-
شمال مشرقی ہندوستان میں دہشت گردی کے معاملات کا جائزہ
- سیاسی
- گھر
شمال مشرقی ہندوستان میں دہشت گردی کے معاملات کا جائزہ
15
M.U.H
03/12/2025
0
0
تحریر: بھاسکر مہنتا
ہندوستان کی مشرقی سرحد ایک واضح کشیدہ صورتحال کا شکار ہے ۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے ہندوستان ۔ بنگلہ دیش کی سرحد پر جو اضطراب آمیز سکون تھا وہ اب ختم ہونے لگا ہے ۔ اس کی جگہ ایک معروف اور زہریلی صورتحال نے لے لی ہے جسے ہم جیسے وہ لوگ جنہوں نے 1990 میں کام کیا تھا خوف کے احساس سے جانتے ہیں ۔
جو پرانے حالات کے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ وہ طویل عرصہ سے تاریخ پاکستان اور اس کے جہادی عناصر کے حوالے کردئے گئے تھے نہ صرف دوبارہ سر ابھار رہے ہیں بلکہ سرگرمی سے بحال بھی ہو رہے ہیں۔ مشرقی محاذ کو جان بوجھ کر دوبارہ سرگرم کیا جا رہا ہے اور خطرہ کے نشانات جو ہیں وہ نظرانداز کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ بنگلہ دیش ایک ایسی قوم ہے جو اپنی سیاسی روح کے ساتھ جنگ میں ہے ۔ شیخ حسینہ کے خلاف عدالت سے سنائی گئی سزائے موت نے ایک دھماکو صورتحال پیدا کی ہے جس نے سیاسی نظم کو پرتشدد طریقہ سے منتشر کردیا ہے ۔
مابعد پیدا ہونے والے حالات نے سڑکوں کو میدان جنگ میں تبدیل کردیا اور سرکاری اداروں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے ۔ اقتدار کے خلاء میں ایسی قوتیں شامل ہیں جو استحکام اور ہندوستان دونوں کو مستقل مخالف کے طور پر دیکھتی ہیں۔ ہم نے یہ صورتحال پہلے بھی دیکھی ہے ۔ ایک غیر مستحکم بنگلہ دیش ہندوستان کے شمال مشرق سے باغی گروہوں کیلئے ایک محفوظ لانچ پیڈ اور وسیع پناہ گاہ بن گیا ہے ۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح ہمارے حفاظتی ذمہ داروں نے مسلسل دباؤ اور بے تکان جدوجہد کی وجہ سے شیخ حسینہ کی حکومت کے ساتھ تعاون کی مہم کے ذریعہ ان راستوں کو بند کردیا تھا ۔ چٹگانگ اور سلہٹ میں کیمپوں کو ختم کیا گیا اور ان کی قیادت کو بھی گرفتار کیا گیا ۔ ہم نے سرحد پارآکسیجن کی سپلائی منقطع کردی جس نے تخریب کاری کو برقرار رکھا تھا ۔
سکیوریٹی کو وہ پورا ڈھانچہ جو ایک دہائی سے زیادہ کی سخت جدوجہد سے بنایا گیا تھا اب وہ حقیقی معنوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ اس خطرناک شورش کے اشارے اب کوئی دھیمی سرگوشیاں نہیں رہیں۔ وہ عوامی اور ڈھٹائی کے خطرناک اشارے ہیں۔ بنیاد پرست نظام کو جسے برسوں سے دبایا گیا تھا کھلے عام بحال کیا جا رہا ہے ۔ انصار اللہ بنگلہ دیش ٹیم ABT اب پس پردہ کام نہیں کرتی ۔ اس کے سربراہ کو موجودہ اقتدار کے وجود میں آنے کے اندرون چند دن جیل سے رہا کرنا ریاڈیکلس کیلئے معافی کا ایک واضح اشارہ تھا ۔ اس سے زیادہ اہمیت کی بات یہ ہے کہ سرکاری سرپرستی میں ہونے والی امن کانفرنس میں بنیاد پرست مبلغ اور ہندوستانی عدالتی کارروائی کیلئے مطلوب ذاکر نائک کو شامل کرنے کا منظم اقدام ہے ۔
انتہاء پسندی کی بھڑکتی ہوئی آگ پر تیل ڈالنے کا یہ نظریاتی آتشزدگی کا ایک دانستہ کیا گیا کام ہے ۔ یہ ایک ایسے شخص کو درست قرار دیتا ہے جس کے خطابات نے دہشت گردی کو فروغ دیا ہے اور بنگلہ دیش میں نئے ابھرتے طاقت کے مراکز کے نئے نظریاتی مرکز کے تعلق سے واضح پیغام بھی دیتا ہے ۔
خطرہ محض مقامی نہیں ہے ۔ اس پر عالمی جہادی منظوری بھی شامل ہے ۔ گجرات ‘ بنگلورو ‘ ہریانہ اور دہلی میں حالیہ گرفتاریاں پریشان کن انداز کو ظاہر کرتی ہیں ۔ محفوظ پیام رسانی ‘ مخصوص ایپس کا استعمال اور جن روابط کا پردہ فاش کیا گیا ہے وہ القاعدہ کی غیر واضح شناخت کا حامل ہے ۔ یہ ایک لرزہ خیز طریقہ کار ہے ۔ جو آپریشنل تجربہ ہے وہ اس بات کی تویق کرتا ہے کہ القاعدہ ‘ اسلامک اسٹیٹ کی کارروائیوں کا سرچشمہ طویل عرصہ سے بنگلہ دیش میں قائم ہے ۔ جے ایم بی اور اے بی ٹی جیسے گروپس نے رسمی طور پر القاعدہ سے وفاداری کا عہد کیا ہے اور اس کی مقامی شاخوں کی طرح کام کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال انہیں علاقائی کارکنو سے عالمی دہشت گردی کے نیٹ ورک میں تبدیل کرتی ہے ۔ اسی طرح ایک مضطرب منظر نامہ میں پاکستان کا دوبارہ داخلہ یقینی طور پر پراعتماد انداز میں ہوا ہے ۔ حالیہ پاکستانی بحری جہازوں کا چٹگانگ کا دورہ ایک حکمت عملی اعلان سے کم نہیں تھا ۔ یہ کوئی معمول کا سفارتی عمل نہیں تھا ۔ اس سے انٹلی جنس سے نمٹنے والوں کو ایک پلیٹ فارم ملتا ہے جو سفارتی ڈھانچہ میں کام کرتے ہیں اور یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ مخالف ہند عناصر کو واضح سرپرستی بھی مل رہی ہے ۔
تاہم زمینی سطح پر در اندازی اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ مصدقہ انٹلی جنس اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی آئی ایس آئی اور فوجی اہلکاروں کے دورے بھی ہوئے ہیں اور ان کے پس پردہ عناصر جیسے لشکر طیبہ نے بھی بنگلہ دیش کے حساس مقامات کے دورے کئے ہیں جن میں سلہٹ ‘ چٹگانگ کے پہاڑی علاقے اور کاکس بازار کا ساحلی علاقہ بھی شامل ہے ۔
یہ در اصل پرانے نیٹ ورکس کو بحال کرنے کی عمدا کوشش ہے تاکہ رکروٹمنٹ زونس بحال ہوسکیں اور ساز و سامان کے ہب کو بھی بحال کیا جاسکے جن کے نتیجہ میں شمال مشرق میں کئی دہوں کی خونریزی ہوئی ہے ۔ تاہم سب سے زیادہ اشتعال انگیزی پاکستانی کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے دورہ بنگلہ دیش کی شکل میں ہوئی ہے ۔ انہیں کتاب پیش کی گئی ہے جس کے سر ورق پر ہندوستان کے شمال مشرقی علاقوں اور مغربی بنگال کو بنگلہ دیش کے علاقہ کے طور پر دکھایا گیا ہے ۔
یہ کوئی معمولی غلطی نہیں تھی ۔ یہ ایک نپا تلا اور معاندانہ عمل تھا جسے ہندوستان کی علاقائی سالمیت کو واضح طور پر چیلنج کرنے کیلئے ڈیزائین کیا گیا تھا ۔ یہ محض اشارے نہیں ہیں۔ یہ جان بوجھ کر ہندوستان پر لگائے گئے نشانے ہیں۔
جو بحران کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے اس میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں کوئی منطقی حکومت یاتو اس میں ملوث ہے یا سیاسی طور پر اس کا جواب دینے سے بہت زیادہ معذور ہے ۔ جب کوئی حکومت خود اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہے تو قومی سلامتی اور انسداد دہشت گردی ثانوی اہمیت اختیار کر جاتی ہے اور تکلیف دہ بھی ہوجاتی ہے ۔ پولیس اور انٹلی جنس آلات سیاسی مینجمنٹ سے مغلوب ہوجاتے ہیں۔
یہ مفلوج صورتحال اے بی ٹی ‘ جے ایم بی اور ہوجی ۔ بی جیسے گروپس کیلئے دوبارہ مجتمع ہونے ‘ رکروٹ کرنے اور منصوبے بنانے کیلئے سازگار کہی جاسکتی ہے ۔ افرا تفری ایک ایسی تاریک راہداری فراہم کرتی ہے جس کے ذریعہ دہشت گرد ہندوستان کے شمال شرقی علاقوں کے قلب تک پہونچ سکتے ہیں۔
ہندوستان کیلئے یہ ایک ڈراؤنے خواب کی صورتحال ہے ۔ خالدہ ضیاء کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی قیادت والا ایک مخالف لیکن مستحکم بنگلہ دیش ایک ایسا ملک تھا جس سے نمٹا جاسکتا تھا ۔ جو بنگلہ دیش افرا تفری کا شکار ہے اور اس کی سرزمین کو پاکستانی انٹلی جنس کیلئے پیش کیا جا رہا ہے اور ایک القاعدہ نیک ورٹ فروغ پا رہا ہے یہ ہندوستانی علاقائی سالمیت کیلئے ایک مستقل اور واضح خطرہ کی عکاسی کرتا ہے ۔ خاموشی اختیار کرنا ایک ایسا امکان ہے جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے ۔
ہمارا رد عمل تیز ‘ رکاوٹ سے پاک اور حکمت عملی کے اعتبار سے جامع ہونا چاہئے ۔ سب سے پہلے ہمیں داخلی سلامتی کی ایک بے مثال سطح کو یقینی بنانا چاہئے ۔ جو خطرہ ہے وہ مربوط اور تیز رفتار ہے اور ہمارے انسدادی اقدامات کو بروقت انٹلی جنس مشین کے ساتھ کام کرنا چاہئے جہاں تمام مرکزی ایجنسیوں کو ایک ہی مقصد اور مشترکہ ڈیٹاکے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ آسام ‘ میگھالیہ ‘ تریپورہ منی پور اور مغربی بنگال کی پولیس فورس کو ایک واحد اور متحد فورس کے طور پر کام کرنا چاہئے ۔ مشترکہ انٹلی جنس گرڈ اب کوئی اختیاری نہیں بلکہ ضروری شئے ہوگئی ہے ۔ ایک ریاست کی ساحلی سرحدوں سے اٹھنے والا خطرہ دوسری ریاست کے جنگل کے علاقہ سے اٹھنے والے خطرہ سے مختلف نہیں ہوسکتا ۔ مرکزی سکیوریٹی اداروں اور ریاستی دستوں کے درمیان گہری ہم آہنگی ہماری سب سے پہلی اور سب سے اہم دفاعی لائین ہے ۔
فوری حفاطتی رد عمل سے آگے بڑھ کر ہمیں ایک تاثر عام کرنے کی جنگ بھی لڑکی چاہئے ۔ پاکستان اور عالمی جہادی گروپس تصوراتی اور حقیقی سمجھے جانے والے عوامل پر فروغ پاتے ہیں۔ ہمیں اجتماعی اور ترقی کے جارحانہ اور مستحکم تاثر کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔ تیز رفتار بنیادی ڈھانچے کے منصوبے ‘ اقتصادی سرمایہ کاری اور شمال مشرق میں سیاسی حساسیت محض فلاحی اقدامات نہیں ہیں۔ وہ قومی سلامتی میں اہمیت کے حامل ہیں۔ جتنا کسی بھی فوجی ہارڈ وئیر کی طرح اہم ہے ۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ مختلف یا نظرانداز ہونے کا احساس مخالف ایجنسیوں کی جانب سے استحصال کا نفسیاتی خلا نہ بن جائے ۔ اس کیلئے مکمل حکومتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے ۔ اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ خطہ کے لوگ مابقی ہندوستان کے ساتھ ایک اٹوٹ رشتہ محسوس کریں اور انہیں سرحد پار سے پھیلنے والے زہریلے پروپگنڈہ سے محفوظ بنایا جائے ۔
جہادی مراکز کا دوبارہ کارکرد ہونا اور ایک حوصلہ مند پاکستان ‘ بحری دورہ ‘ القاعدہ کے روابط اور بنیاد پرستوں کی باز آبادکاری ایک دوسرے سے الگ الگ واقعات نہیں ہیں۔ وہ ایک مربوط جارحیت کی باہم مربوط جنگی صفوں کو ظاہر کرتے ہیں جو ایک طویل وقت سے بند محاذ کو دوبارہ کھولنے تیار کیا گیا ہے ۔ 1990 کی دہائی کی غفلت کے خون خرابہ اور اس کی بھاری قیمت کا مشاہدہ کرنے کے بعد میں یہ واضح کہہ سکتا ہوں کہ بے عملی کی قیمت بہت زیادہ ہوگی ۔
ہندوستان ‘ بنگلہ دیش کے سیاسی طوفانوں پر قابو نہیں پاسکتا لیکن ہم پر خود کو مضبوط کرنے کی مکمل ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ ہمیں اب بہت واضح طور پر ‘ غیر متزلزل عزم کے ساتھ کام کرنا چاہئے ۔ مشرقی محاذ جاگ رہا ہے ۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ہم سوتے ہوئے نہ رہ جائیں۔