تحریر ۔نذر حافی
گاہک میں قوت خرید ہونی چاہیے، اگر خریدار غریب ہے تو وہ ہیرے اور جواہرات نہیں خرید سکتا، دنیا کا بہترین اسلحہ امریکہ بناتا ہے، اب اسے بہترین خریدار بھی چاہیے، چنانچہ عربوں سے زیادہ مالدار گاہک کون ہو سکتا ہے، اب عرب جب تک کسی سے لڑیں گے نہیں تو وہ اسلحہ کیوں خریدیں گے، لہذا امریکہ کے لئے عربوں کو جنگوں میں دھکیلنا ضروری ہے۔ ورنہ اختلافات کس کے درمیان نہیں، کیا عیسائیوں میں فرقے اور تنازعات نہیں، کیا یہودیوں میں مسالک و مکاتب نہیں ۱؟ریاض کانفرنس میں مسٹر ٹرمپ نے مسلمانوں کے درمیان مسلکی جنگ اور اسلحہ بیچنے کی بات تو کی لیکن انہوں نے ایسی کوئی بات یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں نہیں کی کہ تم بھی اپنے اختلافات کو ختم کرنے کے لئے ہم سے اسلحہ خریدو۔عربوں کا سب سے بڑا جھگڑا اسرائیل کے ساتھ ہے، لیکن مسٹر ٹرمپ نے یہ نہیں کہا کہ اسرائیل سے نمٹنے کے لئے ہم سے اسلحہ خریدو۔ نہیں ہرگز اس کی اجازت نہیں، اسلامی ممالک کو صرف آپس میں لڑنے کے لئے اسلحہ بیچا جاتا ہے، وہ اسلحہ خواہ یمن پر استعمال کیاجائے یا ایران کے خلاف۔عرب ریاستیں، معدنی ذخائر خصوصا تیل اور گیس سے مالا مال ہیں، ایران بھی معدنی ذخائر کے حوالے سے ایک بڑا ملک ہے، انقلاب کے بعد ایران کے ذخائر امریکہ اور دیگر استعماری ممالک پر حرام ہوگئے، لیکن استعماری طاقتوں نے عرب ریاستوں کو نکیل ڈال کر رکھی ہوئی ہے۔اگر عرب ریاستوں اور ایران کے درمیان مسلکی اختلاف ہے تو عرب ریاستوں اور امریکہ کے درمیان کون سا مسلکی اشتراک ہے، یہ بات اندرون خانہ عرب ممالک کو بھی سمجھ آچکی ہے۔ اس وقت عرب ریاستوں کی مثال اس گلے کی ہے جو ایک چراگاہ میں امریکی نامی چرواہے کی نگرانی میں چر رہاہے ، چرواہا ان کا دودھ بھی دوہ رہاہے ، ان کی اون اور پشم بھی اتار رہا ہے اور اگر اس کی بھوک نہ مٹی تو انہیں ذبح کر کے بھی کھائے گا۔ابھی امریکی گلے میں سے قطر نامی بھیڑ بھاگی ہے، قطر نے بھی ماضی میں امریکہ کی خوب خدمت کی ہے، اس نے طالبان، القاعدہ اور داعش کے بنانے اور انہیں منظم کرنے کے حوالے سے بھرپور خدمات انجام دیں۔ اب قطر نے دیکھا ہے کہ وہ وقت آپہنچا ہے کہ امریکہ اسلحے کی فروخت کے لئے مزید انتظار نہیں کر سکتا۔نیز اب داعش اور طالبان امریکہ کی ضرورت پوری نہیں کرتے، چنانچہ یمن پر بھی سعودی عرب سے حملہ کروایا گیا ہے لیکن اس سے بھی امریکہ کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا، تبھی تو اسلامی فوجی اتحاد کے نام سے ایک بڑی فوج بنائی گئی ہے، امریکہ عربوں کی کسی کے ساتھ ایک بڑی جنگ چاہتا ہے ، اس کے لئے ضروری ہے کہ یا تو عرب ایران کے خلاف لڑیں اور یا پھر آپس میں خون خرابہ کریں ، اگر عرب ایران سے لڑتے ہیں تو اس کا سارا فائدہ اسرائیل کو پہنچے گا ، ایران کے کمزور ہونے کی صورت میں اسرائیل عربوں کے ساتھ ماضی والا سلوک کرے گا اور اگر عرب ریاستیں آپس میں لڑتی ہیں تو یہ بھی اسرائیل کو مضبوط کرنے کا باعث ہے۔چنانچہ قطر نے امریکی گلے سے فرار کیا ہے، یہ فرار بالاکل غیر متوقع طور پر ہواہے، قطر بھی قدرتی گیس اور معدنی ذخائر سے مالا مال ہے۔ قطر نہیں چاہتا کہ اسے یمن یا شام بنا دیا جائے، اب امریکی گلے سے مفرور قطر کو سعودی عرب اور امریکہ کے خطرے سے پناہ چاہیے، اگر قطر، امریکی گلے سے بھاگنے کے بعد واپس نہیں جاتا تو امریکہ جیسے حریص ملک کے لئے یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ ایسے میں اسلامی ممالک میں سے صرف ایران ہی ہے جو قطر کو یہ حوصلہ دے سکتا ہے کہ وہ امریکی و سعودی دباو کے سامنے ڈٹ جائے۔
چنانچہ آج ایران میں مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ دومقامات پر دہشت گردانہ حملے کروائے گئے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان حملوں سے امریکہ کو ایک فی صد فائدہ بھی نہیں پہنچا، ایرانی ہماری طرح نہیں ہیں کہ وہ دشمن کو پہچاننے کے بجائے مسلکی اختلافات میں الجھ جائیں، جب ایرانی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو پارلیمنٹ کا اجلاس جاری تھا، فائرنگ کے دوران پوری پارلیمنٹ مردہ باد امریکہ کے نعروں سے گونجتی رہی، دہشت گردوں کے قتل کے بعد اراکین پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ کے صحن میں نماز ظہر ادا کی اور کافی دیر تک مردہ باد امریکہ کے نعرے لگائے۔یہ مردہا باد امریکہ کے نعرے امریکہ کے لئے واضح پیغام ہیں کہ امریکہ ایران کو دہشت گردی وغیرہ سے ڈرا کر اپنا نوکر نہیں بنا سکتا۔چالبازوں اور سازشی عناصر نے یہ سوچ رکھا تھا کہ اس کے بعد ایران بھی، عرب ریاستوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرے گا اور عرب ممالک کو جوابی کارروائی کی دھمکیاں دے گا اور پھر وہی ہوگا جو امریکہ چاہتا ہے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ان حملوں نے دنیا میں امریکہ کو مزید بے نقاب کردیا ہے، ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی امریکہ کو ایران میں بری شکست ہوئی ہے اور اس کے عزائم خاک میں مل گئے ہیں۔اگر ہم سارے مسلمان، قطر کی طرح امریکی گلے سے فرار کر جائیں اور ایرانیوں کی طرح شعور اور بصیرت کا ثبوت دیں تو امریکہ اور اسرائیل اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ بحیثیت مسلمان امریکی و اسرائیلی مصنوعات اور ڈالر کی خریدو فروخت کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ اگر صرف پاکستانی تاجر اور عوام ہی اس پر عملدرآمد شروع کر دیں تو یہ دین اسلام اور مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔