خضرحیات
یہ ہم کس قسم کی دنیا میں رہ رہے ہیں یا کس قسم کی دنیا میں آن پہنچے ہیں جہاں حقیقت کا اپنا کوئی آزادانہ وجود اوّل تو ہے ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو آسانی سے ادراک میں نہیں آتا۔ چلتے چلتے ہم جس دور میں داخل ہو چکے ہیں یہ دراصل میڈیائی حقیقت کا دور ہے۔ پُورا ہاتھی تو نہ کسی کو دکھائی دیتا ہے، نہ کوئی دکھانا چاہتا ہے اور نہ ہی پورے ہاتھی کو دیکھنے کی تمنا ہے اور چونکہ آنکھوں پہ پٹی بندھی ہے اس لیے اگر کسی کے ہاتھ میں ہاتھی کا صرف کان ہے تو وہ اسے ہی پورا ہاتھی مان کے بلند و بانگ دعوے کرتا نظر آتا ہے۔ اسی طرح کے دعوے وہ بھی کر رہا ہے جس کی پکڑ میں ہاتھی کی دُم آتی ہے۔
گُمان ہوتا ہے کہ ہم وقت کے خود رو دھارے کے ساتھ ساتھ بے بسی کے ساتھ بہتے چلے جا رہے ہیں اور رستے میں کہیں کہیں ہمیں جب کچھ واقعات دکھا دیے جاتے ہیں تو ہم فوری طور پر ان سے متعلق اپنا رد عمل ظاہر کرنا اپنا فرض سمجھ کر آگے بہہ جاتے ہیں۔ ہم کسی مخصوص واقعے پر غصے، خوشی، دکھ یا حیرت کا اظہار کرتے ہیں اور پھر جب یہ دھارا ہمیں بہا کر ذرا آگے لے جاتا ہے اور ہمیں کوئی نیا واقعہ تھما دیا جاتا ہے تو ہم پہلے والا سب بھول بھال کر اس نئی صورتحال پہ بھی اُسی جوش و خروش کے ساتھ تبصرہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ دھارا ہمیں بہائے پھرتا ہے اور جیسے جیسے واقعات ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں یا یوں کہیں کہ لائے جاتے رہتے ہیں ہم ان پر ردعمل دے کر آگے بڑھتے رہتے ہیں۔
اب کہنے کو تو یہ نہایت فطری عمل ہے کہ ہم کسی نئے واقعے سے متاثر ہوں اور اس کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کریں مگر مجھے خدشہ اس بات کا ہے کہ ہر نیا واقعہ اب پیش آنے سے زیادہ پیش کیا جاتا ہے اور جونہی یہ پیش کیا جاتا ہے تو ہم سب دھوتی لنگوٹ سنبھال کر غوطہ لگانا اپنا فرض سمجھ بیٹھتے ہیں اور اکثر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ جس واقعے کو سمندر سمجھ کر ہم نے غوطہ لگایا تھا وہ تو اصل میں کیچڑ نکلا۔ اس دور میں ہماری آشنائی جس حقیقت سے ہوتی ہے وہ بہت حد تک میڈیا کی بنائی ہوئی حقیقت ہی ہوتی ہے۔ میڈیا ہمیں بتاتا ہے کہ اب یہ مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے اور ہم اپنی آستینیں چڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔
کچھ ہی لمحوں بعد میڈیا پچھلے جھگڑے کو بھول جاتا ہے اور نئی صورت حال تعمیر کر لیتا ہے اور ہم بھی پرانا غصہ بھول کر اب نئے مسئلے سے متعلق صف آرا ہو جاتے ہیں۔ بہت کم لوگ ہیں جو اس نئی صورتحال میں بہنے کی بجائے اس کے پس منظر میں بھی جھانک سکیں۔ صرف وقتی ردعمل ظاہر کرنے والی ذہنی کیفیت سے نکل کر مستقل طور پر کسی مسئلے کے بارے میں غوروخوض کرسکیں۔ اب تو گنے چنے ایسے لوگ رہ گئے ہیں جو خبر بننے سے پہلے ہی کسی ممکنہ صورت حال کو بھانپ سکیں اور جب کوئی خبر میڈیائی تندور کو وقتی ایندھن فراہم کرنے کے بعد میڈیا کی نظر میں ناکارہ قرار دے کر ضائع کر دی جا چکی ہو تو اس کے بعد بھی اس کے متعلق سو سکیں اور دوسروں کو سوچنے کی ترغیب دے سکیں۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ میڈیا موجودہ دور کا سب سے بڑا مداری بن چکا ہے جس کے ہاتھ میں خبروں کی ڈگڈگی ہے اور ہماری اکثریت اس بندر کے جیسی ہے جسے مداری اگر کہے کہ سلام کرو تو وہ سلام کرنے لگتی ہے، جسے مداری کہے کہ جُھک کر چلو تو جُھک کر چلنے لگتی ہے، جسے مداری کہے کہ منہ بند کرلو تو منہ بند کر لیتی ہے اور جسے مداری اشارہ کرتا ہے تو چیخنے چنگھاڑنے لگتی ہے۔ وہ لوگ جو اس کرتب کی منصوبہ بندی کرتے ہیں انہیں اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے، تماشہ بھی چلتا رہتا ہے اور جیبیں بھی بھرتی رہتی ہیں مگر مجموعی طور پر یہ محض وقت کا ضیاع ہے۔ یہ ڈگڈگی والا تماشہ اب بند ہو جانا چاہیے اور اپنے طور پر سوچنے، سمجھنے، ردعمل ظاہر کرنے یا خاموش رہنے کی فضا قائم ہونی چاہیے۔
میں مانتا ہوں کہ میڈیا کے علاوہ خبر حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ ہر آدمی کی پہنچ میں نہیں ہے۔ ہر کوئی خود بھاگ بھاگ کر حالات کا جائزہ لینا شروع کرے گا تو نہ وہ صورت حال سمجھ سکے گا اور نہ ہی کسی دوسرے کام کے قابل رہے گا۔ فی زمانہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ میڈیائی اداروں کا اپنا ایک مربوط نظام ہے جس میں سینکڑوں لوگ مل کر کام کرتے ہیں تو کسی واقعے کی پوری خبر ہم تک پہنچ پاتی ہے۔ بات کرنے کا کا مقٓصد یہ نہیں ہے کہ میڈیا کا بائیکاٹ کرکے خود ہی تلاشِ حق کی راہ پر سفر شروع کردیں، مقصد یہ ہے کہ مکمل طور پر میڈیا پر ہی انحصار کیوں کریں۔ ضروری نہیں وہ جیسا دکھا رہا ہو اصل میں بھی ویسا ہی ہو، اکثر اوقات معاملات اس سے بالکل ہی الٹے ہوتے ہیں جو ہمیں دکھائے جا رہے ہوتے ہیں۔ اور پھر ٹائمنگ بھی تو بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ کوئی دھماکہ خیز خبر ایک خاص وقت میں سامنے آتی ہے، دو دن بعد دھماکے کے اثرات مدھم پڑ جاتے ہیں اور تیسرے دن اس خبر کا کوئی نام و نشان ہی نہیں نظر آتا۔ اچانک ہمیں نظر آتا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اقلیتیں ہیں۔
ابھی ہم اس پہلو پر غور کرنے اور بحثیں کرنے سے فارغ ہی نہیں ہوئے ہوتے کہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ خارجہ پالیسی اگر فوج کی بجائے پارلیمنٹ کے پاس ہو تو یہ ملک ہوا کے گھوڑے پہ بیٹھ کے ترقی کی منزلیں طے کر سکتا ہے۔ ہم اقلیت والا مسئلہ بھول کر خارجہ پالیسی میں غرق ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کو کیپٹن صفدر کا قومی اسمبلی میں احمدی برادری کے خلاف کیا جانے والا خطاب محض اتفاق لگتا ہے مگر یہ خطاب کن حالات میں اور کس وقت سامنے آیا اس پر ہم بہت کم غور کرتے ہیں۔ دوسری مثال مشال خان کیس کی ہے۔ جب تک یہ میڈیا میں سرخیاں بنانے میں کامیاب رہا تب تک زندہ رہا، اب اس کی خبر نہیں آتی تو کتنے لوگ ہوں گے جنہیں یاد ہوگا کہ ایسے کسی واقعے کا عدالتی فیصلہ ابھی آنا باقی ہے؟ ہم اپنی یادداشت کو کیوں استعمال نہیں کرنا چاہتے؟ کیوں ہم چاہتے ہیں کہ میڈیا ہی ہمیں یاد کرائے کہ ہمیں کس بات پر کتنی دیر کے لیے پریشان ہونا ہے اور کس بات پر کب تک خوشی منانی ہے؟
عالمی طور پر دیکھا جائے تو اچانک خبریں آنا شروع ہو جاتی ہیں کہ ہمسایہ ملک بھارت میں بین المذاہب شادیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور لوّ جہاد کے نام پر چلائی جانے والی مہم کے بعد کچھ لوگوں کو پکڑا بھی جا چکا ہے۔ ہم گرمی دکھاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ اس دفعہ اٹھا ہے تو اسے اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل ہو ہی جانا چاہیے مگر ہم غلط سوچتے ہیں۔ یہ مسئلہ بغیر کسی حل کے دو چار دن بعد دوبارہ سردخانے میں ڈال دیا جاتا ہے تاکہ دوبارہ کسی ایسے ہی وقت میں اسے ایسی ہی حالت میں یعنی غیرحل شدہ شکل میں ہی سامنے لایا جا سکے۔ شام میں جنگ تو کتنے سالوں سے جاری ہے مگر ہمیں اس جنگ کی تباہی صرف اس وقت یاد آتی ہے جب میڈیا میں کوئی خبر سامنے آتی ہے۔
نہ خبر آئے تو مہینہ مہینہ ہمیں اس بارے میں کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی لیکن میڈیا پہ کوئی خبر آئی نہیں اور ہم غصے میں آئے نہیں، نکل کھڑے ہوتے ہیں اپنے اپنے جذبات کے گھوڑے پہ سوار ہو کر۔ اسے غم میں ہماری راتوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں کہ حلب شہر تو سارا کا سارا تباہ ہو گیا ہے۔ یمن ویسے کسی کو یاد نہیں آتا کہ پونے دو سال سے جنگ جاری ہے مگر اقوام متحدہ کی کوئی رپورٹ جونہی میڈیائی سکرینوں پر جگہ پانے میں کامیاب ہوتی ہے ہم فوراً امت مسلمہ کی صفوں میں پائی جانے والی نااتفاقی پر چیخنے چلانے لگتے ہیں۔ میڈیا ہمیں نہ یاد کرائے تو ہم فرض کرکے بیٹھ چکے ہوتے ہیں کہ یہ مسئلہ تو اب حل ہو چکا ہے۔ ہمارے نزدیک صرف وہی مسئلے زندہ حیثیت رکھتے ہیں جو میڈیا پر نشر یا رپورٹ کئے جاتے ہیں، ہم اس سے باہر نکل کر نہیں سوچتے اور ہاتھ باندھے، گردن جھکائے میڈیائی اداروں کے رحم و کرم پر چلے جا رہے ہیں۔
ابھی دو مہینے پہلے جب میانمار سے روہنگیا مسلمانوں کو بے دخل کیا جانے لگا، ان کے گھروں کو نذرآتش کیا جانے لگا اور یہ خبر میڈیا پر پیش ہونے میں کامیاب ہو گئی تو پھر یاد نہیں ہم نے کیا کچھ کیا تھا؟ ہم نے احتجاج کئے، سوشل میڈیا پر ٹرینڈز چلائے، آنگ سان سوچی کے خلاف مہم چلائی، بے گھر کئے جانے والے مسلمانوں کے لیے تڑپ اٹھے، دن رات اسی موضوع پر بحثیں کیں، میانمار حکومت کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی کھری کھری سنائیں۔ تب تک تو کھانا بھی اچھا نہ لگا جب تک ہمیں ان مہاجر مسلمانوں کی تصویریں نظر آتی رہیں۔ مگر پھر کیا ہوا؟
میڈیا پر خبریں آنا بند ہو گئیں اور ہمارا بھی درد اور غم و غصہ سب کچھ جاتا رہا۔ ہم یہ فرض کرکے تسلی سے بیٹھ گئے کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ مگر مسئلہ حل کہاں ہوا ہے محض میڈیا سے غائب ہوا ہے۔ روہنگیا مسلمان تو ابھی بھی پیدل چل کر بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیں۔ 5 لاکھ سے زیادہ لوگ بنگلہ دیش میں قائم کئے گئے کیمپوں میں پناہ گزین ہیں۔ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے، موسم کی سختی سے وہ پریشان ہیں، بیماریوں سے لڑنے کی نہ ہمت ہے اور نہ حوصلہ۔ پندرہ پندرہ دن تک پیدل چل کر جان بچانے والے میں کتنی ہمت باقی رہ سکتی ہے؟ مگر ہم اب اس طرح سے اس مسئلے پر بات نہیں کر رہے۔ میڈیا چپ ہے تو ہم بھی چپ ہیں۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری اکثریت نے اپنی یادداشت، ذہن اور معاملہ فہمی میڈیائی اداروں کے پاس رہن رکھ دیے ہیں۔ ہمیں ان تینوں چیزوں کو فی الفور واپس لے لینا چاہیے اور فوری طور پر ان کا استعمال شروع کر دینا چاہیے۔ ناجانے ہم ذہن استعمال کرنے سے اتنا گھبراتے کیوں ہیں۔ رائے چاہے غلط بھی ہو مگر ہو تو اپنی، کسی کی ڈگڈگی پر ناچنے سے تو بہتر ہوگا کہ بے ترتیبی سے ہی سہی مگر ناچیں تو اپنی مرضی سے۔ ہمیں میڈیائی حقیقت کے اس قیدخانے سے باہر نکلنے کی اشد ضرورت ہے۔
(مضمون نگارکی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)