیں دیا ہے۔ وہ پہلے بھی ایسے بیانات دیتے رہے ہیں۔ انھوں نے 2016 میں ایک حکم جاری کرکے مدرسوں میں ہفتے کی چھٹی جمعہ کے بجائے اتوار کو کر دی تھی۔ ایک بار انھوں نے کہا تھا کہ وہ آسام سے تمام مدرسے ختم کر دیں گے۔ اور ہوا بھی بڑی حد تک یہی۔ سیکڑوں مدرسوں کو انھوں نے اسکول میں بدل دیا ہے۔ کئی مدرسوں کو دہشت پر گردی کا الزام لگا کر ان کو منہدم کروا دیا ہے۔ این آر سی کی آڑ میں مسلمانوں کو ریاست سے بھگانے کا سلسلہ تو پہلے ہی شروع کیا جا چکا ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ این آر سی کی جو مشق ہوئی تھی اس میں مسلمانوں نے اپنی شہریت ثابت کر دی تھی اور ہندوؤں کی بہت بڑی تعداد غیر ملکی ثابت ہوئی تھی۔ ورنہ اب تک بہت سے مسلمانوں کو ریاست بدر کیا جا چکا ہوتا۔
اب انھوں نے سبزی کی قیمتوں پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اس ملک میں ایسے اندھ بھکت بہت بڑی تعداد میں ہیں جو ایسی بے بنیاد باتوں پر یقین کر لیتے ہیں۔ کرونا کے زمانے میں یہی ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب حکومت اور میڈیا کہہ رہا ہے کہ مسلمان ہی کرونا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں تو یہ بات صحیح ہوگی۔ کوئی تعجب نہیں کہ کل کوئی اندھ بھکت اٹھے اور مسلمانوں پر سبزی جہاد کرنے کا الزام لگا دے اور پھر پورے ملک میں مسلم سبزی فروشوں کے خلاف ایک مہم شروع کر دی جائے۔ ہیمنت بسوا سرما کو اپنے اس گمراہ کن بیان پر معافی مانگنی چاہیے۔