نذر حافی
جنوب مشرقی ایشیا کی ابتدائی تہذیب کا گہوارہ سمجھا جانے والا ملک برما، جس کا سرکاری نام ریپبلک آف دی یونین میانمار ہے، اس کا شمار ان ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں پر سرکاری سرپرستی میں گذشتہ ساٹھ سالوں سے نہتے انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ اٹھارہویں صدی میں برما برطانیہ کے نو آبادیاتی نظام میں شامل رہا۔ برطانیہ سے آزاد ہونے سے لے کر اب تک لسانی اور مذہبی اعتبار سے مسلسل داخلی خانہ جنگی کا شکار رہنے والے ملک برما کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کا ایک باشندہ ’یو تھانٹ ‘دس سال تک اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل رہا اور برما ہی کی ایک خاتون Aung San Kyi کو 1991ء میں نوبل امن انعام کا مستحق بھی قرار دیا گیا۔
گذشتہ 1962ء سے 2011ء تک کے پچاس سالہ عرصے کے دوران برما مسلسل فوجی حکومت کے ماتحت رہا۔ اگرچہ کے عام انتخابات کے بعد برما سے فوجی اقتدار کا سورج غروب ہوا لیکن درحقیقت پسِ پردہ ابھی بھی فوجی حکمتِ عملی ہی چل رہی ہے۔
برما کی حکومت کے ہاتھوں بدھ بھکشو اور مگھوں کے استعمال کی باقاعدہ داستاں کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ برما میں مذہبی فسادات کی تاریخ کافی پرانی ہے، تاجِ برطانیہ کے دور میں بھی یہاں پر فسادات عروج پر رہے، برما کے مسلمانوں نے 1945ء میں اپنے تحفظ کیلئے (بی ایم سی) برما مسلم کانگریس کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی۔ اس کے پہلے سربراہ’’ یو رزاق ‘‘تھے، وہ برما کی آئینی کونسل کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ یورزاق کو بعد ازاں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور بی ایم سی پر پابندی لگا دی گئی۔ جب 1962ء میں جنرل Ne Win برمی قومیت کا نعرہ لگا کر حکمران بنا تو اس نے برمی فوج سے مسلمانوں کو نکال دیا اور اسی دور میں مسلمانوں کو’’ گائے کش‘‘ کے علاوہ’’ کالے‘‘ اور ’’غیر ملکی‘‘ کے خطابات سے بھی نوازا گیا۔ بعد ازاں جب افغانستان میں طالبان برسرِ اقتدار آئے تو انہوں نے عالمِ اسلام کی صورتحال کا جائزہ لئے بغیر دیگر اقلیتوں پر دھونس جمانا شروع کر دی۔ خصوصاً انہوں نے جب بدھ مت کے آثار مٹانے اور گرانے شروع کر دیئے تو اس کا براہِ راست اثر برما کے مسلمانوں پر پڑا۔
بدھ مت کے پیروکاروں نے طالبان کے تشدد کا تشدد کے ساتھ جواب دینے کا فیصلہ کیا اور برمی مسلمانوں کی تنظیم”البرما مسلم یونین” کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی لگوا دی، اس کے علاوہ مسلمانوں کی جامع مساجد کو شہید کرنے کے مطالبے نے بھی زور پکڑا، قرآن مجید کی بے حرمتی کے متعدد واقعات ہوئے اور مسلمانوں کے کاروباری مراکز تباہ کئے گئے۔ برما میں اگرچہ مذہبی فسادات کا سابقہ قدیم تھا، لیکن طالبان کی شدت پسندی نے غیرمسلم قوتوں کو مسلمانوں کے خلاف متحد ہونے کا جواز فراہم کیا اور اس کے بعد حکومت نے بھی کھل کر مسلم کش عناصر کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔
برما کی حکومت نے جب طالبان کے تیور دیکھے تو انہیں بھی اسلام ایک خطرے کی صورت میں دکھائی دیا، چنانچہ جس طرح افغانستان میں طالبان اقلیتوں کے خلاف من پسند کارروائیاں کرتے رہے اسی طرح برما میں مسلمانوں کے خلاف، غیر مسلم بھی پرتشدد کارروائیاں انجام دیتے رہے۔ طالبان نواز حلقے یوں تو آپ کو برما کے بارے میں بہت کچھ بتا دیں گے، لیکن شاید وہ آپ کو یہ کبھی بھی نہ بتائیں کہ برما کے بسنے والے مسلمانوں کے گھر بار اجاڑنے میں “طالبان” کی حماقتوں کا کتنا ہاتھ ہے۔ طالبان کے مظالم کے منظرِ عام پر آنے کے بعد برما کی حکومت “غیرمسلموں کے ساتھ ملی بھگت کرکے مسلمانوں کو مرواو اور حکومت کرو” کی پالیسی پر آج تک عمل پیرا ہے۔
چنانچہ ہم آپ کی اطلاع کے لئے عرض کئے دیتے ہیں کہ جیسے بدنام زمانہ تنظیمیں حکومتی سرپرستی میں کبھی فرقہ واریت، کبھی لسانیت اور کبھی قومیت کی آگ سلگا کر نہ صرف دہشت گردی کی جڑوں کو مضبوط کرتی ہیں اور شدت پسندوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں، ویسے ہی افغانستان میں طالبان کی شدت پسند کارروائیوں کے بعد برمی حکومت بھی ان دہشت گردوں کی مکمل سرپرستی کر رہی ہے، جو مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں۔
ہم یہاں پر یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ برما میں مسلمانوں پر جو بدھ بھکشو اور مگھوں کی طرف سے مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، یہ سب کچھ نہ ہی تو ان کی مذہبی تعلیمات کا حصہ ہے اور نہ ہی اس قتل و غارت کے پیچھے ان کا مذہبی اور دینی لگاؤ ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہمارے ہاں ضیاءالحق جیسے حکمرانوں نے اپنے استعماری آقاؤں کے حکم کی تعمیل اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مسلمانوں کے درمیان مختلف دہشت گرد لشکر اور سپاہیں تشکیل دیں۔ اگرچہ ان دہشت گرد لشکروں، سپاہوں اور تنظیموں کی بظاہر شکل اسلامی ہے لیکن درحقیقت ان کی کارروائیوں اور ان کے کرتوتوں کا پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں۔
ضیاءالحق کے فکری مکتب کے زیرِ سایہ پلنے والے دہشت گردوں نے پیغمر اسلام (ص) کے نظریات و افکار کی روشنی کی شائد ایک جھلک بھی نہیں دیکھی، لیکن اس کے باوجود وہ اپنی ہر کارروائی کو اسلامی اور اپنے آپ کو مجاہد اسلام اور دینی پاسبان اور طالبان کہتے ہیں۔ کاٹھ کی یہ پتلیاں کنویں کے مینڈکوں کی مانند زندگی گذارتی ہیں اور گھاس پھوس کی مانند اس جہانِ رنگ و بو سے گزر جاتی ہیں۔ بدھ بھکشو اور مگھوں میں بھی”طالبان‘‘کی طرح ایسے کوڑھ مغزوں کی کثرت ہے جو برما کی حکومت کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں اور حکومتی اداروں کے آشرواد کے باعث بے گناہ مسلمانوں کے خون میں ہاتھ رنگ رہے ہیں۔
برما میں حالیہ فسادات کی کڑیاں اپریل کے ان واقعات سے جا کر ملتی ہیں کہ جب بدھ بھکشوں کی دو لڑکیوں نے اسلام قبول کیا اور بھکشوں نے اس کا برا منا ۔ اس کے بعد انہوں نے 2 جون 2012ء کو مسلمانوں کی ایک بس پر حملہ کرکے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ یہ بس برما کے دارالحکومت رنگون سے ارکان کے ضلع ناونگ کوک کی طرف جا رہی تھی۔ اس حملے میں انہوں نے بڑی بے رحمی سے خنجروں، چھریوں اور تلواروں سے مسافر مسلمانوں کا قتل عام کیا۔
میں یہیں پر اپنے قارئین کو اپریل کا ہی ایک اور سانحہ یاد دلانا چاہتا ہوں جو کہ پاکستان میں پیش آیا تھا۔ اس واقعے میں ایک نہیں بیس بسیں تھیں۔ یہ اپریل کی شب تھی جب راولپنڈی سے سکردو جانے والی بیس گاڑیوں کے کانوائے کو چلاس کے مقام پر روک کر مسافروں کو ایک ایک کرکے نیچے اتارا گیا اور پھر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ انہیں کئی درجن مسلح موٹر سائیکل سواروں نے ناکہ لگا کر روکا اور ارد گرد گھات لگائے، ہزاروں انسان نما درندے خنجر، پتھر اور ڈنڈے لے کر مسافروں پر حملہ آور ہوئے۔
پتھروں کے برسنے اور گولیوں کے چلنے کی آوازوں کے درمیان ننھے بچوں کی چیخیں اور مستورات کے بین فضاوں میں گونجتے رہے، لیکن ہمیشہ کی طرح حملہ آوروں کو کسی پر کوئی رحم نہیں آیا۔ ظلم، سفاکیت اور درندگی کی انتہا دیکھئے، کتنے ہی لوگوں کے ہاتھ پاوں باندھ کر انہیں دریا میں بہا دیا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں آئے روز بم دھماکے ہو رہے ہیں۔ ہمیں نہایت ہی افسوس کے ساتھ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان میں یہ سارے مظالم بدھ بھکشو یا ہندو نہیں کرتے، بلکہ اپنے آپ کو مجاہد اسلام اور طالبان کہنے والے کرتے ہیں۔ وحشت و بربریت کے یہ مناظر جہاں بھی نظر آئیں، چاہے برما میں ہوں یا بحرین میں، سعودی عرب میں ہوں یا شام میں، عراق میں ہوں یا افغانستان میں، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اجتماعی شعور کو بلند کریں، ہم اس بات کو سمجھیں کہ ظلم بالآخر ظلم ہے ،جو بھی کرے، جہاں بھی کرے۔۔۔ طالبان اور نام نہاد مجاہدین کریں یا بدھ بھکشوہ ظالم بالآخر ظالم ہے۔
اس وقت ہمیں برما میں مقتول مسلمانوں کی لاشوں پر اشک بہانے کے ساتھ ساتھ بدھ بھکشوں اور مگھوں کے مذہبی رہنماوں اور دینی رہبروں کو بھی ہر ممکنہ طریقے سے اپنے جذبات و احساسات سے بھی آگاہ کرنا چاہیے۔ ہمیں طالبان کے جلائے ہوئے نفرتوں کے الاو میں محبتوں کے چراغ روشن کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ٹھوس علمی شواہد کے ذریعے بدھ بھکشو اور مگھوں کے مذہبی رہنماوں تک دینِ اسلام کا حقیقی پیغام پہنچائیں۔ ان تک یہ پیغام پہنچائیں کہ ظلم سے نفرت اور مظلوم سے محبت یہ دنیا کے تمام امن پسند ادیان کا مشترکہ منشور ہے۔
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بدھ بھکشوں کو یاد دلائیں کہ اپنی تعلیمات کی روشنی میں ’’آنجہانی گوتم بدھ‘‘ بھی ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کے قتلِ عام سے سخت نالاں اور افسردہ ہیں۔ اگر اس قتل و غارت کے بعد بھی بدھ مت کے پیروکار اپنے بانی مذہب کی آتما کو شانتی پہچانا چاہتے ہیں تو اب ان کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ مل کر ’’مظلوم کی مدد کریں‘‘ اور ’’ظالم کو ظالم کہیں۔” آئیے ہم اس نازک وقت میں برما کے مقتل کو ظالموں کے خلاف محاذ میں تبدیل کرنے کے لئے دنیا کے ہر ظالم کو ظالم کہنے کا عزم کریں اور دنیا کے ہر گوشے سے ظالموں کے خلاف آواز بلند کریں۔