-
تبدیل مذہب کے بنیادی محرکات
- سیاسی
- گھر
تبدیل مذہب کے بنیادی محرکات
560
m.u.h
04/05/2023
1
0
تحریر:عادل فراز
ہندوستان میں مذہب کی تبدیلی دو بنیادوں پر عالم وجود میں آئی ۔ایک مذہبی اور اشرافیہ طبقے کے استحصال کی بناپر اور دوسرے جاہ و منصب کی ہوس کے زیر اثر ۔اس کے علاوہ مذہب کی تبدیلی کے مختلف وجوہات ہوسکتے ہیں لیکن ہندوستان میں ان دواسباب کی بنیاد پر مذہب کی تبدیلی کا جائزہ لیا جاناچاہیے ،اس کے علاوہ دیگر وجوہات کو ضمنی یا جزئی قراردیا جاسکتاہے ۔تبدیلیٔ مذہب کے ابتدائی محرکات میں ان دواسباب کے علاوہ کوئی دوسرا بنیادی سبب نظر نہیں آتا ۔
پہلامحرک
ہندوستان میں مذہب کی تبدیلی کے رجحانات پسماندہ اور دلت طبقات میں زیادہ نظر آتے ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ مذہبی طبقے کی بالادستی اور پسماندہ طبقات کا استحصال ہے ۔خاص طورپر برہمنوں نے اس استحصال کو مذہبی جواز فراہم کیا ،جس نے معاشرے کو مزید پستی کے تحت الثریٰ میں دھکیل دیا۔منوسمرتی نے طبقاتی نظام کو مذہبی حیثیت دی ،اس کے بعد اس تفریق کو ختم کرنا ناممکن تھا ۔پسماندہ ذاتوں کا سماجی و سیاسی استحصال کیاگیا اور انہیں اس کی اجازت بھی نہیں دی گئی کہ وہ اعلیٰ ذاتوں کے ساتھ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا تناول کرسکیں ۔ان کی عورتوں کو لونڈی سمجھاگیا اور مال و ناموس میں تصرف کو جائز قرار دیاگیا ۔مقدس رسومات میں ان کی شمولیت جرم تھی ،اوروہ ویدوں کو پڑھنے کے سزاوار بھی نہیں تھے ۔سماج میں ان کی حیثیت غلاموں سے بدتر تھی ۔فطری لحاظ سے انہیں پست درجہ دیا گیا لہذا انہیں اعلیٰ ذاتوں کی خدمت کے لئے وقف کردیاگیا ۔اس سماجی استحصال سےنجات کی کوئی امید نہیں تھی ،لیکن صوفیاو مشائخ کی خانقاہوں میں آمدورفت اور ان کی تعلیمات نے انہیں اس قنوطیت زدہ صورت حال سے نجات کی امید دلائی ۔انہوں نے پہلی بار اعلیٰ ذات کے لوگوں کے ساتھ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔سب سے اہم بات یہ رہی کہ خانقاہوں میں ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا گیا،جس نے انہیں تصوف کی طرف راغب کیا۔رفتہ رفتہ پسماندہ طبقات کے لوگ صوفیا کے ذریعہ اسلامی تعلیمات سے آشنا ہونے لگے اور تیزی کے ساتھ ان کا حلقۂ اثر بڑھنے لگا۔بہت کم عرصے میں نومسلموں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا اور تصوف نے ہندو سماج خاص کر پسماندہ طبقات کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
صوفیا کی تعلیمات اور ان کےنظریۂ مساوات نے ہندوئوں کوبے حد راغب کیا لیکن صوفیا نے کبھی زبردستی مذہب تبدیل نہیں کروایا ۔بسااوقات ایسا ہواکہ کچھ لوگ غلاموں کو پکڑ کر صوفیا کی خانقاہوں میں لے گئے تاکہ ان کا مذہب بدلوایا جاسکے لیکن صوفیا نے اس طریق کار کو قبول نہیں کیا ۔خواجہ نظام الدین اولیا کے پاس ایک مسلمان غلام اپنے بھائی کو اس نیت سے لایا تاکہ وہ اس کو مسلمان بناسکیں ،مگر خواجہ نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا ۔(فوائد الفواد۔امیر حسن سنجری ۔مرتبہ ایم لطیف ۔لاہور ۱۹۶۶ء۔صفحہ ۳۰۵۔تا ۳۰۸)کیونکہ صوفیا ’لکم دینکم و لی دین‘ کے نظریے پر پابند تھے ،جس کے مطابق ہر انسان کو اس کے دین پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہو ۔قرآن مجید’اکراہ فی الدین‘کے ذریعہ واضح طورپر یہ اعلان کرتاہے کہ بالجبر کسی کا دین بدلوانا جائز نہیں ہے ۔لہذا صوفیا نے کبھی کسی کا دین بدلوانے کے لئے جبر یا لالچ کا سہارا نہیں لیا ۔لوگ جوق در جوق ان کے ہاتھوں پر مشرف بہ اسلام ہوئے لیکن یہ سب ان کی تعلیمات اور انسان دوست نظریے کی بناپر ممکن ہوا۔گوکہ آگے چل کر صوفیا کو تبدیل مذہب کے مبلغ کےطورپر معروف کیاگیا ،لیکن اس بارے میں بھی جبرکےپختہ شواہد نہیں ملتے ہیں ۔
دوسرا محرک
ہندوستان میں مسلمانوں کے فاتحانہ داخلے کے وقت ہندوستان کی الگ الگ ریاستوں میں ہندوراجائوں کی حکومت قائم تھی ۔ان حکومتوں کو تسخیر کرنے کے بعد مسلمانوں نے انہیں تہ تیغ نہیں کیا بلکہ صلح اور مذاکرات کی پیش کش کی ۔جن راجائوں نے انانیت اور کٹ حجتی کا مظاہرہ نہیں کیا ان کی جاگیریں بازیاب ہوئیں ۔جنگ ،قیدوبند یا قتل کی نوبت اس وقت پہونچی کہ جب انہوں نے بغاوت اور سرکشی کے علاوہ دوسرا راستہ اختیار نہیں کیا ۔مسلمان حکومتوں کے ماتحت بہت سے ہندوراجائوں نے اپنی ریاستوں میں عزت و وقار کے ساتھ حکمرانی کی ،اسی طرح کئی ہندوراجائوں کو خودمختار ریاستیں قائم کرنے کی آزادی بھی دی گئی ۔
مسلمان سلاطین بھی ہندوئوں کے جبری تبدیل مذہب کے قائل نہیں تھے ۔فتوحات کے بعدانہوں نے ہندوئوں کے اتھ انسانی رویہ اپنایا۔بلکہ بعض سلاطین نے مقامی باشندوں کو راغب کرنے کے لئے ہندودیوی دیوتائوںکے بارے میں تکریم کا اظہار کیا اور ان کے لئے مندر بھی بنوائے ۔معیزالدین غوری(وفات۱۲۰۶ء)نے فتح کے بعد بعض سونے کے سکّوں پر ہندوئوں کی دیوی ’لکشمی‘ کی تصویرمنعکس کروائی ۔(عہدوسطیٰ کا ہندوستان،ایک تہذیب کا مطالعہ۔عرفان حبیب۔ص۱۱۴)مورخ عصامی کے مطابق سلطان محمد بن تغلق اپنی ہندورعایا کےساتھ ہولی کا تیوہار مناتا تھا ۔اس کے دربار میں ہندوجوگی بھی موجود تھے جو حکومت کی طرف سے مراعات حاصل کرتے تھے ۔جبکہ محمد بن تغلق کو ایک سخت گیر سلطان کہاجاتاہے لیکن اس نے ہندوئوں کی ذہنی و مذہبی تقریب کے لئے بہت کوشش کی۔مغل عہد میں سلاطین نے ہندورانیوں کے لئے محل میں مندر بنوائے ۔اورنگ زیب جسے ہندو نہایت سخت گیر بادشاہ مانتے ہیں ،اس نے بھی ہندوئوں کے مندروں کے لئے جائدادیں وقف کیں اور کئی مندروں کی تزئین کاری بھی کروائی ۔مغلوں نے ہندوئوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں برتا بلکہ انہیں شہریوں کے تمام حقوق دئیے۔لائق اور فائق ہندئوں کو حکومتی منصب عطا کئے گئے تاکہ ان کے اور مسلمانوں کے درمیان دوریوں کو کم کیاجاسکے ۔ہندو راجہ اور مسلمان بادشاہ اپنی مذہبی رواداری کے فروغ کے لئے مسجداور مندر تعمیر کرواتے تھے ۔ہندوئوں نے مسلمانوں کے لئے کئی مذہبی عبادت گاہیں تعمیر کروائیں ،اسی طرز پر مسلمانوں نے ہنود کے لئے مندر بنوائے ۔اسلامی ریاستوں میں ہندوئوں کو یہ حکم تھاکہ وہ جزیہ اداکرنے کے بعداپنے مذہبی رسم و رواج کی ادائیگی کے لئے پوری طرح آزاد ہیں ۔وہ جس طرح چاہیں مذہبی تقریبات منعقد کرسکتے ہیں ۔عندالضرورت مسلمانوں کوملازم رکھنے پر بھی پابندی نہیں تھی ۔مذہبی تقریبات کے انعقاد کے وقت انہیں اپنے خطابات کی نمائش کا بھی حکم تھا،تاکہ اس طرح ہندوعوام کو مسلمان سلاطین کی ہندوپروری کا علم ہوسکے۔اودھ ریاست میں تو ہندو اور مسلمان باہم شیروشکر گذر بسر کرتے تھے ۔نواب آصف الدولہ کا بنوایا ہوا ’ہنومان مندر ‘ اورراجہ جھائو لال کا تعمیر کردہ امام باڑہ لکھنؤ کی تہذیبی رواداری کا مثالی نمونہ ہیں ۔
مسلمان حکومت کے قیام کے بعد اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے جاہ و منصب کے حصول کے لئے بغیر کسی جبر کے مذہب اسلام قبول کرلیا ۔انہیں معلوم تھاکہ اگر وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوتے ہیں توان کے منصب میں مزید اضافہ ہوگا اور عام مسلمانوں کے درمیان بھی ان کی مقبولیت بڑھےگی۔ایسے امرااور رئیسوں کی تعداد کم نہیں ہے جنہوں نےجاہ ومنصب کے حصول کے لئے مذہب اسلام کو آلۂ کار کے طورپر استعمال کیا ۔ا نہوں نے مسلمان لڑکیوں کے ساتھ شادیاں کیں جس کے نتیجہ میں ان کی آنے والی نسلوں میں مکمل اسلامی تہذیب و ثقافت سرایت کرگئی ۔
موجودہ عہد میں بھی مسلمان انہی دو وجوہات کی بناپر تبدیل مذہب کا شکا رہوسکتے ہیں ۔مسلمانوں کے وہ پسماندہ طبقات جن پر آرایس ایس کی نظر ہے ،جنہیں مسلمانوں کے اشرافیہ طبقات نے ہمیشہ نظر انداز کیا ۔مذہبی طبقے نے ہمیشہ انہیں برابری کا درجہ دیا لیکن مسلمانوں کے سماج میں ان کے ساتھ امتیازی سکول روا رکھا گیا ۔ان کے ساتھ اعلیٰ ذاتوں نے شادیاں نہیں کیں ۔ان کےحالات بدلنے کے لئے مخلصانہ جدوجہد نہیں کی گئی ۔مذہب اسلام جو ذات پات ،رنگ اور قوم و قبیلے کی عظمت اور تفریق کا قائل نہیں ہے ،اس کے باوجود مسلمانوں میں تفریقی نظام موجود ہے ،جو مقامی کلچر کا اثر ہے ۔
دوسر ا گروہ ان مسلمانوں کاہے جو اپنے جاہ و منصب کےلئے اپنی تہذ یب و ثقافت کو چھوڑتے جارہے ہیں ۔یہ لوگ سیاسی و ذاتی مفاد کے لئے اسلامی مقدسات کی اہانت کرتے ہیں اور غیر اسلامی رسومات میں شریک ہوکر خود کو لبرل اور سیکولر ظاہر کرتے ہیں ،جبکہ وہ جن لوگوں کی نگاہوں میں محترم بنے رہنے کے لئے ایسے افعال انجام دیتے ہیں ،وہ لبرل اور سیکولر ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے ۔ان کی خوشنودی کے حصول کے لئے مسلمانوں کا یہ مفادپرست گروہ تبدیل مذہب کی طرف بھی مائل ہوسکتاہے ،یاپھر وہ برائے نام مسلمان رہ جائیں گے۔