-
یوکرین،روس جنگ: امریکہ کی دوستی میں تباہ ہوتے ملک
- سیاسی
- گھر
یوکرین،روس جنگ: امریکہ کی دوستی میں تباہ ہوتے ملک
528
M.U.H
26/02/2022
0
0
تحریر: اعجاز علی
آج میں نے یورپ کے ستائس ممالک سے سوال کیا کہ کیا یوکرین نیٹو کا حصہ بنے گا؟ ان میں سے کسی نے میرا جواب نہیں دیا۔ سب ڈرے ہوئے ہیں۔ مگر ہمیں خوف نہیں ہے۔ ہمیں کسی چیز کا خوف نہیں ہے۔ ہمیں اپنے ملک کی حفاظت کرنے سے ڈر نہیں لگتا۔ ہمیں روس سے ڈر نہیں لگتا۔ ہمیں روس سے بات کرنے میں ڈر نہیں لگتا۔ بہت افسوس ہے کہ آج ہم نے 137 ہیروز، اپنے شہری گنوا دیئے۔ ان میں 10 افسران بھی شامل تھے۔ 316 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ ان سب کو یوکرین کے ہیروز کے ٹائٹل سے نوازا جائے گا۔ جنہوں نے یوکرین کیلئے اپنی جان دے دی، انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ میں دارالحکومت میں ہوں۔ میرا خاندان بھی یوکرین میں موجود ہے۔ مجھے یہ حق حاصل نہیں کہ میں کہوں کہ وہ کہاں ہیں۔ میرے بچے یوکرین میں ہیں۔ وہ غدار نہیں ہیں۔ وہ یوکرین کے شہری ہیں۔ ہمیں جو معلومات ملی ہیں، ان کے مطابق میں دشمن کا پہلا ہدف ہوں اور میرا خاندان دشمن کا دوسرا ہدف ہے۔ دشمن ملک کے سربراہ کو تباہ کرکے یوکرین کو سیاسی طور ہر مفلوج کرنا چاہتے ہیں۔" یہ دل دہلا دینے والے الفاظ یوکرین کے موجودہ صدر ولادمیر زیلسکی کے ہیں۔ جن کا ملک اس وقت روسی افواج کے حملے کی زد میں ہے اور اس مشکل کی گھڑی میں انہیں امریکہ اور یورپی ممالک نے تنہا چھوڑ دیا ہے۔
آج سے تیس سال قبل یو ایس ایس آر سے الگ ہونے کے بعد یوکرین بھی ایک ایٹمی قوت تھا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس وقت دنیا کی تیسری بڑی ایٹمی قوت فرانس، برطانیہ یا چین نہیں بلکہ یوکرین تھا۔ پہلے اور دوسرے نمبر پر روس اور امریکہ تھے۔ روس، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے یوکرین سے درخواست کی کہ وہ اپنے جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہو جائے۔ مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھا تو امریکہ اور روس نے یوکرین کو اس بات کی گارنٹی دی کہ وہ جنگ کی صورت میں یوکرین کی حفاظت کریں گے۔ جس پر یوکرین نے اپنے جوہری ہتھیار روس کے حوالے کر دیئے اور یوں یوکرین دنیا کا وہ واحد ملک بن گیا، جس نے امن کے فروغ کیلئے جوہری ہتھیاروں کی قربانی دی۔ البتہ بعض افراد کا یہ ماننا ہے کہ یوکرین کے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا، کیونکہ جوہری ہتھیاروں کے پاسورڈ یوکرین کے پاس نہیں تھے، اسی لئے اس نے دیگر ممالک سے دوستی برقرار رکھنے کو ترجیح دی۔
دنیا کی دو بڑی طاقتیں روس اور امریکہ ایک دوسرے کے روایتی حریف ہیں۔ ماضی میں کولڈ وار کے دوران انہوں نے ہر میدان میں ایک دوسرے کو شکست دینے کی کوششیں کیں ہیں۔ جب امریکہ نے چاند پر پہنچنے کا دعویٰ کیا تو روس نے اس پر اتنے سوالات اٹھائے کہ امریکہ کا دعویٰ ہی مشکوک ہوگیا۔ یو ایس اے نے موسم بدلنے والی سارک ٹیکنالوجی متعارف کروائی تو روس نے انہیں بتایا کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال پہلے سے ہی روس میں کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ کھیلوں کے میدان میں بھی روس اور امریکہ ایک دوسرے کو شکست دینے کے لئے ہر حد تک چلنے کو تیار تھے۔ 1970ء کی دہائی میں یورپ میں شطرنج کے کھیل میں عالمی چمپیئن کا خطاب روسی کھلاڑی سپاسکی کے پاس تھا، جسے شکست دینے کیلئے امریکہ ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔ خوش قسمتی سے ایک امریکی کھلاڑی بوبی فیشر امریکہ میں قومی سطح پر شطرنج کا چمپئین بنا، جسے سپاسکی کو ہرانے کیلئے بھیجا گیا۔
عالمی چیمپئین بننے کے چند سال بعد بوبی فیشر کو منظر عام سے غائب کر دیا گیا۔ کئی سال غائب رہنے کے بعد جب وہ دوبارہ منظر عام پر آیا تو اس نے دعویٰ کیا کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے نے اسے اغوا کیا تھا۔ بوبی فیشر نے کہا کہ امریکہ نے مجھے کولڈ وار کے دوران روس کے خلاف استعمال کیا اور ضرورت ختم ہونے پر مجھے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی۔ بوبی فیشر کو امریکہ پر اعتبار کرنا بہت زیادہ مہنگا پڑ گیا۔ وگرنہ اپنی صلاحیت کی بدولت وہ کافی آگے بڑھ سکتا تھا۔ گذشتہ کئی مہینوں روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگیوں میں مسلسل اضافے کے بعد روس نے یوکرین میں اپنے فوجی دستے داخل کر دیئے ہیں۔ یوکرین میں جنگ کے آغاز کا آلارم بجا اور تباہی شروع ہوگئی۔ روسی افواج اپنے جدید ہتھیاروں اور کثیر تعداد کی وجہ سے مسلسل فتح پر فتح حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ بعض خبروں کے مطابق روس کی فوج یوکرین کے دارالحکومت کیف میں داخل ہوچکی ہے۔
دوسری جانب یوکرین کے صدر نے اپنے شہریوں سے ہتھیار اٹھا کر اپنے وطن کی حفاظت کرنے کی اپیل کر دی ہے۔ غیر تربیت یافتہ شہری ہتھیار اٹھا کر اس روسی فوج کا مقابلہ کیسے کرینگے، جنہوں نے تربیت یافتہ فوجیوں کو پسپا کر دیا؟ روس بہرحال کسی طرح یوکرین میں داخل ہوچکا ہے۔ روسی صدر پیوٹن کا موقف ہے کہ یہ ایک فوجی آپریشن ہے، جو دو آزاد ریاستوں کی حفاظت کیلئے کیا جا رہا ہے۔ جس وقت یوکرین نے جوہری ہتھیار واپس کئے تھے۔ جن ممالک نے حفاظت کی گارنٹی دی تھی اس میں امریکہ اور روس سرفہرست ہے۔ چونکہ اس تنازعہ میں روس براہ راست شامل ہے، اس لئے یوکرین کی حفاظت کیلئے روس کو تو نہیں بلایا جاسکتا۔ مگر جوہری ہتھیاروں کے بدلے حفاظت کا وعدہ کرنے والے دیگر ممالک کی خاموشی سب سے بڑا سوالیہ نشان ہے۔ امریکہ جس نے یوکرین کو تحفظ کی گارنٹی دی تھی اس وقت کچھ نہیں کرپا رہا۔
یوکرین کے صدر کے الفاظ ہیں "سب ڈرے ہوئے ہیں۔" امریکہ اور یورپی ممالک روس سے ڈرے ہوئے ہیں، کیونکہ یہ سب جانتے ہیں کہ روس ایک طاقتور ملک ہے، وہ افغانستان، لیبیا، عراق، شام یا کوئی دوسرا کمزور ملک نہیں، جس پر آسانی سے تسلط حاصل کیا جا سکے۔ یوکرین کو دلاسہ دینے والے سارے ممالک مصیبت کے وقت میدان سے فرار ہوچکے ہیں۔ جس امریکہ نے تحفظ کا وعدہ کیا تھا، آج روس پر فقط چند پابندیاں لگا کر خود کو بری الذمہ کرچکا ہے۔ نیٹو کا حصہ ہونے کے باوجود امریکہ یا یورپ کے کسی بھی ملک میں ہمت نہیں کہ روس کو روکنے کیلئے اپنی فوج بھیج سکے۔ موجودہ حالات کو دیکھ کر انقلاب اسلامی کے عظیم رہنماء آیت اللہ خمینی کی بات ذہن میں آنے لگتی ہے کہ "امریکہ سے دشمنی خطرناک ہے، مگر اس سے دوستی، دشمنی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔" امریکہ کو جہاں بھی اس کا مفاد نظر آتا ہے، وہ اسی طرف نکل پڑتا ہے اور مفادات حاصل کرنے کے بعد اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس ملک یا شخص کا کیا ہوتا ہے۔ یوکرین نے امریکہ پر اعتبار کیا اور امریکہ نے یوکرین کو روس کے رحم و کرم پر تنہا چھوڑ دیا۔ یوکرین کو بھی امریکہ کی یاری بہت مہنگی پڑ گئی۔