ڈاکٹر سلیم خان
سیاست میں دباو بنانا جتنا اہم ہوتا ہے اسے قائم رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ کانگریس کو سیاسی سوجھ بوجھ کا قسطوں میں استعمال کام نہیں آئے گا۔ گجرات کی اخلاقی فتح کے بعد کانپور دیہات میں حقیقی شکست دینے کا ایک نادر موقع گنوا کر کانگریس پارٹی نے یہ پیغام دیا ہے کہ ہنوز دلی دور است۔ کانپور دیہات کا سکندرا حلقۂ انتخاب پھولن دیوی کے سبب مشہور ہے۔ یہیں پر پھولن نے اپنی عصمت ریزی کرنے والے ۲۱ ٹھاکروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ گزشتہ صوبائی انتخاب میں کانگریس اور سماجوادی پارٹی کا الحاق تھا اور بہوجن سماج پارٹی نے الگ سے انتخاب لڑا تھا۔ اس وقت بی جے پی کے متھرا پرساد پال کو ۸۷۸۷۹ ووٹ حاصل کرکے بہوجن سماج پارٹی کا امیدوار مہندر کٹیار کو ہرایا تھا جنہیں ۴۹۷۷۶ ووٹ ملے تھے۔
سکندرا سے 2012 میں بھی بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار اندرپال سنگھ کو کامیابی ملی تھی لیکن اس بار کمال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مایاوتی نے انتخاب نہیں لڑا یعنی بلاواسطہ سماجوادی پارٹی کی حمایت کردی لیکن اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے کانگریس نے اپنا امیدوار میدان میں اتارنے کی حماقت کردی۔ موروثی سیاست پر دن رات تنقید کرنے والی بی جے پی نے مرحوم متھرا پرساد پال کے بیٹے اجیت سنگھ کو ٹکٹ دے دیا۔ کانگریس نے سوچا کہ سماجوادی اور بہوجن سماج کےاتحاد کو براہمن ووٹ نہیں دیں گے اور وہ ووٹ بی جے پی کے جھولی میں چلے جائیں گے اس لیے اپنے براہمن امیدوار پربھاکر پانڈے کو کھڑا کر دیا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بی جے پی کےووٹ میں 14 ہزار ووٹ کی کمی کے باوجود وہ 11 ووٹ سے کامیاب ہوگیا اس لیے کہ کانگریس کو 19 ہزار ووٹ مل گئے۔ کانگریس نے اگر سماجوادی پارٹی سے اپنا الحاق ختم کرنے کے بجائے برقرار رکھا ہوتا تو ممکن ہے 7 ہزار ووٹوں کی یہ شکست 7 ہزار ووٹ کی فتح میں بدل جاتی۔ بی جے پی کو ہرانے کے لیے اپنی حلیف جماعتوں کے ساتھ رہنے کا فن کانگریس کو سیکھنا ہوگابقول فراز؎
نئے سفر میں ابھی ایک نقص باقی ہے
جو شخص ساتھ نہیں اس کا عکس باقی ہے
یہ بات درست ہے کہ سیاست کے بازار میں اگر اور مگر کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی لیکن اس میں نشانِ عبرت ضرور ہوتے ہیں ۔ بی جے پی کو فی الحال اترپردیش اسمبلی میں جو فوقیت حاصل ہے اس پر ایک نشست کے کم ہوجانے سے کوئی خاص اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی سماجوادی کی ایک سیٹ سے اس کا کوئی بھلا ہوجاتا لیکن یہ ایک علامتی فتح ضرور ہوتی۔ عوام کی نفسیات پر اس طرح کی خبروں کے یقینی اثرات پڑتے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کے اندر اپنی سیاسی معنویت بنائے رکھنے کے لیے اس طرح کی خبریں درکار ہوتی ہیں ۔ سیاسی دباو بنائے رکھنے میں اس طرح کی چھوٹی موٹی کامیابیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ اس بار جن پانچ مقامات پر ضمنی انتخابات ہوئے ان میں دو اروناچل پردیش میں تھے جہاں چند سو ووٹ سے بی جے پی دو نشستوں پر جیت گئی۔ بنگال میں وہ تیسرے نمبر پر رہی مگر ممتا نےہزاروں کے فرق سے زبردست کامیابی درج کرائی۔ تمل ناڈو میں بی جے پی کی ضمانت ضبط ہوگئی اور اس کو ’نوٹا ‘ سے بھی کم ووٹ ملے لیکن بی جے پی اگر اترپردیش کا ضمنی انتخاب ہار جاتی تو اس کی بات ہی کچھ اور ہوتی۔ وہ مودی اوریوگی دونوں کی اخلاقی شکست بن جاتی لیکن کانگریس پارٹی نے یہ نادر موقع اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا۔ اس ضمنی انتخاب کے نتائج شاہد ہیں کہ اتر پردیش کے سکندرا میں بی جے پی جیت کر سکندر اور کانگریس ہار کر بندر بن گئی۔ گجرات کے بعد اترپردیش میں کانگریس کی یہ ناکامی پکار پکار کرکہہ رہی ہے؎
گھٹا اٹھی ہے مگر ٹوٹ کر نہیں برسی
ہوا چلی ہے مگر پھر بھی حبس باقی ہے
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)