رویش کمار
بھارت کے کسانوں نے آج ہندی کے اخبار کھولے ہوں گے تو انھیں دھوکہ ملا ہو گا. جن اخبارات کے لئے وہ محنت کی کمائی کا ڈیڑھ سو روپیہ ہر ماہ دیتے ہیں، ان میں سے کم ہی نے بتانے کی ہمت کی ہوگی کہ کم از کم(نیوتم) امدادی قیمت پر ان سے جھوٹ بولا گیا ہے. وزیر خزانہ نے کہا کہ ربیع کی فصل کے دام کی لاگت کو ڈیڑھ گنا دیا جا چکا ہے. خريف کا بھی ڈیڑھ گنا دیا جائے گا. شاید ہی کسی اخبار نے کسانوں کو بتایا ہوگا کہ اس کے لئے حکومت نے الگ سے کوئی پیسہ نہیں رکھا ہے. ایکسپریس نے لکھا ہے کہ 200 کروڑ کا انتظام کیا ہے. 200 کروڑ میں آپ لاگت سے ڈیڑھ گنا زیادہ امدادی قیمت نہیں دے سکتے ہیں. اس رقم سے اشتہارات بنا کر کسانوں کو ٹھگ ضرور سکتے ہیں.
کسانوں کو تو یہ پتہ ہے کہ ان کی معلومات اور مرضی کے بغیر انشورنس کا پریمیم کٹ جاتا ہے. یہ نہیں پتہ ہوگا کہ ان کی پیٹھ پر سوار انشورنس کمپنیوں نے000 10، کروڑ روپے کما لیے ہیں. انشورنس کمپنیوں نے حکومت اور کسانوں سے پریمیم کے طور پر004 22، کروڑ روپے لئے ہیں. انشورنس ملا ہے صرف020 12، کروڑ کا. یعنی انشورنس کمپنیوں نے کسانوں سے ہی پیسے لے کر000 10، کروڑ کما لیے. ایکسپریس کے ہریش دامودرن لکھتے ہیں کہ دعوی کیا گیا تھا کہ سمارٹ فون، جی پی ایس ،ڈرون، ریموٹ سینسنگ سے دعوے کی تلافی کریں گے جبکہ ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے.
انشورنس لے کر كھوجیے ہسپتال کہاں ہے، ہسپتال میں كھوجیے ڈاکٹر کہاں ہے؟
موجودہ صحتی ڈھانچہ کیسا ہے، آپ جانتے ہیں. اس بجٹ میں صحت کا حصہ بہت کم بڑھا ہے، مگر منصوبے بڑھ گئے ہیں. اعلان ہو گیا کہ تین اضلاع کے بیچ ہسپتال بنے گا. یہ اضلاع میں ایک فیل گڈ پیدا کرنے کے لئے ہے. گزشتہ چار سال میں کتنے ہسپتال بنائے؟ اس کا کچھ اتہ پتہ نہیں، یہ نئے ہسپتال کب تک بنیں گے، خدا جانے. ہم اضلاع میں موجود بہت سے سرکاری اسپتالوں کو بہتر کرکے صحتی فائدہ دے سکتے تھے. ڈاکٹر پیدا کرنے پر کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔ ’’ایم بی بی ایس ‘‘کے بعد’’ایم ڈی ‘‘کرنے کی سہولت نہیں بڑھائی گئی ہے. لہذا ہسپتال بنانے کے نام پر ٹھیکیدار کماتے رہیں گے اور آپ ٹیمپو بھاڑا کرکے دہلی ایمس کے لئے بھاگتے رہیں گے. آپ کی قسمت جھوٹے لوگوں کے گروہوں میں پھنس گئی ہے.
کالج نہیں، نیتا جی کی ریلی میں جاکر مکمل کر لیں اپنا کورس
گزشتہ بجٹ تک ’’آئی ٹی ‘‘،’’آئی آئی ایم ‘‘جیسے ادارے کھلنے کا اعلان ہوتا تھا. اب حکومت نے ان اداروں کو تیار ہونے کے لئے خدا بھروسے چھوڑ دیا ہے. ضلع میں ان کا بورڈ تو نظر آئے گا لیکن ان کی سطح بننے میں کئی دہائیاں لگ جائیں گی. جو پہلے سے موجود ہیں ان کا بھی ڈھانچہ چرمرانے والا ہے. اب آپ پوچھئے کیوں؟ پہلے پوچھئے کیوں؟ پہلے حکومت ان اداروں کو قومی وقار کے انسٹی ٹیوٹ مان کر فنڈ دیتی تھی، جس کی جگہ اب انہیں ہوم لون کی طرح لون لینا ہوگا. حکومت نے اب ان اداروں سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا. آئی آئی ٹی اور ایمس جیسے ادارے بھارت کی حکومتوں کی ایک شاندار کامیابی رہے ہیں. اس بار تو ایمس کا نام بھی سنائی نہیں دیا. کوئی پروگریس رپورٹ بھی نہیں. ایسے ادارے کھولنے کی خبروں سے شہر میں ہلچل پیدا ہو جاتی ہے. وہاں بیٹھے لوگوں کو لگتا ہے کہ دہلی چل کر آ گئی ہے. دس سال بعد پتہ چلتا ہے کہ کچھ ہوا ہی نہیں.
تعلیم کا بجٹ اس بار000 72، کروڑ سے010 85، کروڑ ہو گیا ہے. اعلی تعلیم کا بجٹ329 33، کروڑ ہے. یہ کچھ نہیں ہے. صاف ہے حکومت یونیورسٹی کے کلاس روم میں ابھی اساتذہ کی بحالی نہیں کر پائے گی. آپ نوجوانوں کو بغیر استاد کے ہی پڑھ کر پاس ہونا ہوگا. تب تک آپ نیتا جی کی ریلی کو ہی کلاس مان کر اٹینڈ کر لیں. اسی میں ماضی سے لے کر مستقبل تک سب کچھ ہوتا ہے. تقریر میں پیرا میڈیکل سائنس تو ہوتا ہی ہے جس کے لئے میڈیکل کالج کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ہے. تاریخ کے لئے طرح طرح کی سینائیں بھی ہیں جو مفت میں تاریخ اور سیاسیات پڑھا رہی ہیں. اسکول کی تعلیم کا بجٹ آٹھ فیصد بڑھا ہے مگر یہ بھی کم ہے.356 46،356 کروڑ سے بڑھ کر000 50، کروڑ ہوا ہے.
15 لاکھ تو دیا نہیں، 5 لاکھ انشورنس کا جملہ دے دیا
تقریباً 2000 کروڑ کے فنڈز سے ساتھ پچاس کروڑ لوگوں کو انشورنس دینے کی کرامت صرف ہندوستان میں ہی ہو سکتی ہے. یہاں کے لوگ ٹھگے جانے میں ماہر ہیں. دو بجٹ پہلے ایک لاکھ انشورنس دینے کا اعلان ہوا تھا. خوب هیڈلان بنی تھی، آج تک اس کا پتہ نہیں ہے. اب اس ایک لاکھ کو پانچ لاکھ بڑھا کر نئی هیڈلان خریدی گئی ہے. آمدنی سیکرٹری ادھيا کے بیانات سے لگتا ہے کہ وزیر خزانہ سے پارلیمنٹ جانے کی راہ میں یہ اعلان جڑوايا گیا ہے. ادھياجي کہہ رہے ہیں کہ اکتوبر لگ جائے گا لانچ ہونے میں. پھر کہہ رہے ہیں کہ ممکن ہے اس سال منافع نہ ملے. پھر کوئی کہہ رہا ہے کہ ہم پالیسی کمیشن اور ریاستوں سے مل کر اس کا ڈھانچہ تیار کر رہے ہیں.
انڈین ایکسپریس نے بتایا ہے کہ کئی ریاستوں میں ایسی یوجنا ہے. آندھرا پردیش میں 1.3 کروڑ غریب خاندانوں کے لئے این ٹي آر سروس ہے. خط افلاس سے اوپر کے 35 لاکھ خاندانوں کے لئے صحت کی خدمت ہے. تلنگانہ میں اروگيہ شري ہے. ہر سال غریب خاندانوں کو ڈھائی لاکھ کا بیمہ مفت ملتا ہے. تمل ناڈو میں 2009 سے 1.54 کروڑ خاندانوں کو دو لاکھ کا انشورنس دیا جا رہا ہے. چھتیس گڑھ میں بھی ساٹھ لاکھ خاندانوں کو انشورنس دیا جا رہا ہے. کرناٹک میں 1.4 کروڑ خاندانوں کو ڈیڑھ لاکھ تک كیش لیش انشورنس دیا جا رہا ہے. اقتصادی طور پر کمزور خاندانوں کو یہ انشورنس مفت میں دستیاب ہے.
ہماچل پردیش میں انشورنس کی تین یوجنائیں ہیں. مرکز کی بیما یوجنا کے تحت 30000 بیمہ ملتا ہے اور مکھیہ منتری بیمہ یوجنا کے تحت 1.5 لاکھ کا. بنگال میں صحت ساتھی نام کا انشورنس ہے. ہر خاندان کو ڈیڑھ لاکھ کا انشورنس کور ملتا ہے، کسی-کسی صورت میں پانچ لاکھ تک انشورنس ملتا ہے. کم سے کم 3 کروڑ لوگ اس انشورنس کے دائرے میں آ جاتے ہیں. پنجاب میں 60 لاکھ خاندانوں کو انشورنس دیے جانے پر غور ہو رہا ہے. وہاں پہلے سے 37 لاکھ بی پی ایل خاندانوں کو انشورنس ملا ہوا ہے. گوا میں چار لاکھ کا انشورنس ہے. بہار میں کوئی انشورنس نہیں ہے. اس طرح دیکھیں گے کہ ہر ریاست میں غریب خاندانوں کے لئے انشورنس کی منصوبہ بندی ہے. کئی کروڑ لوگ اس کے دائرے میں پہلے سے ہی ہیں. ان منصوبوں کا کیا ہوگا، پتہ نہیں. اسی کو حل کرنے میں سال گزر جائے گا. دوسرا ان انشورنس کی یوجناؤں کے بعد بھی غریب کو فائدہ نہیں ہے. مہنگی صحت اب بھی غربت کی وجہ بنی ہوئی ہے. لوگ علاج کی وجہ سے غریب ہو جاتے ہیں. ایک مطالعہ بتاتا ہے کہ انشورنس کی اتنے منصوبوں کے بعد بھی علاج پر خرچ ہونے والا 67 فیصد پیسہ، لوگ اپنی جیب سے کرتے ہیں.اس کا مطلب ہے کہ ضرور انشورنس کے نام پر کوئی بڑا کھیل چل رہا ہے جسے ہم سمجھنے سے قاصر ہیں.
بجٹ میں ہی کہا گیا ہے کہ 330 روپے کے پریمیم والی پردھان منتری جیون جیوتی یوجنا کی منصوبہ بندی 5.22 کروڑ خاندانوں کو مل رہی ہے. اس کے تحت 2 لاکھ کا جیون بیما ہے. 13.25 کروڑ لوگوں کو پردھان منتری سرکشا بیما یوجنا مل رہی ہے. اس کے لئے صرف 12 روپے کا سالانہ پریمیم دینا ہوتا ہے. دو لاکھ کا کور ہے. کتنے کو ملا ہے؟ جيتي گھوش نے انڈین ایکسپریس میں لکھا ہے کہ پچاس کروڑ کو بیما یوجنا کا فائدہ دینے کے لئے حکومت کو 60 سے 1 لاکھ کروڑ تک خرچ کرنے ہوں گے. یہ کہاں سے آئے گا. بجٹ میں تو اس کا ذکر ہے بھی نہیں.
اسمارٹ سٹی کی بج گئی سیٹی
بجٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسمارٹ سٹی یوجنا کا کام چالو ہے. اس کے لئے 99 شہروں کا انتخاب ہوا ہے اور 2 لاکھ کروڑ سے زیادہ کا بجٹ بنایا گیا ہے. ابھی تک350 2، کروڑ کے ہی پراجیکٹ پورے ہوئے ہیں.852 20، کروڑ کے پروجیکٹ چالو ہیں. اس کا مطلب کہ اسمارٹ سٹی بھی جملہ ہی ہے. 2 لاکھ کروڑ کی اس یوجنا میں ابھی تک 2 ہزاار کروڑ کی منصوبہ بندی ہی مکمل ہوئی ہے. زیر تعمیر کو بھی شامل کر لیں تو 23000 کروڑ کی ہی یوجنا چل رہی ہے. باقی سب نعرہ دوڑ رہا ہے. بہت سے لوگ اسمارٹ سٹی بنانے کے لئے فرضی اجلاسوں میں جاکر مشورہ دیتے تھے. اخبار مہم چلاتے تھے کہ اپنا میرٹھ بنے گا اسمارٹ سٹی. خواب پھینکو نہیں کہ لوگ دوڑے چلے آتے ہیں، بغیر جانے کہ اسمارٹ سٹی ہوتا کیا ہے.
امرت یوجنا م 500 شہروں میں پورے خاندانوں کو صاف پانی دینے کے لئے ہے. ایسا کوئی شہر ہے بھارت میں تو بتائيے گا. آنے جانے کا کرایہ اور ناشتہ پانی کا خرچہ دوں گا. ویسے640 77، کروڑ کی یہ اسکیم ہے. پانی سپلائی 494 پروجیکٹ کے لئے428 19، کروڑ کا ٹھیکہ دیا جا چکا ہے. سی ویج ورک کے لئے429 12، کروڑ کا ٹھیکہ دیا جا چکا ہے. اس کا مطلب ہے کی یوجنا کے آدھے حصے پر ہی آدھا کام شروع ہوا ہے. پھر بھی اس کی منصوبہ بندی کی پیش رفت رپورٹ تو ملی اس بجٹ میں.
گھاٹا نہیں سنبھلا تو سنبھالنا ہی چھوڑ دیا
حکومت چار سال سے مالی خسارہ کنٹرول رکھنے کا اپنا ہدف پورا نہیں کر پائی ہے. بزنس سٹینڈرڈ نے لکھا ہے کہ سرمایہ کاری میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے. یہ ایک طریقہ ہو سکتا ہے بجٹ کو دیکھنے کا. دوسرا طریقہ ہو سکتا ہے کہ جو سرمایہ کاری ہوئی وہ زمین پر کتنا گیا تو مالی سال 18 میں 190 ارب کم ہو گیا ہے. اسے کیپٹل اؤٹ لے کہتے ہیں. اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے. بجٹ کے جانکار انہی اعداد و شمار پر غور کرتے ہیں اور گیم سمجھ جاتے ہیں. ہم ہندی اردو کے بیوقوف قاری اخباروں کے رنگین گرافکس میں الجھ کر رہ جاتے ہیں.
جی ایس ٹی کے تحت ایک یوجنا ہے ــ’’پریزمپٹو انکم سکیم‘‘ میری سمجھ سے اس کے تحت آپ اندازہ لگاتے ہیں کہ کتنی آمدنی ہوگی اور اس کی بنیاد پر حکومت کو ٹیکس جمع کراتے ہیں. پہلے یہ یوجنا 2 کروڑ ٹرن اوور والوں کے لئے تھے بعد میں حکومت نے اسے کم کرکے 50 لاکھ تک والوں کے لئے کر دیا. اس منصوبہ کے تحت ایک حقیقت کا پتہ چلا. حکومت کو تقریبا 45 لاکھ رٹرن تو ملے مگر پیسہ بہت کم ملا. ایک یونٹ سے اوسطا صرف 7000 روپے. اوسط ٹرن اوور بنتا ہے 17 لاکھ روپے. یا تو کوئی چوری کر رہا ہے، کم ٹرن اوور بتا رہا ہے یا پھر واقعی کمائی اتنی ہی ہے.
گیارہ ماہ کی جی ایس ٹی آنے کے بعد اب حکومت کو لگ رہا ہے کہ000 50، کروڑ کا نقصان ہو سکتا ہے. حکومت اس سال ہی 4.44 لاکھ کروڑ نہیں جٹا سکی مگر امید ہے کہ 2018-19 میں 7.44 لاکھ کروڑ جٹا لے گی. دیکھتے ہیں. بزنس سٹینڈرڈ لکھتا ہے کہ ’’گروس کیپیٹل فورمیشن‘‘ میں مسلسل کمی ہے. مالی سال 2014 میں یہ جی ڈی پی کا 34.7 فیصد تھا، مالی سال 2017 میں 30.8 فیصد ہو گیا ہے. حکومت جتنا خرچ کرتی ہے اس کا 70 فیصد ’’فکسڈ کیپیٹل فورمیشن ‘‘ ہونا چاہئے. مگر یہ 28.5 فیصد سے کم ہو کر مالی سال 18 میں 26.4 فیصد ہو گیا ہے. 1 کھرب کی یوجنائیں زیر التوا پڑی ہوئی ہیں. پرائویٹ شعبوں کے ساتھ ساتھ حکومت بھی اس میں شامل ہو گئی ہے.
آپ ہندی، اردو کے اخباروں کے قاری ہیں تو غور سے پڑھیں. دیکھیں کہ آپ سے پیسے لے کر یہ اخبار آپ کو آگاہ کر رہے ہیں یا بجٹ پر تھرڈ کلاس رنگین کارٹون بنا کر جھانسہ دے رہے ہیں. گودی میڈیا کا کینسر گاؤں قصبوں میں پھیل گیا ہے. اوپر سے آپ ہی اسے پیسے دے رہے ہیں. ایک ہی اخبار پڑھنا بند کر دیں. ہر ماہ نیا اخبار اٹھائیں. ورنہ ایک دن آپ بھی گودی ہو جائیں گے. آنکھ کھلی نہیں کہ تھپکی سے پھر سو جائیں گے۔
مترجم: محمد اسعد فلاحی
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)