وقاص چودھری
تمام مسلم حکمران اپنی خامیوں اور کوتاہیوں سے سبق حاصل کریں کیونکہ انکی امریکن نوازی روشن خیالی اور بے حسی نے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی زندگیوں میں تلخی کا رس گھول دیا ہے۔۔
آسکر وائڈ نے کہا تھا کہ بد بختی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے لیکن اپنی کوتاہیوں اور غلط کاریوں کا خمیازہ زندگی تلخ کردیتا ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ دنیا بھر کے تمام بڑے مذاہب ہندو ازم عیسائیت اور یہودیت نے اسلام کے خلاف گٹھ جوڑ کررکھا ہے۔ ان میں سے عیسائی یہودی اتحاد اس وقت مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ سرگرم ہے۔
اس گٹھ جوڑ کے داعی مسلم امہ کو اپنا غلام اور مسلم خطوں میں پائے جانیوالے قدرتی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں ۔ عیسائی یہودی گٹھ جوڑ کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو یہ نقطہ سامنے آتا ہے کہ دونوں کے خلاف پائی جانے والی رشتے داری قدیمی نہیں ۔ عیسائی صلیبی جنگوں تک مسلمانوں اور یہودیوں کے خلاف تھے۔ نزول اسلام کے وقت عیسائیوں سے زیادہ یہودی مسلمانوں کوایذا رسانی پہنچانے کیلئے مضطرب رہتے تھے۔ اور تب بھی دونوں کے درمیان اختلاف کی وسیع خلیج حائل تھی۔
بیسویں صدی میں یہودیوں کی جس نسل کشی کا الزام ہولوکاسٹ کے لبادے میں مسلمانوں پر عائد کیا جاتا ہے سچ تو یہ ہے کہ ہولوکاسٹ نام کے ڈرامے کی ہدایت کاری سے لیکر فنکاری تک کا اعزاز یورپینز کا کارنامہ ہے۔ آج عالم یہودیت اور عالم عیسائیت کے روابط مضبوط بنیادوں پر قائم و دائم ہیں جن کا یک نکاتی ایجنڈا مسلم دشمنی پر استوار ہے۔ اور اگر یہودیوں و عیسائیوں کے روابط پر غور وخوض کیا جائے تو یہ گٹھ جوڑ پوری بنی نوع انسانی اور عالم اسلام کے خلاف نپے تلے اور ڈھکے چھپے انداز میں مصروف عمل ہے۔
صہیونیت کے جادوگروں نے دنیا بھر کے مالیاتی نظام کو اپنے شکنجے میں جکڑنے کے لئے سودی نظام کا معاشی خاکہ متعارف کروایا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہودیوں نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نامی مالیاتی اداروں کے ذریعے پوری دنیا اور تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کو قرضوں کی آڑ میں معاشی غلامی کا تاج پہنا دیا۔ سودی نظام کے بانیوں نے نیا منصوبہ کچھ یوں مرتب کیا ہے کہ دنیا کا ہر انسان اپنی دنیاوی خواہشات کی کمزوریوں کے ہمراہ سودی نظام کے خونخوار جبڑوں میں اپنی گردن خود ہی پھنسائے۔ اور پھر عمر بھر نکلنے نہ پائے۔
میڈیا اور اشتہارات کی رنگینیوں کا پتہ استعمال کیا جارہا ہے تاکہ انسان جنسی اور نفسانی طور پر درندہ بن جائے اور ہر قسم کی کڑی شرائط پر قرضہ لینے پر مجبور ہو۔ صہیونی تھنک ٹینکس نے عالم اسلام کی واحد نظریاتی مملکت کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے الیکڑانک ٹیکنالوجی موبائل فونز اور یورپی ثقافت و روشن خیالی کے نام پر عریانی و فحاشی کا بازار گرم کررکھا ہے۔
امریکی جریدے’’فورین افریرس ‘‘کی رپورٹ کے مطابق یہودی منصوبہ سازوں نے مذہب سے انسان بالخصوص مسلمانوں سے دوری کے لئے فحاشی و عریانی کو عام کرنے کے لئے فری میسن کے تحت دور جدید کی تحریک ’ ’ نیو ایج موومینٹ ‘‘ شروع کررکھی ہے جس کے تحت انسان کو روحانی طور پر کھوکھلا کردیا جائے۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ جب مسلمان مذہب سے دور ہوجائے تو اسکے سینے سے جرات و بہادری کے اجزائے ترکیبی منٹوں میں دور ہوجاتے ہیں ۔
امریکہ اور اسرائیل کی سرپرستی میں چلنے والی این جی اوز نے پاکستان میں ڈراموں فلموں اور میوزک کی آڑ میں بے حیائی کا غبار پھیلا رکھا ہے۔ یورپ کے ساتھ ساتھ ہم دیگر ملکوں میں بھی اس نظام کو برق رفتاری سے پھیلتا ہوا دیکھ سکتے ہیں جو لوگ یورپ میں رہائش پذیر ہیں وہ روزانہ انسان نما جانوروں کو بسوں ٹرینوں اور دفاتر میں بے قراری کا جھنڈا تھامے ہوئے دیکھتے ہیں ۔
جو تنخواہ لیتے ہیں لیکن اسکا نصف سے زائد حصہ قسطوں کی صورت میں ادا کرکے زندگی کی آخری سانسوں تک یہ عمل دہراتے رہتے ہیں ۔ پاکستان میں یہ کاروبار عروج پر دکھائی دیتا ہے۔ گاڑیوں سے لیکر گھریلو اشیاء تک اور بنے بنائے مکانات سے لیکر دوسری ضروریات زندگی تک عام پاکستانی کی رسائی کو آسان بنا دیا گیا ہے۔ سادہ لوح پاکستانیوں کو کچھ پتہ ہی نہیں کہ جس گناہ بے لذت سے وہ مستفید ہورہے ہیں اسکا خمیازہ انکی آنے والی بیس نسلیں تک بھگتیں گی۔
ہمارے ہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے گورنمنٹ ملازمین کو یرغمال بنارکھا ہے جو تنخواہ والے دن منہ لٹکائے کف افسوس ملتے گھروں کو لوٹتے ہیں کیونکہ انکی تنخواہ کا زیادہ حصہ کمپنیوں کے پروردہ لے اچک لیتے ہیں ۔ پاکستان میں کریڈٹ کارڈز کو آسان شرائط پر متعارف کروایا جارہا ہے۔ کریڈٹ کارڈز دینے والے بینکوں کی نکیل یہودیوں نے تھام رکھی ہے۔ نصرانی طاقتیں ہمیں ایک ایسے گھوڑے کا روپ دینا چاہتی ہیں جسے صرف اتنا چارہ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اگلے روز تانگہ کھینچنے کے قابل ہو۔
دنیا کو سودی نظام کے اندھیروں میں غرق کرنے کا کارنامہ دونوں یہود و نصاری کی رشتہ داری اور مساعی جلیلہ ہے۔ لیکن چند گھنائونے منصوبے تو ایسے ہیں جن کی مصوری صرف نصرانیوں کے سازشی ذہن کی پیدوار ہے۔ ان میں ایک گریٹر اسرائیل کا قیام ہے جس کے نقشے یہودیوں کے دفاتر اور گھروں کی زینت بنے ہوئے ہیں ۔ گریٹر اسرائیل میں لبنان شام مکمل طور پر جبکہ سعودی عرب اور عراق کے کچھ حصے شامل ہیں ۔
یروشلم میں اب مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس اور مسجد اقصی کو منہدم کرنے کے خواب دیکھے جارہے ہیں ۔ یہودی یہاں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لئے بے چین ہیں اور وہ بیت المقدس کو نیست و نابود کرنے کے لئے مناسب وقت کا انتظار کررہے ہیں جب کسی مسلمان ملک میں نہ تو اخلاقی و دینی جذبہ موجود ہو اور نہ ہی کسی کے پاس اتنی جنگی قوت ہو جو ان کی راہ میں مزاحم ہو سکے۔
مسجد اقصی حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے ایک ہزار سال قبل کی تھی۔ یہودیوں نے اسکا نام فرسٹ ٹمپل رکھا بعد میں بابل (عراق) کے بخت نصر نے اسے حضرت عیسی علیہ السلام کے عہد سے چھ سو سال قبل شہید کردیا تھا اور پھر ڈیڑ ھ سو سال بعد یہودیوں نے اسے دوباہ تعمیر کرکے سیکنڈ ٹمپل کا نام دیا۔ بعد میں رومی جرنیل جنرل ٹائیٹس اس پر چڑھ دوڑا اور سن ستر عیسوی میں اسے زمین بوس کردیا اور یہ گنبد آج بھی زمین میں دفن ہے۔
اسرائیل کے قیام کو ساٹھ برس ہوچکے ہیں لیکن ابھی وہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی ہمت نہیں کرسکا۔ یہودی ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے بعد وہاں حضرت داود علیہ السلام کا تخت رکھنا چاہتے ہیں ۔ یہ تخت پتھر نما ہے جس پر حضرت داود علیہ السلام کی تاجپوشی کی گئی تھی۔ یہ تخت رومی جرنیل ٹائیٹس تباہی مچانے کے بعد اپنے ساتھ ائیرلینڈ لے گیا جہاں سے اسے سکاٹ لینڈ اور پھر انگلینڈ میں منتقل کردیا گیا۔
تیرہویں صدی میں اس پتھر کو کاٹ کر اسے کرسی کی شکل میں تراشا گیا اور یہی کرسی برطانوی پارلیمنٹ دارالعلوم کے ساتھ ملحقہ چرچ میں موجود ہے۔ بادشاہوں اور ملکائوں کی رسم تاجپوشی اسی تخت پر کی جاتی ہے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام دنیا میں آئیں گے جنہیں اسی تخت پر بٹھایا جائے گا۔ نصرانیوں کا ماننا ہے کہ جب دنیا کی معیشت پر مکمل قبضہ بیت المقدس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیراور گریٹر اسرائیل کی احیا کے صہیونی مقاصد حاصل کر لئے جائیں گے تو پھر مسیحا کا نزول ہوگا جو انہیں ساری دنیا کی حکمرانی دلوائیں گے۔
یہودیوں کے نزدیک ابھی مشرق وسطی میں جنگ عظیم برپا ہونی ہے جسے وہ ’’ ارمیکی ڈاون ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس جنگ کا فلسفہ تو احادیث میں ملتا ہے جس کے مطابق اس معرکہ میں مسلمانوں کا بڑا نقصان ہوگا اور پھر حضرت مہدی علیہ السلام دنیا میں آئیں گے اور دین اسلام کا غلبہ ملے گا۔ مغرب کی عیسائی برادری دوفرقوں میں بٹی ہوئی ہے۔ یورپ کے عیسائی کیتھولک جبکہ برطانیہ اور امریکہ کے عیسائی پروٹسٹنٹ گروہوں میں تقسیم ہیں۔
پروٹسٹنٹ فرقے یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں ۔ یہودی فلسطین شام کے اس حصے کو رومن کیتھولک خطے میں بدلنے کے خواہاں ہیں جہاں حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا وقت وہاں گزارا۔ یاد رہے کہ رومن کیتھولک اسلام دشمنی میں پروٹسٹنٹوں سے بھی زیادہ انتہا پسند ہیں جو اسلام کو حرف غلط کی طرح مٹانا چاہتے ہیں ۔ یہودی نبوت کی بنی اسرائیل سے عربوں کی منتقلی پر آج بھی حسد کرتے ہیں۔
دوسری جانب اسلام یورپ ہو یا جرمنی امریکہ ہو یا فرانس میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ پہلی خلیج جنگ سے لیکر آج تک پندرہ ہزار امریکی فوجی اسلام قبول کرچکے ہیں لیکن مغربی ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کا تسلط ہے یوں وہ سچ کو جھوٹ کے پردوں میں چھپاتے ہیں۔ ترکی یورپی یونین میں شامل ہونے کے لئے کئی تبدیلیوں کا سامنا کر چکا ہے۔ فرانس کے صدر نے بیانگ دہل کہا کہ یورپی یونین تو ایک کرسچن کلب ہے۔
امریکی ریاست فلاڈلفیا سے شائع ہونے والے رسالے ’’فلاڈلفیا ٹمپٹ ‘‘نے دوسال قبل اپنے صفحہ اول پر لکھا کہ (صلیبی جنگ تیار ہے)۔ رسالے کے اندرونی صفحات پر درج ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صلیبی جنگوں کا دور ختم ہوگیا ہے وہ نادان ہیں آخری صلیبی جنگ کی تیاریاں کی جارہی ہیں اور یہ دنیا کی خونی ترین جنگ ہوگی۔ فلاڈلفیا ٹرمپٹ نے اپنی ایک اشاعت میں پوپ کو شیطان کا درجہ دیا تھا۔ پروٹسٹنٹ عیسائی جو آج امریکہ اور برطانیہ میں آباد ہیں یہ وہی عسیائی ہیں جنہیں رومن کیتھولک کرسچنز نے یورپ میں پوپ کی حکومت کے بعد مار مار کر بھگا دیا تھا کہ یا تو وہ کیتھولک فرقے کی پیروکاری پر آمادہ ہوں یا پھر موت کا تحفہ قبول کرلیں۔
آج یہی پروٹسٹنٹ امریکہ اور برطانیہ میں مقیم ہیں اور حکمران طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یورپی یونین پرانی طرز کی عظیم کیتھولک ریاست قائم کرنے کی ایک کڑی ہے۔ صلیبی جنگوں پر سرسری نظر دوڑائی جائے تو تاریخ کے چند عبرت ناک ابواب کھل کر سامنے آتے ہیں 1095تا1291 یعنی چار سو سالوں تک لڑی جاتی رہیں ۔ اس وقت مرکزی اور مغربی یورپ کا ہیڈ کوارٹر روم تھا۔ جسکے تخت پر پوپ جلوہ افروز تھا اسی لئے یہ رومن کیتھولک کہلوائے جبکہ مشرقی یورپ بلقان اور روس پر مشتعمل تھا جہاں بادشاہی حاکمیت شعلہ فروزاں تھی۔
یہ وہ دور تھا جب مغربی عیسائیت کا شیرازہ نہیں بکھرا تھا جبکہ مشرقی عیسائیت دو ٹیموں ’’ عیسٹرن چرج ‘‘ اور روسی آرتھو ڈکس میں تقسیم تھی۔ اس دور میں سلجوقی مسلمان چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر حکمرانی کا ذائقہ چکھ رہے تھے۔ سلجوقی مسلمانوں نے یورپ تک رسائی کے لئے قسطنطنیہ پر حملے کی ٹھانی۔ قسطنطنیہ کے بادشاہ مائیکل ڈاکس میں مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کا ملکہ نہ تھا۔ مائیکل نے یورپی حکمرانوں سے اپیل کی کہ وہ سلجوقیوں کے خلاف اس کی مدد کریں ۔
پوپ اربن ثانی نے1095 میں اسکا بیڑہ اٹھایا اور فرانس کے شہر کلیر ماوئنٹ میں تمام یورپ بادشاہوں کے سامنے جذباتی تقریر کی اور ارض مقدس سے تمام مسلمانوں اور یہودیوں کو نکال باہر کرنے پر راضی کرلیا۔ یوں پورے یورپ نے یک جان ہوکر مسلمانوں اور یہودیوں کا قتل عام کیا۔ قسطنطنیہ اور اناطولہ کو روند کر یہ لشکر مسلم ریاستوں کو کچلتا ہوا یروشلم تک جا پہنچا۔
اور انسانیت کا بے دردی سے خون بہایا کہ یروشلم کی گلیاں سرخ پانی کے چشموں کا دل اندوھ منظر دکھا رہی تھیں اور جارح لشکر کے گھوڑوں ٹانگیں تک ان خونی لہروں کی جغیانی میں ڈوب گئی تھیں ۔ بیت المقدس پر اٹھاسی سال عیسائیوں کا قبضہ رہا۔ 1187 میں صلاح الدین ایوبی طوفان بن کر نازل ہوا اور قبلہ اول مسلمانوں کے ہاتھ لگ گیا لیکن المیہ تو یہ ہے 1228 سے 1244 تک بیت المقدس عیسائیوں کی تحویل میں رہا اور پھر1291 میں یہ علاقہ دوبارہ مسلمانوں کے قدموں میں ڈھیر ہوگیا۔
عیسائیوں نے جس قدر خون ریزی کی اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نایاب ہے۔ مسلمانوں اور یہودیوں کا قتل یورپ کی باہمی جنگیں تلوار کے زور پر عیسائی بنانا اور عیسائیوں کو کیتھولک مذہب اپنانے کی گھناوئنی تاریخ آج کے تہذیب یافتہ مغرب کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے ۔ ’’دی کون بلڈ کروس ‘‘ نامی کتاب جو عیسائی تاریخ دان نے لکھی ہے وہ گورے قاتلوں کی بربریت کا حال سناتی ہے جبکہ مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ کا ایسا ویسا کوئی پس منظر نہیں ۔
جنگ عظیم کے بعد جب یورپی فوجیں دمشق میں داخل ہوئیں تو جنرل ایلن خصوصی طور پر ایوبی کے مزار پر گیا اور قبر پر ٹھوکر مار کر ٹرٹراہٹ کی کہ’’وی آر اگین حیئر ‘‘ عیسائیوں نے یہودیوں کے لئے دیدہ دل فرش راہ کردئیے۔ یہی عیسائی آج بھی یہودیوں کے تلوے چاٹ رہے ہیں ۔ پینٹاگون جدید مشرق وسطی کے چارٹ تک بنا چکا ہے۔ پہلی خلیجی جنگ سے لیکر ایران عراق وار تک کویت پر عراقی شب خون سے لیکر دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں تک تمام منصوبے عیسائیت اور صہیونیت کے اتحاد کے مظہر ہیں۔
نئے صلیبی نقشے کے مطابق ترکی کا مشرقی علاقہ ہتھیایا جائے گا۔ ترکی عراق اور اردن کے کرد علاقوں کو ملا کر کرداستان بنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں ۔ امریکہ ایران کے مقابلے میں ایک شیعہ مملکت کے احیا میں دلچسپی رکھتا ہے تاکہ وہ ایران کا خم ٹھونک کر مقابلہ کرے۔ یہ شیعہ ریاست سعودی عرب عراق اور کویت کے علاقوں کو باہم کرکے بنائی جائے گی۔ یروشلم اور واشنگٹن میں پاکستان کے حصے بخرے کرنے اور اسکے نیو برانڈ نقشوں پر بھی یہودی تھنک ٹینکس روانی سے کام کررہے ہیں۔
امریکہ یہودیوں کی خوشنودی کے لئے مشرق وسطی کی جغرافیائی پوزیشن تبدیل کرنے کی کوششوں میں غلطاں ہے۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا بھر کو اپنے مالیاتی و سودی نظام میں جکڑنے اور گریٹر اسرائیل کے نئے نقشے جاری کرنے والی یہودی لابی کے توڑ کے لئے مسلمان حکمران کیا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں ؟ کیا مسلمان ممالک یہود و نصاری کے گٹھ جوڑ کو ناکام بنانے کے لئے اپنے فروعی تضادات کو طاق نسیان کی زینت بنا کر مسلم یونین کا جھنڈا بلند کرنے کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں ۔؟
مسلمان جب تک فروعی گروہی اور فرقہ پرستی سے دور رہے پوری دنیا انکی جھولی میں تھی لیکن جونہی تفرقہ پرستی کا زہر ان کے خون میں شامل ہوا تو وہ اغیار کے محکوم بن کر ذلیل و رسوا ہوئے۔ اس وقت اس امر کی ضرورت ناگزیر ہے کہ تمام مسلم حکمران اسکر وائڈ کے جملے کے مطابق اپنی خامیوں اور کوتاہیوں سے سبق حاصل کریں کیونکہ انکی امریکن نوازی روشن خیالی اور بے حسی نے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی زندگیوں میں تلخی کا رس گھول دیا ہے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)