-
غزہ میں دشمن کا آخری ہتھیار بھوک
- سیاسی
- گھر
غزہ میں دشمن کا آخری ہتھیار بھوک
17
M.U.H
02/08/2025
0
0
تحریر:عادل فراز
غزہ میں’ محدود جنگ بندی ‘کا اعلان ہواہے ،مگر یہ انسانی امداد کی ترسیل کے لئے ناکافی ہے ۔اسرائیل نے عالمی دبائو سے مجبور ہوکر محدود جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی ہے اور اب غزہ میں انسانی امدادپہونچنا شروع ہوگی ۔اسرائیل نے مستقل جنگ بندی کے بجائے غزہ کے تین مخصوص علاقوں میں روزآنہ دس گھنٹے کے لئے حملے روکنے کا فیصلہ کیاہے ۔البتہ اسرائیل کے وعدے پر یقین نہیں کیاجاسکتاکیونکہ اس سے پہلے بھی وہ مسلسل جنگ بندی کی مخالفت کرتارہاہے ۔اسرائیل انسانی امداد حاصل کرنے کے لئے ضرورت مندوں کی بھیڑ پر ہوائی حملے کرکے نسل کشی کررہاہے ۔خاص طورپر عورتوں اور بچوں کو ہدف بنایاجارہاہے تاکہ غزہ میں انسانی بحران کوجنم دے کر وہاں صہیونیوں کے لئے عیاشی کے مراکز قائم کئے جاسکیں ۔مختلف رپورٹوں سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اسرائیل اب بھی ’جنگ بندی ‘ کے اصولوں کو پامال کررہاہے ۔عوام مسلسل بھوک سے مررہے ہیں ۔خاص طورپر بچے بھوک سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں ۔زخمیوں کو علاج میسر نہیں ہے اور وہ مہلک امراض کا شکار ہیں ۔ایسے پرآشوب حالات میں ’محدود جنگ بندی ‘سے زیادہ راحت کی امید نہیں ہے ۔عالمی دبائو میں ابھی مسلسل اضافہ ہوناچاہیے تاکہ جنگ بندی کا دائرہ مزید وسیع ہوسکے ۔
اہل غزہ کا دردپوری دنیا نے محسوس کیا ،سوائے عالمی حکمرانوں کے ۔خاص طورپر مسلم حکمران جو بے غیرتی اور بے حسی کی مجسم تصویر بن چکے ہیں ۔غزہ کو شدید غذائی قلت کا سامناہے ۔اسرائیل نے غزہ میں داخلے کے تمام راستے بند کررکھے ہیں ۔اہل غزہ کی استقامت اور حوصلے کو توڑنے کے لئے بھوک کو آخری ہتھیار کے طورپر استعمال کیاجارہاہے ۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بچے بھوک سے دم توڑرہے ہیں ۔’اونرا‘ کے ترجمان عدنان ابوحسنہ کے مطابق’ غزہ کی صورتحال قابو سے باہر ہوچکی ہے ۔انہوں نے کہاکہ غزہ میں انسانی امداد کا پورا نظام زمین بوس ہوچکاہے اور اس وقت لاکھوں انسان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلاہیں ۔یہ انسانی بحران قدرتی آفت نہیں بلکہ اسرائیل کے سیاسی فیصلے کا نتیجہ ہے ‘۔اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کے تمام بیانات غزہ کی بدترین صورت حال کو ظاہر کرتے ہیں ،اس کے باوجود عالمی رہنمائوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔امریکی صدر ٹرمپ جو ہر جنگ بندی کا کریڈٹ لینے میں پیش پیش رہتے ہیں وہ بھی غزہ میں جنگ بندی نہیں کرواسکے ۔اسرائیل کی جنگ حماس کے ساتھ ہے مگر حماس کو شکست دینے اوران کی فوجی قیادت کوگھٹنوں پر لانے کے لئے اہل غزہ کے خلاف بھوک کو ہتھیار کے طورپر استعمال کیاجارہاہے ۔عالمی دبائو تشکیل دینےمیں مسلم حکمرانوں کا کوئی کردار نہیں رہا۔انہوں نے اسرائیلی مظالم کی صرف زبانی مذمت کی ہے اور کسی بھی عملی اقدام سے باز رہے ہیں۔اگر وہ متحد ہوکر دبائو بناتے تو اب تک غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کے لئے تمام راستے کھول دئیے جاتے ،کیونکہ اسرائیل کو اپنے وجود کے لئے ان حکمرانوں کی حمایت کی بے حد ضرورت ہے ۔
غزہ میں قحط اور بھکمری شباب پر ہے ۔انسانی حقوق کی سو سے زیادہ بین الاقوامی تنظیموں اور گروہوں نے غزہ میں بڑے پیمانے پر قحط کا انتباہ دیاہے ۔’اونرا‘ کے کمشنر جنرل فلپ لازراینی نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ’ غزہ میں لوگ مردہ ہیں اور نہ زندہ بلکہ وہ چلتی پھرتی لاشیں ہیں ۔‘انہوں نے مزید کہاکہ بھوک سے مرنے والوں میں اکثریت بچوں کی ہے ۔ہماری ٹیم کو جو بچے ملے ہیں وہ انتہائی لاغر ،کمزور اور قریب المرگ ہیں ۔اگر ان کا فوری علاج نہ کیاگیاتو ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے ۔‘ان بیانات سے غزہ میں سنگین صورت حال کا اندازہ لگایاجاسکتاہے ۔عالمی صحت کی معروف تنظیم (ڈبیلو ایچ او) نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ غزہ کی آبادی کا بڑاحصہ بھکمری کا شکار ہے ۔اس تنظیم کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس نے کہاکہ میں نہیں جانتاکہ آپ اس صورت حال کو بڑے پیمانے پر قحط اور بھکمری کے اور کیاکہیں گے اور یہ صورت حال انسانوں کی پیداکردہ ہے ‘۔دوسری طرف اقوام متحدہ کے فوڈایڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے خبردار کرتے ہوئے کہاکہ ’غزہ میں ہرتیسرا شخص کئی دن تک بغیر غذاکے زندگی گذار رہاہے ۔رپورٹ کے مطابق نوے ہزار خواتین اور بچوں کو فوری علاج کی ضرورت ہے ‘۔اس ناگفتہ بہ صورت حال کو پوری دنیا محسوس کررہی ہے ۔امریکہ کے ایوان کانگریس کے کئی اراکین نے غزہ میں انسانی بحران کے مسئلے کو سنجیدگی سے اٹھایا ہے۔انہوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہاکہ غزہ میں انسانی صورت حال نہایت افسوس ناک ،لرزہ خیز اور کسی طوربھی قابل قبول نہیں ۔غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل نہ صرف انتہائی مشکل بلکہ جان لیوابن چکی ہے جس کے نتیجے میں تقریباً سینکڑوں بے گناہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ ’غزہ کی محصور آبادی کا پچہتر فیصد حصہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے مسلط کردہ محاصرے کے باعث ہولناک بھوک کا سامناکررہاہے ۔انہوں نے کہاکہ نتن یاہو کی مجرمانہ پالیسیاں انسانی وقار اور عالمی ضمیر کے منہ پر طمانچہ ہیں ۔‘امریکی ایوان کانگریس کے نمائندگان نے تو غزہ میں انسانی امداد فراہم کرنے والی امریکی حمایت یافتہ تنظیم ’غزہ ہیومنیٹیر ین فائونڈیشن ‘کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے ہیں ۔کیا ایسی جرأت کسی مسلم حکومت کے نمائندوں میں پائی جاتی ہے جو اپنی حکومت کی بے حسی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرسکیں ؟اسرائیل کے حلیف ممالک میں جابجا فلسطین کی آزادی اور غزہ میں جنگ بندی کے لئے احتجاج ہورہے ہیں مگر مسلم ملکوں کی عوام اب بھی مغرب سے کوئی سبق نہیں لے سکی ۔مسلم حکومتوں کے خلاف ان کے عوام میں غم وغصہ توپایاجاتاہے مگر یہ غصہ کب لاوامیں تبدیل ہوگایہ نہیں کہاجاسکتا۔ان کی زندگی عیش ونشاط میں گذررہی ہے اس لئے انہیں اپنی حکومتوں سے داخلی سطح پر زیادہ شکایتیں نہیں ہیں ،مگر اپنے حکمرانوں کی بے حسی اور امریکی غلامی نے انہیں بھی بدگمان کردیاہے ۔عربوں میں اپنے حکمرانوں کے خلاف غصہ تو موجود ہے مگر ابھی تک ان میں بغاوت کاجذبہ نہیں ابھر سکا ،جس کا انتظار پوری دنیاکو ہے ۔
غزہ کی بدترین صورت حال پر دنیا کی مختلف حکومتیں فلسطین کی حمایت میں سامنے آرہی ہیں ۔یہ الگ بات کہ ابھی ان حکومتوں کے بیانات کو حتمی موقف تصور نہیں کیاجاسکتا۔فرانسسی صدر ایمانوئیل میکرون نے اپنے بیان میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کااعلان کیاہے ۔حالانکہ ابھی اس بیان پر بہت اعتبار نہیں کیاجاسکتاکیونکہ فرانس امریکہ کا حلیف ملک ہے ۔اس کے باوجود اس بیان کی اہمیت کو کم نہیں سمجھاجاسکتا۔فرانس کی طرح دنیا کی متعدد حکومتیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی راہ میں پیش رفت کررہی ہیں ،جو اہل غزہ کی استقامت کی بنیاد پر ممکن ہورہاہے ۔فرانسسی صدر نے کہاہے کہ ’مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور پائیدارامن کے لئے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیاگیاہے ۔انہوں نے واضح کیاکہ یہ اعلان رواں برس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران کیاجائے گا۔‘دیکھنایہ ہے کہ تب تک فرانسسی صدر کے موقف میں کیا تبدیلی رونماہوگی اور امریکہ انہیں کس طرح اور کن شرائط پر اسرائیل کی حمایت میں لانے کے لئے جدوجہد کرے گا۔میکرون نے یہ بھی کہاکہ آج کی سب سے فوری ترجیح غزہ میں جنگ کا خاتمہ اور وہاں کی شہری آبادی کو ریلیف فراہم کرناہے‘ ۔البتہ انہوں نے حماس کو غیر مسلح کرکے غزہ میں قیام امن اور تعمیر نو کی تجویز دی ہے جس کے آثار نظر نہیں آتے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے عالمی براداری پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ ان کی خاموشی فلسطینیوں کی چیخیں سن کر بھی نہیں ٹوٹی ،یہ ناقابل معافی ہے ۔انہوں نے انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ غزہ کے مسئلےپر عالمی خاموشی انسانیت کے دامن پر بدنما داغ ہے ۔فلسطینیوں کے درد پر دنیا کی خاموشی اخلاقی بحران کی آئینہ دار ہے ۔میں عالمی بے حسی کی وضاحت نہیں کرسکتا،انسانیت ختم ہوچکی ہے ،عالمی برادری میں ہمدردی ،صداقت اور انسانیت کا فقدان ہے ۔‘عالمی برادری سے گوتریس کا شکوہ اور حکمرانوں کو کوسنابجاہے مگر اقوام متحدہ جیسے غیر موثر ادارے کی اب دنیا کو کیاضرورت ہے ،اس پر بھی انہیںروشنی ڈالنی چاہیے تھی ۔اگر اقوام متحدہ جنگ بندی اور انسانی امداد کی ترسیل میں ناکام ہے تو اس ادارے کو بند کردیناچاہیے۔انسانی حقوق کی علم بردار تمام تنظیمیں اپنی حیثیت گنواچکی ہیں ۔ان کے ہونے سے انسانیت کو کوئی فائدہ نہیں ہے ۔یہ تمام ادارے استعمار کو فائدہ پہونچانے کے لئے ہیں ،جس میں اقوام متحدہ سب سے اوپر ہے۔