-
ہندوستان میں مسلم مخالف سیاست کا بیانیہ
- سیاسی
- گھر
ہندوستان میں مسلم مخالف سیاست کا بیانیہ
277
M.U.H
17/03/2025
0
0
تحریر:عادل فراز
ہندوستان کی سیاست مسلم مخالف بیانیہ میں بدل چکی ہے ۔ انتخابی جلسوں سے ایوان بالاتک ہر جگہ مسلم دشمنی کارفرماہے ۔گزشتہ پندرہ سالوں میں برسراقتدار جماعت کے رہنمائوں نے انتخابی جلسوں میں مسلمانوں کو کیا کچھ نہیں کہا۔وزیر اعظم بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہے ۔انہوں نے تویہاں تک کہاکہ فسادیوں کو ان کے کپڑوں سے پہچانا جاسکتاہے۔کبھی وہ کہتے ہیں کہ جب تک میں زندہ ہوں دلتوں ،قبائلیوں اور پسماندہ طبقات کو دی جانی والی مراعات کو مذہب کے نام پرمسلمانوں میں تقسیم نہیں ہونے دوں گا۔کبھی وہ مسلمانوں کو دراندازکہتے ہیں توکبھی ان کے مذہبی تشخص کو نشانہ بناتے ہیں۔ان تمام منافرانہ بیانات سےزیادہ خطرناک پورے ملک میں جاری مسلم دشمنی پر ان کی مصلحت آمیز خاموشی ہے ۔جب مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کیاجاتاہے تو وزیر اعظم کی حیثیت ایک تماشائی سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ہندوستان کے باہروہ ملک میں پنپ رہی فرقہ پرستی پر سوالات کا جواب دینے سے گھبراتے ہیں اور اگر اس موضوع پر کبھی بات کرتے ہیں تو تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں ۔ان کے اسی مجہول رویےنے ہندوستان کی ساکھ کوعالمی سطح پر نقصان پہونچایاہے ۔
وزیر اعظم کے نقش قدم پر مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بھی ہیں ۔اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسواسرما کے درمیان تو مسلم دشمنی میں سبقت لے جانےکی ہوڑ لگی ہے ۔ایک طرف جہاں ہمنتابسواسرماآسام میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو نشانہ بناتے ہیں تو دوسری طرف یوگی آدتیہ ناتھ مدرسوں کو مشکوک بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ان کا جب دل کرتاہے مدرسوں کی فنڈنگ کی تحقیقات کا حکم سنادیتے ہیں ۔گزشتہ دوتین سالوں کے دوران کئی بار مدارس کی جانچ ہوچکی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی کیونکہ یوگی مدرسوں میں پلنے والی نسل کو مولوی اور عالم بنتے نہیں دیکھناچاہتے بلکہ وہ انہیں سائنس داں اور انجینئر بناناچاہتے ہیں ۔ان کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر کیسے ہوگااس پرانہوں نے کبھی بات نہیں کی ۔مسلمانوں کے قومی سرمائے سے تعمیر مدرسوں کی عمارت پر سرکاری قبضہ کرکے ان میں عصری تعلیم کے مراکز قائم کرنا آسان ہے مگر مسلمان علاقوں میں نئے اسکول کھولنے کو کبھی ترجیح نہیں دی گئی ۔حتیٰ کہ اوقاف کی زمینوں پرسرکاری دفاتر قائم کئے گئے ،پارک بنائے گئے مگر اسکول اور اسپتال تعمیر کرنے کی فکر نہیں کی گئی ۔یوگی جس لکھنؤ میں رہتے ہیں وہاںحسین آباد ٹرسٹ کی املاک کا جائزہ ضرور لیں ۔اس ٹرسٹ کی خالی زمینوں پر یا تو مسلسل پارک بنائے جارہے ہیں یا سرکاری دفاتر قائم کئے جارہے ہیں ۔اس سے بھی جب ضلع مجسٹریٹ کا دل نہیں بھراتو اب گھنٹہ گھر کے قریب ٹرسٹ کی زمین پر ’حسین آباد فوڈ پارک‘ بنادیاگیا۔اگر اسی طرح مسلمانوں کے اوقاف کی زمینوں پر سرکاری قبضے کئے جاتے رہیں گےتوپھر وقف ترمیمی بل 2025 کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
ہندوستان میں مسلم مخالف سیاست کا بیانیہ کیوں اور کیسے تیار ہوااس کے اسباب وعلل پر بہت کچھ لکھاجاسکتاہے ۔ مختصر طورپر یہ سمجھ لیجیے کہ اقتدار کی ہوس نے مسلم مخالف سیاسی بیانیہ کو تشکیل دیاہے۔اس کےپس پردہ یرقانی تنظیموں کے منصوبہ ساز ہیں جو شب وروز اسی اُدھیڑ بُن میں رہتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کو متحد کرنے کے لئے کونسی حکمت عملی اختیارکرنی چاہیے ۔انہیں جب کوئی نئی بات نہیں سوجھتی تو مغل ،مدرسہ اور اوقاف کا قضیہ چھیڑدیتے ہیں ۔خاص طورپر اورنگ زیب اور ٹیپوسلطان آسان ہدف ہیں ۔اورنگ زیب کی راسخ العقیدگی تو اس وقت ان کا آزمودہ ہتھیار ہے ۔اس کا تجربہ اس وقت زیادہ کیاگیاجب ’چھاوا‘ فلم کی ریلیز کے بعداورنگ زیب کی قبر کو مسمار کرنے کی بات کہی گئی۔ظاہر ہے جس نسل نے تاریخ فلموں سے حاصل کی ہواس کے پاس حقائق اور شواہد نہیں ہوتے ۔دوسرے یہ کہ اورنگ زیب کی قبر کو مسمار کرکے اگر یرقانی تنظیموں کا جذبۂ انتقام پوراہوسکتاہے تو ایساکرنے سے انہیں کون روک سکتاہے ۔جب آزاد ہندوستان میں مسلمان اپنی مسجد کو مسمار ہونےسے نہیں بچاسکے تو اورنگ زیب کی قبر کو کیسے بچاپائیں گے۔
مسلمانوں نے ایک طویل عرصے تک ہندوستان پر حکومت کی ۔جن مسلم بادشاہوں کو آج یرقانی تنظیمیں کوستی نظرآتی ہیں وہ سب ہندودیوی دیوتائوں سے بے حد عقیدت رکھتے تھے ۔محمد بن تغلق تو ہولی کے موقع پر رنگوں سے بالکل پرہیز نہیں کرتاتھا۔جب کہ ہندوئوں کی نظر میں محمد بن تغلق کو بڑا ظالم اور کٹّر بناکرپیش کیاگیا مگر اس کا ہولی کی تقریب میں حصہ لینابھی ایک تاریخی حقیقت ہے ۔اسی طرح مغل بادشاہ بھی ہولی اور دیوالی کے موقع پر ہندوئوں کی تقریبات میں حصہ لیتے تھے ۔اکبر جسے مسلمان اس کے نظریات کی بناپرموحد نہیں سمجھتے ،وہ بھی اب ’گریٹ ‘ نہیں رہا۔جب کہ ہندوستان کی تاریخ میں اکبر سے زیادہ دوسرا سیکولر اور لبرل بادشاہ نہیں گذرا۔حتیٰ کہ اس کے دربار کےنورتنوں میں بھی فیضی اور ابوالفضل جیسےسیکولر دانشور موجود تھے جو سیاست کو مذہب سے الگ دیکھناچاہتے تھے ۔ابوالفضل وہ پہلا مسلم دانشور ہے جس نے بین الادیان مکالمے کو ترجیح دی اور عبادت خانے میں ہر مذہب کے رہنمائوں کو مدعوکرکے مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا ۔اس کے باوجود اکبر کو بھی ہندومخالف قراردیاجارہاہے جب کہ مسلمان بھی اس کے سیاسی نظریے کو مسترد کرتے ہیں۔
ہندوستان میں انتخابی فائدے کے لئے مسلم مخالف بیانیہ تیارکیاگیا،اس کے لئے ہم تنہا بی جے پی کو موردالزام نہیں ٹھہراسکتے ۔سیکولر سیاسی جماعتوں نے بھی اس بیانیہ کی تضعیف کے لئے منظم لایحۂ عمل اختیارنہیں کیا۔جس زمانے میں یرقانی تنظیمیں ہندوستان کےاقتدار پرتسلط کی حکمت عملی تیارکررہی تھیں ،کانگریس سمیت ہندوستان کی تمام سیکولر جماعتیں خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھیں ۔بھارت میں ’رتھ یاترا‘کے ذریعہ ہندوئوں کو مذہبی منافرت کی دلدل میں دھکیلاجارہاتھا اورکسی کو اس کے دیرپا نقصانات کا اندازہ نہیں تھا ۔ہاشم پورہ فساد سے لے کر بابری مسجد کے انہدام تک کانگریس نے کوئی نمایاں سیاسی حکمت عملی اختیارنہیں کی جس کا خمیازہ انہیں اقتدار سے بے دخلی کی صورت میں بھگتناپڑا۔ورنہ اگر کانگریس چاہتی تو علاقائی جماعتوں کی مدد سے شدت پسند اور شرپسندعناصر کو کچلاجاسکتاتھامگر انہیں پنپنے کا بھرپور موقع دیاگیا۔
ہندوستان میں مسلم مخالف سیاست کی بنیاد پیچیدہ ہے اور اس کے مختلف اسباب ہیں۔ تاریخی پس منظر، انتخابی سیاست، مذہبی تفریق، معاشی فرق،عالمی سطح پر بڑھتاہوااسلاموفوبیااور میڈیا کا منافقانہ کردار ،اُن عوامل میں شامل ہیںجو مسلم مخالف سیاست کی زمین تیارکرتے ہیں۔ یہ سیاست ہندوستان کی اجتماعی اور سماجی ہم آہنگی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے ۔عالمی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں نے بھی ہندوستان کی سیاست پر گہرااثر مرتب کیاہے ۔خاص طورپر استعمار نے جس طرح عالمی سطح پر مسلمانوں کے کردار کوپیش کیااس نے اسلاموفوبیا کی تحریک کو مزید تقویت بخشی ۔مشرق وسطیٰ کے سیاسی نشیب وفراز نے بھی ہندوستانی سیاست میں برقی تبدیلی رونماکی۔البتہ اس حقیقت کا احساس ان ملکوں کوبالکل نہیں ہے جن کی سیاسی پالیسیوں کااثر ہندوستان کے مسلمانوں پر بھی مرتب ہوتاہے ۔اس کے باوجود وہ خود کوپوری دنیاکے مسلمانوں کا رہبر سمجھتے ہیں اور مسلمان بھی ان کے اثرسے آزاد نہیں ہیں ۔بہترہوگاکہ ہم پہلے اپنے مسائل کی گھتیاں سلجھانے کی کوشش کریں۔جب تک ہم اپنے حالات سے زیادہ دنیا کے حالات کی پرواہ کریں گے ،تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔