تین طلاق پر عدالت عالیہ کا فیصلہ آچکا ہے ۔عدالت عالیہ نے اپنے فیصلہ میں کہاہے کہ تین طلاق غیر اسلامی اور آئین ہند کے خلاف ہے ۔واضح کرتا چلوں کہ جس وقت یرقانی تنظیموں نے تین طلاق کے مسئلے پر ہنگامہ شروع کیا تھا اس وقت مسلسل کئ کالموں کے ذریعہ میں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ ان تنظیموں کا مقصد تین طلاق کو ختم کرنا نہیں ہے بلکہ انکا ہدف شریعت میں مداخلت کی راہ ہموار کرنا ہے ۔
مسلمانوں کے مسلکی اختلافات کی بنیاد پر وہ طاقتیں کامیاب ہوگئی ہیں اور آگے بھی انکی شکست کے آثار نظر نہیں آتے کیونکہ ہم مسلکوں اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔جس طرح اہل تشیع(کچھ افراد)اور صوفی حضرات نے تین طلاق کے مسئلے پر حکومت اور یرقانی تنظیموں کی تملق پرستی میں بیانات دیے وہ قابل مذمت ہونے کے ساتھ ہماری کمزوری کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔اہل تشیع میں فقط مولانا کلب جواد نقوی اور مجلس علماء ہند واحد ایسی تنظیم تھی جس نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھتے ہوئے تین طلاق کے مسئلے پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ساتھ دیا ۔جبکہ یہ حقیقت سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ فقہ جعفری میں طلاق کا مسئلہ حل شدہ ہے باجوداس کے اہل تشیع کے سربرآوردہ علماء نے اہل سنت والجماعت کے مؤقف کی تائید کی مگر کچھ لوگ آرایس ایس کی زبان بولتے رہے ۔مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں :
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
اب چونکہ تین طلاق پر عدالت عالیہ کا فیصلہ آچکاہے اور حکومت کو قانون بنانے کی منظوری مل چکی ہے اس لئے مسلمانوں کو صدق دل سے یہ سوچنا ہوگا کہ آخر تین طلا ق پر انہیں اس قدر مشکلات کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟۔یہ سب مانتے ہیں کہ تین طلاق کا قانون وفات رسول اسلام ؐ کے بعد بنا اور اسکی حیثیت غیر شرعی ہے ۔کیونکہ بدعت کو حسنہ کہنے سے بدعت کی حیثیت شرعی نہیں ہوجاتی ۔اگر مسلمانوں کو مزید تذلیل و توہین سے محفوظ رہناہے تو بدعات حسنہ پر توجہ کرنا ہوگی اور وہ تمام تر قوانین جو وفات رسول اسلامؐ کے بعدملکوکیت زدہ افراد نے بنام اسلام اپنے ذاتی مفادات کی خاطرشریعت میں داخل کئ انہیں ختم کرنا ہوگا ۔اگر اب بھی مسلکی عصبیت اور شخصیت پرستی کی بنیاد پر فیصلے ہونگے تو نہ تنازعات ختم ہونگے اور نہ شریعت میں مداخلت کی راہیں مسدود ہونگی۔
مسلمانوں کو سوچنا ہوگا کہ آخر جن تنظیموں کے مذہب اور عقیدہ کی کوئی جڑ نہیں ہے وہ شریعت اسلامیہ میں مداخلت کی کوشش کیوں کررہی ہیںاور آخر وہ اپنی کوششوں میں کامیاب کیوں ہیں؟۔کیا مسلمان اس حقیقت سے انکار کرسکتاہے کہ تین طلاق کے قانون کا کتنا غلط استعمال ہواہے ۔اس بے بنیاد قانون نےکتنی خواتین کی زندگیوں کو حلالہ کے خنجر سے حلال کر ڈالا ۔اگر ہم حالات کا تجزیہ نہیں کرسکتے اور اس تجزیہ کی روشنی میں اپنے حالات کو بدلنے کی قدرت نہیں رکھتے تو پھر ہمیں ایسے قوانین کی پاسداری کے لئے عدالتوں میں جاکر دفاع کرنے کا بھی کوئ حق نہیں ہے ۔وہ خواتین جو شریعت کے نام پر آنکھیں بند کرکے مولویوں کی زیادتیوں کو بھی تسلیم کرلیتی تھیں اچانک کیا ہوا کہ وہ اسلام دشمن طاقتوں کی آلۂ کار بن گئیں اور علی الاعلان ایسے قانون کے خلاف میڈیا میں بیانات دیتی نظرآئیں ۔اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں ہے کہ ان خواتین کا استعمال کیا گیا مگر اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ اس قانون کی کمزوری اور اسکی بنیادپر جاری من مانی اور زیادتیوں نے ہی انہیں یہ موقع فراہم کیا کہ شریعت کے خلاف غیر مسلموں کے ساتھ کھڑی ہوجائیں۔اسلام میں قاضی کا تصور محض دکھاوا نہیں ہےبلکہ قاضی کی حیثیت جج کی ہوتی ہے ۔مگر کتنے ہی قاضی ایسے ہیں جنہوںنے طلاق شدہ خواتین کا حلالہ کے نام پر استحصال کیا ۔جناب والا تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے ۔ایسے ہاتھوں کو بھی کاٹنے کی ضرورت ہے جو قانون کا غلط استعمال کرتے رہے ہیں۔
مسلم پرسنل لاء اللہ(شارع) کا قراردیا ہوا قانون ہے جس میں ترمیم و تنسیخ کی گنجائش نہیں ہے۔قرآن خود اس مسئلہ کی وضاحت کررہاہے کہ ’’ثم جعلناک علیٰ شریعۃ من الامرفاتبعھا ولا تتبع اھوآءالذین لا یعلمون ‘‘(جاثیہ ۱۸) اس آیت سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ ’’شریعت اسلام ‘‘جس قانون کا نام ہے یہ قانون عام مسلمانوں کا قراردیا ہوا قانون نہیں ہے ،خود پیغمبراسلامؐ بھی اس قانون کو بنانے میں شامل نہیں ہیں ورنہ اللہ اپنے پیغمبر ؐ کو مامور فرماتا کہ آپ مسلمانوں کے لئے قانون حیات بناکر پیش کردیجئے۔یہ الگ بات کہ ہم سنت پیغمبرؐ یا قانون پیغمبر(احادیث وغیرہ) کو بھی بالواسطہ اللہ کا ہی قانون سمجھتے ہیں۔کیونکہ قرآن کہہ رہاہے کہ ’’وما ینطق عن الھویٰ ۔۔۔‘‘یہ(پیغمبرؐ)اپنی مرضی سے کچھ نہیں بولتے بلکہ وحیٔ الہی کے مطابق کلام کرتےہیں‘‘۔یعنی قرآن کی آیتوں سے یہ ثابت ہوتاہے کہ مسلم پرسنل لاء اللہ کا قراردیا ہوا ہے اور اللہ نے قرآن میں اعلان کردیاہے کہ ’’لن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا ‘‘۔لہذا شریعت اسلام کا کوئی بھی قانون بدل نہیں سکتااگروہ قانون واقعی اللہ کا قراردیا ہوا ہے اور رسول اسلام ٔ کی سنت طاہرہ میں اس قانون کا جواز موجود ہے ۔اگر اللہ نے اپنے قرار دیے ہوئے قانون میں اپنے رسولؐ کو بھی تبدیلی کا حق نہیں دیا اور نہ رسولؐ کو قانون وضع کرنے کا کہیں حکم دیا گیاہے تو پھر دوسروں کو یہ حق کیسے پہونچتاہے کہ وہ قانون الہی میں ’’اصلاح شریعت ‘‘ یا ’’بدعت حسنہ ‘‘کے نام پر تبدیلی کریں اور اپنی مرضی کو داخل شریعت کرکے اسلامی قانون کا مضحکہ اڑائیں۔اگر ایسا کرنے والوں کی پذیرائی ہی ہمارے عقائد کی سلامتی و استحکام کی علامت ہے تو پھر اسلامی شریعت میں تبدیلی کا حق ہرکس و ناکس کو حاصل ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ آیا تین طلاق کا مسئلہ اللہ کا قراردیاہوا قانون ہے یا اس قانون الہی میں وفات پیغمبرؐ کے بعد ترمیم کی گئی ہے جسے مسلمان بدعت حسنہ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ بدعت حسنہ کو اسلام میں جگہ دینا آیا قانون الہی کے خلاف ہے یا نہیں اس پر بھی بحث لازمی ہے۔طلاق کا قانون قرآن میں موجود ہے مگر جس طلاق کی آج ہم بحث کررہے ہیں اس قانون طلاق کا شریعت محمدی سے کیا تعلق ہے اس مسئلہ پر علماء کرام سرجوڑ کر بیٹھیں ،ایک بار پھر تحقیق کریں اورعوام کو مسلم پرسنل لاء کی حقیقت سے روشناس کروائیں ۔جو قانون اللہ کے قانون کے خلاف ہو وہ کبھی قانون شریعت نہیں ہوسکتا۔جس قانون کی تائید سنت پیغمبرؐ میں موجود نہ ہو اس قانون کا نفاذ اسلام کی بدنامی اور مسلمانوں کی تباہی کا ذریعہ ہی بن سکتی ہے۔لہذا مسلمان اس مسئلہ کو اپنی انا کا مسئلہ نہ بناکر طلاق کے مسئلے کو قرآن اور سنت پیغمبرؐ کی روشنی میں حل کریں تاکہ دوسروں کو یہ موقع ہاتھ نہ لگے کہ وہ قانون شریعت میں مداخلت کی راہ تلاش کرسکیں۔مسلمانوں کو غورکرنا ہوگا کہ آخر مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کی آوازیں کیوں اٹھ رہی ہیں ۔کیا وجہ ہے کہ خود مسلمان بھی قانون شریعت (تبدیل شدہ)کے خلاف متحد ہورہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم فرقہ وارانہ انانیت کی بنیاد پر اصل قانون شریعت کو کاغذکے پلندوں میں دبائے بیٹھے رہیں اور اس وقت جاگیں جب حالات ہماری دسترس سے باہر ہوچکے ہوں۔