-
امریکی انتخابات کتنے منصفانہ ہیں؟
- سیاسی
- گھر
امریکی انتخابات کتنے منصفانہ ہیں؟
1051
M.U.H
07/11/2020
0
0
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
جمہوریت جدید تصور ہے، جس کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت کے ذریعے ریاست کو چلایا جاتا ہے اور اس میں سب سے بنیادی اہمیت اس بات کی ہے کہ لوگوں کی رائے کے مطابق حکومت تشکیل پائے۔ یہ رائے معلوم کرنے کے مختلف طریقے دنیا میں رائنج ہیں۔ کہیں پارلیمانی جمہوریت ہے، کہیں صدارتی نظام میں براہ راست ووٹ لیے جاتے ہیں اور کہیں ریفرنڈم کے نام پر رائے جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کے ذریعے لوگوں کی رائے کے مطابق حکومت کو تشکیل دیا جاتا ہے۔ ہر ملک نے اپنے ملک کی بنیادی اکائیوں اور ان میں اختیارات کے توازن کو قائم رکھنے کے لیے ایک مناسب نظام قائم کر رکھا ہے۔ امریکی انتخابات کا نظام کئی حوالے سے نرالا ہے۔ یہاں عین ممکن ہے کہ ایک امیدوار زیادہ ووٹ لے، مگر الیکشن ہار جائے اور ایک امیدوار کم ووٹ لے کر جیت جائے۔ امریکی نظام کو سمجھنے کے لیے ان کے الیکٹورل پراسس کو سمجھنا ہوگا۔
سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ امریکی صدر کا انتخاب ایسے نہیں ہوتا کہ صدارتی امیدوار ووٹ حاصل کرتے ہیں بلکہ عوام سے ہر پارٹی کے نمائندگان ووٹ لیتے ہیں اور پھر یہ اراکین عوام کی نیابت میں یہ اختیار استعمال کرتے ہوئے صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس وقت ان ارکان کی تعداد 538 ہے۔ کسی صدارتی امیدوار کے انتخاب کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے 270 نمائندوں کی حمایت حاصل ہو۔ نیشنل آرکائیوز جو کہ وفاقی حکومت کی ایجنسی ہے، یہ ملک میں انتخابات کی ذمہ دار ہے۔ نمائندگان کی یہ تعداد آبادی کے اعتبار سے تقسیم کی گئی ہے، یعنی جن اسٹیٹس کی آبادی زیادہ ہے، انہیں زیادہ سیٹیں ملی ہیں اور جن کی آبادی کم ہے، ان کو کم سیٹیں ملی ہیں۔ کیلی فورنیا میں فی الحال نمائندہ ارکان کی تعداد سب سے زیادہ یعنی 55 ہے۔ امریکی ریاستوں میں سے 7 ریاستیں ایسی ہیں، جن کی آبادی کم ہے۔ اس لیے ان میں سے ہر ایک کے پاس محض 3 نمائندہ اراکین ہیں۔
یہاں ایک عجیب طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے، جو بنیادی جمہوریت کی نفی کرتا ہے، وہ متناسب نمائندگی کا نظام ہے۔ متناسب نمائندگی کا نظام استعمال کرنے والی ریاست مین اور نیبراسکا کے علاوہ تمام امریکی ریاستیں وِنر ٹیک آل طریقے کا استعمال کرتی ہیں۔ یعنی کامیاب امیدوار کو اس ریاست میں اس کی پارٹی کے تمام نمائندہ ارکان مل جاتے ہیں۔ اس کی سب سے بری مثال 2000ء کے انتخابات کی ہے، جن میں الگور نے صدارتی امیدواری کی ووٹنگ میں کامیابی حاصل کی، مگر الیکٹورل کالج نے صدر کے عہدے کے لیے جارج ڈبلیو بش کا انتخاب کیا۔ 2000ء میں ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار ایلگور کو فلوریڈا کی ریاست میں ساٹھ لاکھ ڈالے گئے ووٹوں میں سے صرف 537 ووٹوں سے شکست ہوئی تھی۔ یعنی ان ساٹھ لاکھ ووٹوں کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی اور فلوریڈا سے انتیس کے انتیس ووٹ بش کے کھاتے میں چلے گئے۔
الیکٹوورل کے اس نظام میں امریکہ کی گیارہ بڑی ریاستیں ایسی ہیں، جن کے مجموعی الیکٹورل ووٹوں کی تعداد دو سو چھیتر ہے، یعنی ایک صدارتی امیدوار گیارہ ریاستوں سے دو سو چھیتر الیکٹورل ووٹ حاصل کرکے بھی انتالیس ریاستوں کے نتائج پر برتری حاصل کرسکتا ہے۔ یعنی صدارتی امیدوار کو ان ریاستوں کو دوسرے ملک پر ترجیح دینا پڑتی ہے اور ان کے ووٹوں کے بارے میں زیادہ فکر مند ہوتا ہے اور باقی انتالیس ریاستوں کی وہ حیثیت نہیں رہتی، جو ہونی چاہیئے۔ ان انتخابات میں اسی الیکٹورل سسٹم کی برکت سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار شکست سے دوچار ہو جاتا ہے، جیسے 2016ء کے امریکی انتخابات میں ہیلری کلنٹن نے اپنے مدمقابل ڈونلڈ ٹرمپ سے تقریباً 30 لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کئے تھے، مگر الیکشن ہار گئیں، کیونکہ مطلوبہ الیکٹورل لوگ ٹرمپ نے مینج کر لیے تھے۔ ایوان نمائندگان میں زیادہ آبادی والی ریاستوں کے ارکان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ یہ تعداد اُن کی آبادی کے تناسب سے مقرر کی جاتی ہے، جبکہ سینیٹ میں آبادی سے قطع نظر سب ریاستوں کے سینیٹروں کی تعداد برابر (یعنی دو) ہوتی ہے۔ اس طرح ایک طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے۔
امریکی انتخابات پر امریکی عدالتوں کا بھی کافی اثر و رسوخ ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2000ء کے صدارتی انتخاب میں جب سپریم کورٹ نے فلوریڈا کی ریاست میں دوبارہ گنتی کو رکوا دیا تھا اور اس کے نتیجے میں جارج ڈبلیو بش صدر منتخب ہوگئے تھے۔ یوں ووٹ تو پڑے مگر ان کی گنتی ہی نہ ہوئی اور محض عدالتی حکم نامے سے جارج ڈبلیو بش امریکہ کے صدر بن گئے۔ یہ ان امریکیوں کی رائے کو نظر انداز کرنا ہے، جنہوں نے الیکشن سے پہلے رائے دینے کا اپنا حق استعمال کیا تھا۔ امریکہ میں بڑی تعداد میں لوگ اس حق کو استعمال کرتے ہیں، ان انتخابات میں دس کروڑ امریکیوں نے اسی کے ذریعے ووٹ ڈالا ہے۔
معروف تجزیہ نگار مبشر علی زیدی نے اس امریکی عدالتی نظام اور اس کے انتخابات پر اثر انداز ہونے پر بہت اچھا تبصرہ کیا: "امریکی سپریم کورٹ میں پاکستان کے برعکس جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر مقرر نہیں۔ جج مرتے دم تک کام جاری رکھ سکتا ہے۔ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 9 ہے اور ان کا کسی پارٹی کی طرف جھکاؤ سب کو معلوم ہوتا ہے۔ جس پارٹی کا صدر ہوتا ہے، وہ ہم خیال جج کو سپریم کورٹ میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ واحد رکاوٹ یہ آسکتی ہے کہ جج کے نام کی سینیٹ سے منظوری لینی پڑتی ہے۔ صدر اور سینیٹ ایک ہی پارٹی کے ہوں تو انھیں آسانی ہو جاتی ہے۔ ابھی دو ماہ پہلے تک سپریم کورٹ میں کنزرویٹو اور لبرل ججوں کی تعداد چار چار تھی جبکہ چیف جسٹس کنزرویٹو ہونے کے باوجود کبھی ادھر، کبھی ادھر ہو جاتے تھے۔ ستمبر میں جسٹس گنزبرگ کا انتقال ہوگیا اور صدر ٹرمپ نے فوراً اپنی ہم خیال جج کو نامزد کر دیا۔
سینیٹ میں ری پبلکنز کی اکثریت تھی، اس لیے جج ایمی کونی بیرٹ کو منظوری مل گئی۔ اب سپریم کورٹ میں لبرل جج تین رہ گئے ہیں اور کنزرویٹو ججوں کی تعداد چھ ہوچکی ہے۔ اس لیے ڈیموکریٹس الیکشن سے پہلے نئے جج کی تقرری پر شور مچا رہے تھے۔ اب اگر معاملہ سپریم کورٹ میں جاتا ہے، جیسا کہ ٹرمپ کہہ رہا ہے کہ وہ معاملہ سپریم کورٹ لے کر جائیں گے اور وہاں کے ججز امریکی صدر کے ہم خیال ہیں تو یقیناً وہ فیصلہ ٹرمپ کے حق میں ہی دیں گے۔ یہ بذات خود عدالتی سسٹم کی ساکھ کا سوال بھی ہے کہ وہ ایک پارٹی کا ہم خیال ہو جاتا ہے اور دوسرا عدالتی نظام کی جمہوری نظام میں مداخلت بھی ہے، جو عوامی رائے کے مکمل انعکاس میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔