-
کیا سام وید کا اردو ترجمہ مسلمانوں کو سنگھ پریوار کے قریب لا پائے گا؟
- سیاسی
- گھر
کیا سام وید کا اردو ترجمہ مسلمانوں کو سنگھ پریوار کے قریب لا پائے گا؟
332
m.u.h
26/03/2023
0
0
تحریر: عبدالماجد نظامی
ہندو دھرم میں چار ویدوں یعنی رگ وید، یجر وید، سام وید اور اتھرووید کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ کتابیں اس اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں کہ ہندو اپنی مذہبی زندگی میں ان سے رجوع کرتے ہیں اور رہنمائی پاتے ہیں۔ ان ہی ویدوں میں سے ایک سام وید ہے جس کا ترجمہ حال ہی میں اردواور ہندی زبان میں کیا گیا ہے۔ اس کے مترجم کے طور پر اسکرپٹ رائٹر اور فلم ساز اقبال درانی کا نام اخباروں اور دیگر میڈیا میں گزشتہ دنوں کافی چرچہ میں رہا ہے۔ یوں تو 2015 کے بعد سے اقبال درانی نے کوئی فلم نہیں بنائی ہے لیکن سنگھ پریوار کے ساتھ اپنے تعلقات کی وجہ سے وہ کسی نہ کسی درجہ میں سرخیوں میں رہتے ہیں اور ان کا نام ملک کے عوام و خواص میں غیر مانوس نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اقبال درانی کے دادا سنسکرت کے اسکالر تھے اور اسی نسبت سے درانی پنڈت جی کا پوتا کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ سام وید کے اردو ترجمہ کی رسم اجراءپروگرام کا انتظام کرنے والے جیوکانت جھا کا کہنا ہے کہ اقبال درانی اس کام کے لےے سب سے موزوں انسان تھے کیونکہ وہ سنسکرت سے اتنی واقفیت رکھتے ہیں کہ ترجمہ کی ذمہ داری نبھا سکتے تھے۔ اس کے علاوہ پنڈت جی کا پوتا ہونے کی وجہ سے یہ ثقافت ان کے ڈی این اے کا حصہ بھی تھی۔ بہر حال جیوکانت جھا کے مطابق 900 سے زائد صفحات اور 1875 شلوکوں پر مشتمل سام وید کے ترجمہ میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ اس کی رسائی قارئین تک آسانی سے ہوسکے اور اس کو پڑھنا اور سمجھنا ان کے لےے سہل ہوسکے۔ ترجمہ میں اس کی ترتیب اس طرح رکھی گئی ہے کہ سب سے اوپر سنسکرت کی عبارت ہے اور اس کے بعد نیچے کی جانب بائیں طرف ہندی ترجمہ ہے جبکہ اس کے دائیں جانب اردو ترجمہ دیا گیا ہے۔ اس ترجمہ کی رسم اجراءکا پروگرام مغلیہ ہندوستان کی عظمت کا نشان اور تاریخی عمارت لال قلعہ میں رکھا گیا تھا اور اسی مناسبت سے اقبال درانی نے اپنی تقریر میں اس موقع سے کہا تھا کہ یہ لال قلعہ وہ ہے جس کو اورنگ زیب اور دارا شکوہ کے والد شاہ جہاں نے بنوایا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج یہ ثابت ہوگیا کہ داراشکوہ جیت گیا جب کہ اورنگ زیب ہار گئے اور مودی جی انسانیت کو جوڑنے والے تاریخی لیڈر بن گئے ہیں۔ یہ جملہ بتا رہا ہے کہ اقبال درانی کو سنگھ کی طرح داراشکوہ سے خاص محبت ہے جبکہ اورنگ زیب کی تاریخ سے عداوت ہے۔ ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر اس ترجمہ کا مقصد مسلمانوں کو قریب لانا ہے جیسا کہ آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت نے اپنے بیان میں کہا تھا تو ایسے موقع پر اس طرح کی باتوں کو کہنے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔ لیکن ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اقبال درانی کی باتوں سے زیادہ ہمیں آر ایس ایس چیف کی باتوں پر توجہ دینے اور ان کے بیانات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انصاف سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ سنگھ کے سربراہوں میں موہن بھاگوت کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے کئی بار اپنے بیانات اور ملاقاتوں کے سلسلوں سے یہ اشارہ دیا ہے کہ ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے قریب لایا جائے۔ مسلم راشٹریہ منچ نام سے آر ایس ایس کا مسلم مورچہ تو باضابطہ اس میدان میں سرگرم عمل ہے اور مسلمانوں کے درمیان سنگھ کے نظریہ کے پرچار کے لےے شب و روز کوشاں ہے۔ اس کے علاوہ مسلم لیڈران نے بھی ان سے ملاقاتیں کی ہیں اور مسلم کمیونٹی کو سنگھ سے وابستہ تنظیموں کے ہاتھوں جو چیلنجز در پیش ہیں، ان سے آگاہ کیا ہے اور یہ امید ظاہر کی ہے کہ بھاگوت کی مداخلت سے مسلمانوں کے خلاف جاری نفرت و عداوت کے ماحول میں کمی آ ئے گی۔ بھاگوت نے خود بھی مسلم علماءو دانشوران خاص طور سے مولانا ارشد مدنی اور امام عمیر الیاسی سے ملاقات اور ان کی کستوربا گاندھی مارگ پر واقع مسجد کی زیارت کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ مسلم کمیونٹی سے دوریاں رکھنا مناسب نہیں سمجھتے ہیں۔ تقریباً اسی پہلو کا اظہار انہوں نے اپنے اس بیان میں بھی کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مسلمانوں کے بغیر یہ ملک وشو گرو نہیں بن سکتا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وشو گر بننے کے لےے یہ ضروری ہے کہ سارے لوگ مل کر کام کریں۔ ایک اور موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ جو شخص مسلمانوں کی حب الوطنی پر شک کرتا ہے وہ ہندوتووادی نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی الگ الگ موقعوں پر انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ملک میں انتشار اور آپسی دوریوں کو ختم کیا جائے۔ خود اسی سام وید کے اردو ترجمہ کی رسم اجراءکی مناسبت سے انہوں نے کہا کہ طرز عبادت میں فرق کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم الگ الگ منزلوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہر ایک کی منزل ایک ہے اور اسی لےے مذہب کو آپسی دوری کا ذریعہ نہیں بنانا چاہےے۔ ہم آہنگی اور بقاءباہم کے ایسے کئی پیغامات ماضی میں بھی دےے گئے ہیں اور اسی لےے یقین سے یہ کہہ پانا ممکن نہیں ہے کہ سام وید کے اردو ترجمہ سے کیا بدلاؤ آئے گا۔ لیکن اگر واقعی سنگھ یہ چاہتا ہے کہ مسلمان اس کے نظریہ قومیت کو سمجھے اور اس کی نیت پر شک نہ کرے تو محض ایسے ترجموں سے بات نہیں بنے گی۔ کیونکہ اردو میں تو اس سے قبل خود بھاگوت صاحب کی کتاب ’بھوشیہ کا بھارت‘ کا اردو ترجمہ کیا جا چکا ہے جس میں انہوں نے مستقبل کے ہندوستان کا نقشہ کھینچا ہے۔ دراصل ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری نظام میں مسلمانوں کے خلاف جانب داری اور بھید بھاؤ کے تصورکو بدلا جائے کیونکہ جب تک مسلمان تعلیمی اور اقتصادی طور پر ترقی نہیں کرے گا، اس کا امکان بالکل نہیں ہے کہ وہ مستقبل کے ہندوستان میں بھی کوئی خاص مقام حاصل کر پائے گا۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سنگھ کی تنظیمیں بلکہ خود اس کے اعلیٰ عہدیداران اور بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزراءبھی مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی سے باز نہیں آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سنگھ زبانی طور پر مسلمانوں کو قریب لانے کی بات تو کرتا ہے لیکن عملی طور پر اپنی ذیلی تنظیموں سے وابستہ افراد کو یہ اشارہ دے رکھا ہے کہ وہ مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ یہی حال سرکاری سطح پر بھی ہے کہ کئی بار وزیراعظم بھی کہتے ہیں کہ گائے کے نام پر تشدد ناقابل قبول ہے لیکن ان مبینہ ملزمین کے خلاف کارروائی یا تو نہیں کی جاتی یا محض فارمیلٹی سے کام لیا جاتاہے جو اس قسم کے معاملوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب سنگھ ہی کے کنٹرول میں سرکار بھی ہے تو آخر کیا شئے مانع ہو رہی ہے کہ مسلمانوں کے دل و دماغ سے خوف و بے چینی کے احساس کو دور نہیں کیا جاتا ہے جب کہ ایسا کرنا ان کے لےے بہت آسان ہے اور مسلمانوں کے اندر سے شکوک کو دور کرنے کا سب سے موثر آلہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس لےے جہاں ایک طرف ہمیں سام وید یا دیگر ہندو لٹریچر کی ترویج اردو میں کےے جانے کو سراہنا چاہےے، وہیں اس بات کا مطالبہ بھی کرنا چاہےے کہ اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان بتاکر اس کے ساتھ وہی سوتیلے پن کا سلوک نہیں کرنا چاہےے جو مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ اگر سام وید کے مطالعہ سے مسلمانوں میں ہندو کلچر کو سمجھنے کا مزاج پیدا ہوگا تو ہندوؤں کو بھی چاہےے کہ وہ قرآن و سنت کو صحیح تناظر میں پڑھیں اور ایسے مطالبے مسلمانوں سے نہ کریں جن سے ان کے ایمان کی بنیادوں پر زد پڑتی ہے۔ ہم آہنگی دوطرفہ عمل ہے۔ صرف مسلمانوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ ہندو کلچر کو سمجھیں جبکہ ہندوؤں میں اسلام اور مسلمانوں کے تئیں غیر واقعی امور کو پھیلائیں، یہ کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ یہ ملک تبھی ترقی کے مدارج طے کر پائے گا جب تمام قومیں ایک دوسرے کو کھلے دل سے قبول کریں گی اور کسی پر اپنا نظریہ تھوپنے کی غلطی نہیں کرےں گی۔ اگر سام وید کے اردو ترجمہ سے یہ کام آسان ہوتا ہے تو یہ ایک اچھا قدم ہے۔