-
جھارکھنڈ میں بی جے پی کی نفرت انگیز سیاست چاروں شانے چت
- سیاسی
- گھر
جھارکھنڈ میں بی جے پی کی نفرت انگیز سیاست چاروں شانے چت
20
M.U.H
25/11/2024
0
0
تحریر:سہیل انجم
جھارکھنڈ کے عوام نے انتخابی میدان میں بی جے پی کی نفرت انگیز سیاست کو چاروں شانے چت کر دیا۔ انھوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ پھوٹ ڈالو اور تقسیم کرو کی پالیسی کے حامی نہیں ہیں۔ جھارکھنڈ مکتی مورچہ یعنی جے ایم ایم نے مسلسل دوسری بار کامیابی حاصل کر کے ایک ریکارڈ بنایا ہے۔ اس سے قبل وہ کبھی بھی مسلسل دوسری بار کامیاب نہیں ہو پایا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی، جھارکھنڈ کے بی جے پی انچارج شیو راج سنگھ چوہان اور وہاں کے الیکشن انچارج آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما سمیت بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے ریاست میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی جو کہ بری طرح ناکام ہو گئی۔
بی جے پی نے اپنا جو انتخابی منشور جاری کیا وہ نفرت انگیزی کی جیتی جاگتی مثال تھی۔ اس بار اس نے مبینہ بنگلہ دیشی دراندازی کا معاملہ زور شور سے اٹھایا تھا۔ وزیر داخلہ امت شاہ جگہ جگہ کہتے پھر رہے تھے کہ بی جے پی کی حکومت بن جانے کے بعد دراندازوں کو چن چن کر نکال باہر کیا جائے گا۔ جب دراندازی کا معاملہ بہت زیادہ اچھالا جانے لگا تو جے ایم ایم رہنما اور وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے تیکھا سوال کرتے ہوئے کہا کہ کہاں ہیں درانداز، ہمیں تو ایک بھی نہیں ملا۔ لیکن بی جے پی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا کہ درانداز کہاں ہیں۔ وہ ان لوگوں کی نشاندہی نہیں کر پائی۔
مبینہ درندازی کا ایشو اچھالنے کے ساتھ ساتھ بی جے پی نے وہی کھیل وہاں بھی کھیلنے کی کوشش کی جو کھیل اس نے پارلیمانی انتخابات میں کھیلا تھا۔ اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کو درانداز اور زیادہ بچے پیدا کرنے والے کہا تھا۔ انھوں نے ہندوؤں سے کہا تھا کہ وہ لوگ یعنی مسلمان ہندو خواتین کا منگل سوتر چھین لے جائیں گے۔ کانگریس والے ان کی بھینس کھول لے جائیں گے۔ دو مکان ہیں تو ایک مکان پر قبضہ کر لیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح انھوں نے جھارکھنڈ کے چائباسا میں چار نومبر کو تقریر کرتے ہوئے قبائلیوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ (مسلمان) تمھاری روزی روٹی چھین رہے ہیں۔ تمھاری بیٹیوں کو بھگا لے جا رہے ہیں اور تمھاری زمینوں پر قبضہ کر رہے ہیں۔ بی جے پی نے سنتھال پرگنہ میں یہ پرچار کیا کہ مسلمان قبائلیوں کی عورتوں سے شادیاں کر رہے ہیں اور زیادہ بچے پیدا کر کے آبادی کا تناسب بگاڑ رہے ہیں۔
بی جے پی نے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کو جھارکھنڈ میں انتخابی انچارج بنایا تھا۔ انھوں نے انتہائی نفرت انگیز تقریریں کی تھیں۔ وہ بھی یہی الزام لگاتے تھے کہ مسلمان قبائلیوں کی زمینوں پر قبضہ کر رہے ہیں۔ لو جہاد کر کے ان کی بیٹیوں سے شادی کر رہے ہیں۔ اسی طرح اور بھی بہت سی خطرناک باتیں کی جا رہی تھیں۔ لیکن ریاست کے عوام بی جے پی کے جھانسے میں نہیں آئے۔ انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ جے ایم ایم نے 2019 کے اسمبلی انتخابات سے کہیں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ کانگریس کی کارکردگی بھی اچھی رہی۔ آر جے ڈی نے بھی خراب کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جبکہ بی جے پی نے اس بار ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نتائج چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ریاست کے عوام نے بی جے پی کی فرقہ پرستی اور نفرت انگیزی کی سیاست کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ اس نے بنگلہ دیشی دراندازوں کا ہوا کھڑا کر کے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنانے کی کوشش کی تھی۔ قبائلیوں کو مسلمانوں کا ڈر دکھا کر ان کو اپنے خیمے میں لانا چاہا تھا۔ مین اسٹریم میڈیا، متعدد نیوز چینل اور بعض سوشل میڈیا ادارے بی جے پی کے اس خطرناک پروپیگنڈے کو آگے بڑھا رہے تھے۔ وہ اس کے ایجنڈے کو عوام کے ذہنوں میں ٹھونسنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن اس پروپیگنڈے کو عوام کے ذہنوں نے قبول نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ ریاست میں کہیں بھی فرقہ واریت نہیں ہے۔ لہٰذا بی جے پی کی یہ مہم اندھے منہ زمین پر گر گئی۔
ادھر بی جے پی کی نفرت انگیز مہم کے جواب میں انڈیا اتحاد نے ترقی کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا۔ عوامی فلاح و بہبود کے ایشوز اٹھائے اور عوام کے حقیقی مسائل کو اٹھا کر ان کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ اس نے اپنی مہم میں جھارکھنڈ کی شناخت کو باقی رکھنے کی کوشش کی۔ آدیواسیوں کے علاوہ دلتوں اور پسماندہ طبقات نے ہیمنت سورین کے عوامی فلاح و بہبود کے ایشوز کو اہمیت دی، ان کو ترجیح دی اور ان کی حمایت کی۔ لوک سبھا انتخابات میں بھی بی جے پی کے خلاف آدیواسیوں کا اتحاد نظر آیا تھا۔ لوک سبھا کے انتخابی نتائج نے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کا اشارہ دے دیا تھا۔ وہ اتحاد جو پہلے زیادہ مضبوط نہیں تھا اسمبلی انتخابات میں کہیں زیادہ مضبوط ہو کر ابھرا ہے۔ بی جے پی نے گزشتہ پانچ برسوں میں آدیواسیوں اور دلتوں اور پسماندہ طبقات کو اپنی ہندوتو کی سیاست کا حصہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن عوام نے اس کوشش کو سختی سے مسترد کر دیا۔ آدیواسیوں کے مفادات کی بنیاد پر کارپوریٹ کے مفادات کے تحفظ کی اس کی کوشش عوام کے سامنے بے نقاب ہو گئی۔
بی جے پی نے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کو ای ڈی کے ہاتھوں گرفتار کروایا اور چمپئی سورین کو جے ایم ایم سے توڑ کر اپنی پارٹی میں شامل کیا تاکہ جے ایم ایم کی طاقت کمزور کی جا سکے۔ یہی وہ کھیل ہے جو وہ دوسری ریاستوں میں کھیلتی آئی ہے۔ مہاراشٹر ہو، بہار ہو، اترپردیش ہو یا کوئی اور ریاست ہو، اس نے اپنے بازو مضبوط کرنے کے لیے دوسروں کے بازوؤں کو کاٹا ہے۔ اس نے کانگریس کی طاقت کو بھی کمزور کرنے کے لیے اسی حربے کو اختیار کیا اور اس سے اس کو کافی سیاسی فائدہ پہنچا۔ اس نے جھارکھنڈ میں بھی یہی سب کچھ کرنے کی کوشش کی لیکن صرف چمپئی ہی ایسے نکلے جو اس کے جال میں پھنس گئے اور اب ان کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی۔ وہ نہ گھر کے ہوئے نہ گھاٹ کے۔
ادھر عدالت نے ہیمنت سورین کو ضمانت دے دی جس سے یہ واضح ہوا کہ ای ڈی نے بے بنیاد الزامات پر انھیں گرفتار کیا تھا۔ انتخابی مقابلے میں جب ہیمنت سورین اترے تو انھیں عوامی ہمدردی ملی اور لوگوں نے ان کے حق میں بڑھ چڑھ کر ووٹ کیا۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ہیمنت سورین بی جے پی اور بالخصوص وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے اروند کیجریوال ثابت ہو رہے ہیں۔ جس طرح کیجریوال نے دہلی میں بی جے پی کو ٹکنے نہیں دیا اسی طرح ہیمنت سورین جھارکھنڈ میں اسے ٹکنے نہیں دے رہے ہیں۔ بہرحال وہاں بی جے پی کی شکست کے کیا اسباب تھے اس کا تجزیہ کیا جاتا رہے گا۔ لیکن فی الحال سامنے کی بات یہ ہے کہ وہاں کے عوام نے بی جے پی کی نفرت انگیز سیاست کو چاروں شانے چت کر کے اس کو اس کی اوقات بتا دی۔