-
نفرت اور تقسیم کے گیارہ سال مکمل
- سیاسی
- گھر
نفرت اور تقسیم کے گیارہ سال مکمل
6
M.U.H
22/06/2025
0
0
تحریر:عادل فراز
وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے حکومت نے گیارہ سال مکمل کرلئے ہیں ۔بی جے پی اقتدارکے گیارہ سال مکمل ہونے پر جشن منارہی ہے اور عوام کو سرکار کی حصولیابیاں گنوانے میں مصروف ہے ۔چونکہ بہار اور بنگال جیسی ریاستوں کے انتخابات سرپر ہیں ،اس لئے بی جے پی گیارہ سال کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے آپریشن سندور کا سہارالے رہی ہے ۔وزیر اعظم مودی بھی فوج کی کامیابی اور بہادری کو بھنانے میں لگے ہیں ۔وہ ہر انتخابی جلسے میں شہیدوں کے نام پر ووٹ مانگتے ہوئے نظر آجاتے ہیں ۔جہاں یہ حربہ کام نہیں کرتاوہاں ’بانٹواور راج کرو‘ کی حکمت عملی اپنالیتے ہیں ۔وزیر اعظم کے پاس انتخابی جلسوں میں تقریر کرنے کے لئے اس بار زیادہ مواد موجود ہے ۔یہ الگ بات کہ وہ ’اچانک جنگ بندی ‘پر سکوت نہیں توڑیں گے مگر آپریشن سندور کے نام پر ووٹ ضرور مانگیں گے ۔ان کے پاس حصولیابیاں گنوانے کے لئے زیادہ کچھ نہیں ہے اس لیے فوج اور شہیدوں کی قربانیوں کا سہارالے رہے ہیں۔
بی جے پی صدر جے پی نڈا نے این ڈی اے حکومت کے گیارہ سال مکمل ہونے پر پارٹی کے مرکزی دفتر میں پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ گیارہ سال قبل سیاست میں ناز برداری،سماجی تقسیم کے ذریعہ کرسی کو محفوظ رکھناملک میں سیاسی کلچر بن گیاتھالیکن مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد جواب دہی کی سیاست شروع ہوئی ۔نہیں معلوم کہ نڈا کس جواب دہی کی بات کررہے ہیں۔گذشتہ گیا رہ سالوں میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک پریس کانفرنس نہیں کی ۔انہیں میڈیا سے کیا خوف لاحق ہے یہ تووہ خود بتلاسکتے ہیں جب کہ میڈیا ان کا پالتوہے ،اس کے باوجود انہوں نے آج تک پریس کانفرنس میں میڈیا کے سوالوں کا جواب دینے سے گریز کیاہے۔وزیر اعظم کی جواب دہی انتخابی جلسوں اور تقریروں سے طے نہیں ہوتی ۔انتخابی جلسوں میں تو فرضی حصولیابی کے قصے سنائے جاتے ہیں ،کبھی نہ پورے ہونے والے وعدے کئے جاتے ہیں ،ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جاتی ہے اور سماجی تقسیم کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش ہوتی ہے ،جس کے بارے میں نڈایہ کہتے ہیں کہ گیارہ سال قبل سماجی تقسیم کے ذریعہ کرسی کو محفوظ رکھاجاتاتھا،یہ سلسلہ تو اب بھی جاری ہے ۔وزیر اعظم نے جب عوام سے انتخابی تقریر میں یہ وعدہ کیاکہ ہر ایک بینک کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے آئیں گے تو انہیں کی پارٹی نے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے اس کو انتخابی جملہ قراردیاتھا۔رہا سماجی تقسیم کا مسئلہ تو بی جے پی سے زیادہ ’بانٹو اور راج کرو‘ کی پالیسی پر کسی نے عمل نہیں کیاہوگا۔انہوں نے سب سے پہلے سماج کو ہندواور مسلم میں تقسیم کیااور اب ہندوئوں میں بھی منوسمرتی کی روشنی میں طبقاتی نظام کو مزید فروغ دینے کی کوشش ہورہی ہے ۔کیونکہ جس ’ہندوراشٹر‘ کی بی جے پی بات کررہی ہے اس میں منوسمرتی کو کلیدی حیثیت حاصل ہوگی ۔منوسمرتی میں سوائے سماجی تقسیم کے اورکیاہے ؟ حیرت یہ ہے کہ جو پارٹی ’ہندوتوا‘ کی سیاست کی بناپر اقتدارمیں آئی ہووہ سماجی تقسیم پر سبق دے رہی ہے ۔
پریس کانفرنس میں جب نڈا سے ملک میں اقلیتوں کے خلاف موجود نفرت کے ماحول پر سوال کیاگیاتو وہ بڑی خوب صورتی سے ٹال گئے ۔انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ ہم سب کا ساتھ ،سب کا وکاس ،سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘ کےمنتر کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔انہوں نے مآب لنچنگ ،گئو رکچھا کے نام پر بے گناہوں پر ہورہے تشدد اور قتل ،مذہبی تشخص پر حملے ،عبادت گاہوں کو منظم منصوبے کے تحت مسمار کرنے کی پالیسی ،بلڈوزر کی جانب دارانہ اور غیر قانونی کاروائی ،مسلمانوں پر جابہ جاہورہے جان لیواحملوں اور مذہبی منافرت پر کوئی بات نہیں کی ۔آخر’سب کا ساتھ ،سب کا وکاس‘ کا فارمولہ کہاں نافذالعمل ہے ؟اگر بی جے پی کے وزیر اور حمایت یافتہ افراد مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کی اپیلیں کرتے ہیں ،ان کی نسل کشی کے نعرے بلند کئے جاتے ہیں ،ان کی عبادت گاہوں پر بھگواپرچم لہرائے جاتے ہیں اور وقف ترمیمی قانون کے ذریعہ ان کے اوقاف کی جائیدادوں کو ہڑپنے کا منصوبہ بنایاجاتاہے توپھر اس میں مسلمانوں کے وکاس کا فارمولہ کہاں ہے ؟رہاان کا یہ کہناکہ گیارہ سال پہلے ’ناز برداری کی سیاست‘ کو فروغ حاص تھاتو کیا اب یہ سلسلہ ختم ہوگیاہے ۔نازبرداری تو اب بھی ہورہی ہے مگر اس پر زیادہ گفتگو نہیں ہوتی ۔
انہوں نے دفعہ ۳۷۰اور دیگر مسائل کو لے کر’ مودی کے جرأت مندانہ فیصلوں‘ کی تعریف کی مگر نوٹ بندی جیسے غیر ضروری فیصلے پر کوئی بات نہیں کی ۔انہو ں نے کورونا میں حکومت کی ناکامی غیر منصوبہ بند لاک ڈائون،وزیر اعظم فنڈ کےشفاف استعمال ،اور ویکسین کی عدم موثریت پر سکوت نہیں توڑا۔دفعہ ۳۷۰ کو ہٹانااگر مودی حکومت کا جرأت مندانہ فیصلہ تھاتوپھر اب تک وادی سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن کیوں نہیں ہوسکا؟حکومت نے دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے وقت بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے کہاتھاکہ اب کشمیر میں دہشت گردی کو مکمل طورپر ختم کردیاجائے گامگر اس کے فوراًبعد پلوامہ میں فوجی قافلے پر دہشت گردانہ حملہ ہوا،جس پر جموں کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک سوال اٹھاتے رہے ہیں ۔حال ہی میں پہلگام میں سیاحوں پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کو کیسے فراموش کیاجاسکتاہے ۔دہشت گرد ہماری سرحدوں میں کیسے گھس آئے یہ ایک بڑاسوال ہے جس پر حکومت اب تک خاموش ہے ۔پہلگام پر وزیر اعظم نے کوئی پریس کانفرنس نہیں کی اور نہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلاکر اپوزیشن جماعتوں کے سوالوں کے جواب دینے کو ضروری سمجھا۔عالمی سطح پر ناکام سفارت کاری کی بناپر حکومت کو دہشت گردی پر اپنے موقف کی توضیح اور تشریح کے لئے مختلف ملکوں میں وفود بھیجناپڑے ۔اس کے باوجودمودی حکومت کے فیصلوں کو جرأت مندانہ قراردینا،محض ڈھٹائی کے سوا اور کچھ نہیں!بی جے پی صدر نڈانے آپریشن سندور پر حکومت کی جم کر تعریف کی مگر جنگ بندی پر کوئی وضاحت پیش نہیں کی ۔آخر امریکی صدر ٹرمپ کے اشارے پر جنگ بندی کیوں کی گئی جب کہ وزیر اعظم نے بہار کے مدھوبنی میں عوام کو خطاب کرتے ہوئے کہاتھاکہ دہشت گردوں کو ایساجواب دیاجائے گاجس کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا،مگر اچانک جنگ بندی نے وزیر اعظم کے اس دعوے کی بھی قلعی کھول دی ۔
کانگریس نے مودی حکومت کے گیارہ سالوں کو نفرت اور خوف کی سیاست سے عبارت قراردیا ۔ کانگریس صدر ملکا رجن کھڑگے نے جے پی نڈا کے دعووں کاجواب دیتے ہوئے مودی حکومت کے گذشتہ گیارہ سالوں کو ہندوستانی جمہوریت ،معیشت اور سماجی تانے بانے کے لئے گہرادھچکاقراردیا۔انہوں نے کہاکہ بی جے پی اور آرایس ایس نے ہر آئینی ادارے کو کمزور اور ان کی خودمختاری پر حملہ کیاہے ۔عوامی مینڈیٹ کو چراکر پچھلےدروازے سے حکومتوں کو گراناہویا ایک جماعتی آمریت کو مسلط کرناہو۔اس عرصے میں ریاستوں کے حقوق کو نظر انداز کیاگیااور وفاقتی ڈھانچہ کمزور ہوا۔دلتوں ،قبائیلوں ،پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے استحصال میں مسلسل اضافہ ہوا۔منی پور میں ختم نہ ہونے والا تشدد بی جے پی کی انتظامی ناکامی کا سب سے بڑاثبوت ہے ۔کانگریس صدر کے تمام الزامات کو مسترد بھی نہیں کیاجاسکتا۔خاص طورپرگزشتہ گیارہ سالوں میں آئینی اداروں کو مسلسل کمزور کیاگیا۔منی پور کے تشدد پر تو بی جے پی صدر کو تفصیل کے ساتھ بات کرنی چاہیے تھی مگر انہوں نے منی پور کے مسئلے کو لائق ذکر بھی نہیں سمجھا۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ بی جے پی صدر اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی میں مصروف ہیں ۔ان کے پاس منی پور تشدد اور حکومت کی انتظامی ناکامی پر کوئی معقول جواب نہیں ہے ۔
بی جے پی نے گزشتہ گیارہ سال میں نفرت اور خوف کی سیاست کو فروغ دیاہے ۔خاص طورپر اترپردیش اور آسام جیسی ریاستیں اس سیاست کی تجربہ گاہیں بنی ہوئی ہیں ۔وزیر اعظم بذات خود اس بیانیہ کا حصہ ہیں ۔ان کے تمام ایسے بیانات جن سے نفرت اور تقسیم کی بوآتی ہے یوگی آدتیہ ناتھ جیسے افراد کے حوصلوں کو مہمیز کرتے ہیں ۔وزیر اعظم کو ہندوستان کی مضبوطی اور ترقی کے منصوبے پر بات کرنی چاہیے ’شمشان اور قبرستان‘ کے موضوع پر نہیں !یہ ملک آئین پر عمل کرتے ہوئے ’وشووگرو‘بن سکتاہے ،منوسمرتی اور زعفرانی تنظیموں کے میوفیسٹوکو اپناکر نہیں !