-
اٹھیے اور اپنی راہیں تلاش کیجیے
- سیاسی
- گھر
اٹھیے اور اپنی راہیں تلاش کیجیے
341
m.u.h
19/12/2022
0
0
تحریر: ظفر آغا
بابری مسجد کو گرے ہوئے تیس برس کا عرصہ ہو گیا۔ بی جے پی نے ان تیس برسوں میں نہ صرف ملک کے اقتدار پر قبضہ کر لیا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اب وہ عام ہندوستانی کے دل و دماغ پر بھی قابض ہے۔ سنگھ اور بی جے پی اپنے سیاسی اور سماجی ایجنڈا کو لاگو کرنے میں پوری طرح کامیاب ہے۔ نریندر مودی سرکار نے نہ صرف ایودھیا میں عین بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کا کام شروع کر دیا ہے بلکہ سنہ 2024 لوک سبھا چناؤ میں بھی رام مندر تعمیر بی جے پی کیمپین کا ایک اہم جز ہوگا۔ پھر سنگھ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے میں جن دیگر آئینی معاملات کو ایک اڑنگا سمجھتی تھی، وہ اڑنگے بھی مودی حکومت نے کم و بیش ختم ہی کر دیے۔ کشمیر کو آئین کی دفعہ 370 کے تحت جو خصوصی مراعات ملی ہوئی تھیں، پارلیمنٹ نے اس دفعہ 370 کو ختم کر جموں و کشمیر کا وہ خصوصی درجہ ختم کر دیا۔ اور اب مودی حکومت جموں و کشمیر کا سیاسی کردار بدلنے کو وہاں کسی طرح ایک ہندو وزیر اعلیٰ لانے کے لیے کوشاں ہے۔ پھر تین طلاق ختم ہوا، اور اب پارلیمنٹ میں یونیفارم سول کوڈ پیش ہو چکا ہے۔ امکان یہ ہے کہ اس طرح مسلم پرسنل لاء بھی ختم ہو جائے گا۔ پھر کاشی اور متھرا مساجد کے معاملات کورٹ میں پہنچ چکے ہیں اور بابری مسجد کی طرح ان دونوں مساجد کا معاملہ بھی مندروں کے حق میں حل ہو جائے گا۔ الغرض ہندوستان میں پچھلے چند برسوں میں نہ صرف ہندو راشٹر کے لیے راستے ہموار ہو گئے بلکہ ملک کی مسلم اقلیت بھی تقریباً دوسرے درجے کی شہری ہو چکی ہے۔ ایک ووٹ ڈالنے کا حق بچا ہے سو وہ بھی خطرے میں ہے۔ ابھی اس ماہ رامپور میں ضمنی چناؤ کے دوران جس طرح پولیس نے مسلم علاقوں میں مسلم ووٹر کو ووٹ ڈالنے سے روکا، اس سے اس بات کا اشارہ مل رہا ہے کہ اب مسلم ووٹر کو ڈنڈے کے زور پر ووٹ ڈالنے سے روکا جا سکتا ہے۔ یعنی مسلم اقلیت اب لگ بھگ پوری طرح دوسرے درجے کی شہری ہے اور ملک میں اس تبدیلی کے باوجود راوی چین لکھتا ہے۔ یعنی ہندو راشٹر سے اکثریت خوش بھی نظر آتی ہے۔ تب ہی تو بی جے پی آئے دن چناؤ جیتتی رہتی ہے۔
جی ہاں، یہ ایک نیا ہندوستان ہے، مودی کا ہندوستان اور سنگھ کے خوابوں کی تعبیر۔ اس لیے ہندوستان میں اقلیتیں، خصوصاً مسلم اقلیت اب ہر قسم سے محرومی کی زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ ہندوستانی مسلمان بھلے ہی ایک اقلیت ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی والی قوم بھی ہے۔ اتنی بڑی آبادی کو ہمیشہ کے لیے درکنار کر پانا ذرا مشکل ہے۔ مگر فی الحال اور آنے والے غالباً ایک لمبی مدت تک قوم کا مستقبل درخشاں نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا ایسے حالات میں ہندوستانی مسلمان لاچاری کی زندگی گزارتا رہے، ہرگز نہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اقلیت و اکثریت جو بھی ہو قوم وہی ترقی کرتی ہے جو خود ترقی کا جذبہ رکھتی ہے۔ ایک دور تھا کہ یہی مسلم اقلیت اسی ہندوستان کی حاکم اور سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم تھی۔ کچھ تاریخی غلطیاں ہوئیں، اور اب یہ حال ہے کہ وہی قوم غلامی کے کنارے ہے۔ اس لیے اب پھر سے دم بھر آگے چلنے کی جستجو ہونی چاہیے۔ لیکن کیا جائے تو کیا کیا جائے کہ مسلمان ترقی کر سکے؟
قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جن کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا ہنر آتا ہے۔ یہ ہنر اسی قوم کو آتا ہے جو وقت کے ساتھ اور اکثر وقت کے آگے چلنے کا فن رکھتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس ہنر کی بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے دور کے علم میں پوری طرح یکتا ہو۔ اس اکیسویں صدی میں ایسے ہنر کے لیے انگریزی تعلیم تو ضروری ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پر بھی مہارت لازمی ہے۔ ان تمام باتوں کے تناظر میں راقم الحروف کی رائے میں ہندوستانی مسلمانوں کا ایک ایکشن پلان ہونا چاہیے جو مندرجہ ذیل ہو:
(1) اولاً، ترقی کے لیے سب سے پہلے قوم کی سیاست ذی ہوش ہونی چاہیے۔ آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمان کی سیاست جذباتی رہی۔ قوم اس کا خمیازہ آج تک بھگت رہی ہے۔ قیام پاکستان ایک جذباتی فیصلہ تھا۔ اس فیصلے نے ہندوستانی مسلمان کو تین ٹکڑوں میں بانٹ کر کہیں کا نہیں رکھا۔ آج اگر ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کا مسلمان یکجا ہوتا تو اس کی یہ صورت حال نہ ہوتی جو اب ہے۔ پھر آزادی کے بعد ہر مسلم سیاست پر علمائے دین کا گہرا اثر رہا۔ مسلم قوم کو مولوی نے مار دیا۔ اس نے بابری مسجد مسئلہ کے وقت سے اب تک جذبات میں مسلمان کو جوش کی سیاست کے راستے پر ڈال دیا۔ اس کا جو حال اور نتیجہ رہا وہ سب پر عیاں ہے۔ اب جوش نہیں ہوش کی سیاست کا وقت ہے۔ مولوی اور جذباتی قسم کے قائدوں سے دور رہیے اسی میں قوم کا بھلا ہے۔
(2) تعلیم اگر بھوکے رہ کر بھی اولاد کو دلوانی پڑے تو بھی تعلیم دلوائیے۔ اس تعلیم میں دور حاضر سے جڑنے کے لیے انگریزی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم حاصل کرنا ضروری ہے۔
(3) اکیسویں صدی ڈیجیٹل صدی ہے۔ یہ آئی ٹی کا دور ہے۔ اس لیے کمپیوٹر یعنی آئی ٹی کی تعلیم اور اس میں مہارت حاصل کرنا لازمی ہے۔ گھر گھر کمپیوٹر ہو اور آئی ٹی میں مہارت ہو تب ہی قوم اکیسویں صدی سے لڑ سکتا ہے۔ اور اسی راستے سے وہ ترقی کی راہ پر چل سکتا ہے۔
(4) اب رہا سوال دور حاضر میں نوکریاں حاصل کرنے کا، یا پھر خود اپنی تجارت میں کامیابی حاصل کرنے کا، تو اس کی سمجھ بھی ضروری ہے۔ آج دنیا میں سروس انڈسٹری کا عروج ہے۔ اور یہ سیکٹر آنے والے سالوں میں بہت تیزی سے ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان سروس سیکٹر کے بھروسے ہی زندہ ہے۔ اس کو سرکاری یا غیر سرکاری نوکریاں نمک کے برابر ہی ملتی ہیں۔ کھانے کی انڈسٹری ہو یا دوسرے ہنر، مثلاً بجلی کا کام، بڑھئی گیری، نلکا بنانا، کپڑے سینا جیسے ہزاروں کام مسلمان برسہا برس سے کر رہا ہے۔ آج اس ہنر کو آئی ٹی کے ساتھ جوڑ کر بہت تیزی سے ترقی کی جا سکتی ہے۔ مثلاً زومیٹو گھر گھر کھانا پہنچا رہا ہے۔ مسلمان بریانی، قورمہ، کباب اور نہ جانے کیا کیا بیچتا ہے، مگر کم ہی لوگ ہیں جو اس کام کو آئی ٹی سے جوڑ کر کر رہے ہیں۔ ایسے ہر ہنر کو سروس سیکٹر کے ساتھ جوڑ کر کیجیے اور پھر دیکھیے ترقی آپ کے قدم چومے گی۔
(5) آج دنیا میں کروڑوں افراد ایک ملک سے دوسرے ملک جا جا کر نوکریاں کر رہے ہیں۔ ہندوستانی مسلمان جو باہر گئے ہیں وہ زیادہ تر عرب ممالک تک محدود ہیں۔ آج عرب ممالک میں نوکریاں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ اب مسلمانوں کو بھی ہجرت کے لیے یورپ اور امریکہ کا رخ کرنا چاہیے۔ کینیڈا اور آسٹریلیا ہر سال باہر سے لاکھوں افراد کو نوکریاں دے رہا ہے، مثلاً نرسنگ، آئی ٹی، اسکولوں میں ماسٹری، بجلی اور پائپ کا کام۔ ایسے لاکھوں ہنر کے کام والے افراد کی یورپ و امریکہ میں ضرورت ہے۔ ان کاموں میں ڈگری یا چھوٹا موٹا کورس کیجیے اور ہجرت کیجیے۔
لب و لباب یہ کہ موجودہ سیاسی حالات سے ناامید مت ہوئیے۔ ان حالات سے سبق لے کر خود کو تعلیم سے جوڑ کر اپنی ترقی کی راہیں ہموار کیجیے۔ جب ترقی ہوگی تو عقل آئے گی، اور پھر سیاست بھی درست ہو جائے گی۔
اٹھیے اور اپنی راہیں تلاش کیجیے۔