-
بین المذاہب مکالمہ کے قیام کی ضرورت
- سیاسی
- گھر
بین المذاہب مکالمہ کے قیام کی ضرورت
465
m.u.h
05/12/2022
0
0
تحریر:عادل فراز
موجودہ عہد میں بین المذاہب مکالمہ کی بے حد ضرورت ہے ۔بعض غلط فہمیوں کا ازالہ صرف اس لئے نہیں ہوپاتا کیونکہ مکالمہ کی فضا سازگار نہیں ہوپاتی۔آج ہندوستان سمیت دنیا میں جہاں بھی مذہبی منافرت کا وجود ہے اس کی بنیادی وجہ عدم مکالمہ اور مذہبی تعلیمات کی افہام و تفہیم کا نہ ہونا ہے ۔مسلمانوں نے اس راہ میں بہت کوششیں کی تھیں مگر بہت جلد فرقہ وارانہ اور مسلکی مسائل نے انہیں ادیان و مذاہب کی افہام و تفہیم سے بے خبر کردیا ۔مسلمانوں کی زیادہ تر کتابیں مسلکی نظریات کی تنقید اور تنقیص پر مبنی ہیں ،اس لئے ان کے یہاں دیگر ادیان و مذاہب کے بالمقابل مسلکی منافرت زیادہ ہے ۔انہوں نے مسلکی امتیازات کی بنیاد پر ایک دوسرے کی تکفیر کے فتوے دیے جس کا خمیازہ آج تک عالم اسلام کو بھگتنا پڑرہاہے ۔ہونا یہ چاہیے کہ ایک مسلک دوسرے مسلک کے نظریات کو بنام امتیازات پیش کرتا ،اور اس کی افہام و تفہیم کی صحیح کوشش کی جاتی ۔بے جا تنقید اور تنقیص اہل فکر کے لئے زیبا نہیں ۔
اکبر نے مذہبی و مسلکی مسائل میں بحث و مباحثے کے لئے عبادت خانہ کا قیام کیا تھا ۔گویا اس کے نزدیک ادیان و مذاہب اور فرق و مسالک کے نظریات کی افہام و تفہیم عبادت سے کم نہیں تھی ۔مسلمان علماء کے درمیان ہونے والے مباحثے مجادلوں میں بدل گئے تواس نے مختلف مذہبوں کے علماء کو عبادت خانہ میں مباحثے کے لئے دعوت دی ۔ہندوستان میں یہ پہلا ایسا موقع تھاکہ جب اسلام کے علاوہ دیگر ادیان و مذاہب کی تعلیمات کے لئے کوئی اہم مرکز قائم کیا گیا تھا ۔گوکہ اکبر کے عہد میں ہی یہ مرکز بے راہ روی کا شکار ہوگیا۔عبادت خانے کے مباحثوں کے نتیجہ میں ہی اکبر نظریاتی کشمکش میں مبتلا ہوا اور فکری بے راہ روی نے اس کو دین اسلام سے برگشتہ کردیا ۔دین الہی کی نظریاتی جڑیں عبادت خانہ میں تلاش کی جاسکتی ہیں ۔اگر عبادت خانہ میں مسلمان علماءفکری بے راہ روی کا شکار ہوکر مناظروں کو مجادلوں میں نہ بدلتے تو شاید دین الہی کا نظریہ جنم ہی نہیں لیتا۔
الہامی کتابوں کا مطالعہ ضروری
ہر مذہب میں کچھ آسمانی و الہامی کتابیں موجود ہیں ۔یہ الگ بات کہ ایک مذہب کی الہامی کتاب کو دوسر ا مذہب تسلیم نہیں کرتا ،لیکن ہر مذہب اس بات کا مدعی ہے کہ اس کی تعلیمات حق اور وہ اللہ کا پسندیدہ ہے ۔اس لئے ہر مذہب کی الہامی کتابوں کا مطالعہ اور اس کی تعلیمات کی آفاقیت کو سمجھنا ضروری ہے ۔پیغمبر اسلام ؐ کے زمانے میں بھی یہ روش موجود تھی ۔قرآن مجید نے بھی دیگر ادیان و مذاہب کے سلسلے میں دلچسپ معلومات فراہم کی ہیں ،اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم فقط اپنے مذہب کی تعلیمات تک سمٹ کر نہ رہ جائیں ۔اگر ہمیں بے راہ اور گمراہ افراد کی ہدایت کا فریضہ انجام دیناہے تو ان کے نظریات کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرنا ہوں گی ۔اگر ہم حق کے متلاشی افراد کے سوالات کے تسلی بخش جوابات نہیں دے سکتے ،تو پھر ہمیں ان سے بے جا اور بے نتیجہ مباحثہ بھی نہیں کرنا چاہیے ۔عبادت خانہ کے مباحثوں میں مسلمان صرف اس لئے عیسائیوں سے شکست کھاتے رہے کیونکہ انہوں نے بائبل کا مطالعہ نہیں کیا تھا ،جبکہ عیسائی لاطینی زبان میں قرآن کا مطالعہ کرچکے تھے ۔یعنی عہد اکبری تک بائبل فارسی اور عربی زبان میں منتقل نہیں ہوئی تھی ۔اور اگر ترجمہ موجود تھا تو ہندوستان کے علماء کی دسترس میں نہیںتھا ۔اس وقت تک شاہی کتب خانہ میں بھی بائبل موجود نہیں تھی ،اس لئے عیسائی بائبل کی تعلیمات پر جو استدلال قائم کررہے تھے مسلمان علماء ان سے لاعلم ہونے کی بناپر عیسائیوں کے سوالات کے معقول جوابات دینے سے قاصر رہے ۔عیسائی پادریوں کا پہلا مشن جس وقت دربار اکبری میں وارد ہوا،انہوں نے سب سے پہلے بادشاہ کی خدمت میں عبرانی ،یونانی اور لاطینی زبان میں بائبل پیش کی ۔اکبر نے بائبل کو فارسی میں منتقل کرنے کی ذمہ داری ابوالفضل کے سپرد کی مگر یہ ترجمہ ۱۶۰۹ءمیں جہانگیر کے عہد میں پایۂ تکمیل کو پہونچا۔۱۶۷۱ ء میں بائبل کا عربی ترجمہ ہندوستان پہونچا ،جس سے مسلمانوں نے بخوبی استفادہ کیا ۔یعنی عہد اکبری تک مسلمان بائبل کی تعلیمات سے بے بہرہ تھے اور خانقاہی نظام نے ان کے ذوق جستجو کو ختم کردیا تھا ۔اکبر کے عہد میں ادیان و مذاہب کی افہام و تفہیم اور دیگر زبانوں کی کتابوں کے ترجمہ کے لئے دارالمطالعہ کا قیام بھی عمل میں آیا ۔مہابھارت ،بائبل ، سنگھاسن بتیسی،حیوۃ الحیوان،اتھرین(چوتھا وید)مہابھارت(مقدمہ ابوالفضل نے تحریر کیا)رامائن،لیلاوتی( حساب کی معروف کتاب) کلیلہ و دمنہ،تاریخ کشمیر(جو سنسکرت زبان میں لکھی گئی تھی،اکبر نے کشمیر سفر کے دوران اس کتاب کو دیکھا اور ترجمہ کی ہدایت کی) ،تزک بابری،جامع رشیدی،بحر الاسمار،تاجک( ہندوستان میں علم نجوم کی معتبر کتاب)،ہربنس(کرشن جی کے حالات پر مبنی کتاب) اور معجم البلدان جیسی دوسری اہم کتابوں کے ترجمے کروائے گئے ۔تاریخ نویسی کے لئے مورخین کا بورڈ قائم کیا جس کے تحت تاریخ الفی اور دیگر کتابیں لکھی گئیں۔اکبر کے بعد بھی دیگر علوم و فنون کی کتابوں کے ترجمے منظر عام پر آتے رہے ۔موجودہ عہد میں بھی ترجمہ کا فن ناپید نہیں ہواہے بلکہ اچھے اور معنی خیز تراجم سامنے آرہے ہیں ۔لیکن مدرسوں میں یہ سلسلہ تھم سا گیا ہے ۔اہل مدارس اپنے مسلکی نظریات کے دائرہ سے باہر دیکھنا ہی نہیں چاہتے ۔زیادہ تر علماء واکابرین دیگر ادیان و مذاہب کی کتابوں کی تعلیمات سے بے بہرہ ایک مخصوص دائرہ میں محدود زندگی گذاررہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں کشادہ ظرفی کا فقدان ہے ۔دوسروں کے نظریات کو تحمل کرنے کی تاب ختم ہوتی جارہی ہے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی کتابیں حرف آخر اور ان کے خود ساختہ نظریات دوسروں کےلئے حجت ہیں ۔ان کے یہاں تنقید کو برداشت کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہوتاہے ۔مدارس کا حال تو اس سے بھی بدتر ہے ۔مدرسوں میں اسلام کے علاوہ دیگر ادیان و مذاہب کے مطالعہ کا نظام موجود نہیں ہے ۔حد یہ ہے کہ تمام اسلامی فرقوں کی تاریخ اور ان کے نظریات پر بھی علمی مباحث نہیں ہوتے ،بلکہ ایک دوسرے کی تضحیک اور تکفیر کو تدریسی وطیرہ بنالیا گیاہے ،جس کا خمیازہ نسلوںکو بھگتنا پڑاہے ۔اس نظام کو بدلنا ہوگا اور اسلامی فرقوں کے علاوہ دیگر ادیان و مذاہب کی تعلیمات کے تقابلی مطالعہ کو ترجیح دینا ہوگی۔روشن فکر ی کے لئے ضروری ہے کہ انسان دوسرے فرق و مذاہب کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرے ۔کنویں کا مینڈھک بالآخر کنویں کی حدود کو ہی پوری کائنات سمجھ لیتاہے اور اس کے باہر کی دنیا کا اس کو قطعی علم نہیں ہوتا ۔یاد رہے،ہمارے علماء بیک وقت چاروں فقہوں کے عالم ہوتے تھے ۔اس کے علاوہ مروجہ علوم پر ان کی گہری نگاہ ہوتی تھی۔گوکہ ایک انسان بیک وقت تمام علوم و فنون میں مہارت حاصل نہیں کرسکتا لیکن مروجہ علوم و فنون سے یکسر ناواقفیت بھی اچھی بات نہیں ہے ۔یہ ناواقفیت انسان کو نئے زمانے کے تقاضوں اور علمی و سماجی پیش رفت سے بے خبر بنادیتی ہے ۔بے خبری کی بناپر ہی وہ بدلتے ہوئے زمانے اور علمی و سماجی ترقیات کا مخالف ہوجاتاہے ۔کبھی اسے نئی ٹیکنالوجی اسلام مخالف نظر آئے گی اور کبھی وہ منقلب ہوتے ہوئے سائنسی نظریات کو اپنی کم علمی کی بناپر برداشت نہیں کرپائے گا ۔شیخ مبارک بیک وقت چاروں فقہوں پر دسترس رکھتے تھے ۔اکبر کو ملائیت زدہ نظام سے نجات دلوانے میں انکے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔گوکہ محضرنامے کو بعض محققین نے اسلام مخالفت قراردیاہے جبکہ محضرنامے کا متن اسلامی تعلیمات اور احادیث کے متن سے متصادم نہیں ہے ۔
ابوالفضل پر مختلف طرح کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں ،مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ مختلف علوم و فنون پر دسترس رکھتا تھا ۔عبادت خانے کی بحثوں میں وہ ہر مذہب اور مسلک کی تعلیمات و عقاید کے مطابق گفتگو کرتاتھا ۔عیسائی پادری مونسیراٹ نے اپنی ڈائری میں ابوالفضل کا ذکر کیاہے اور یہ بتلایاہے کہ وہ ایک کشادہ قلب اور روشن فکر انسان تھا ۔مختلف مذاہب کی کتابوں کے مطالعہ کی بناپر ابوالفضل کو کبھی نقطوی کہا گیا اور کبھی اس پرمذہب عیسوی اختیار کرنے کے الزامات عائد کئے گئے ،کیونکہ مسلمان علماء اپنی محدود ذہنیت کی بنیاد پر دوسرے مذاہب کی کتابوں کے مطالعہ کو اہمیت نہیں دیتے ،اس لئےبوالفضل ان کے نزدیک ایک معتوب اور مطعون شخصیت کا نام ہے۔ابوالفضل نے ہندوئوں کے ساتھ بھی مکالمہ قائم کیا تھا ۔اس نے مہابھارت ،رامائن اور ہندوئوں کی دوسری مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا تھا،اور ہندو پنڈتوں کے ساتھ اس کے خوشگوار تعلقات تھے ۔ابوالفضل کے بعد بھی ایسے علمااور دانشوروں کی کمی نہیں رہی جو مختلف ادیان و مذاہب کی تعلیمات کا علم رکھتے تھے ،مگر عصر حاضر میں ایسا نہیں ہے ۔
آج بھی ہمیں ایسے علماء کی ضرورت ہے جو دوسرے مذاہب کے ساتھ مکالمہ قائم کرسکیں ،اور ان کی الہامی تعلیمات کا علم رکھتے ہوں ۔ملت کو آج بھی علماء پر اعتماد ہے لیکن اس اعتماد کی برقراری کے لئے علمائے کرام کو مزید کوششیں کرنا ہوں گی ۔نزاعی مباحث کو درکنار کرکےخالص علمی بحثوں کا آغاز کرنا ہوگا ۔قرآنی تعلیمات اور پیغمبر اکرمؐ کی سیرت کو عالمی سطح پر متعارف کرانا ہوگا ۔حالات یقیناً بدلیں گے لیکن پہلے ہمیں حالات بدلنے کے لئے مخلصانہ جدوجہد کرنا ہوگی ۔