-
فرانس میں زرد آندھی اور میکرون کا متزلزل محل
- سیاسی
- گھر
فرانس میں زرد آندھی اور میکرون کا متزلزل محل
1359
M.U.H
11/12/2018
0
0
مولانا سید نجیب الحسن زیدی
(جہاں بھی مزدور طبقہ اپنے حقو ق کی بازیابی کی بات کرتا ہے یہ لوگ اسکا ایک سرا شدت پسندانہ نظریات رکھنے والے افراد سے جوڑ دیتے ہیں جبکہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ جو گڑھا انہوں نے کھودا ہے ایک نہ ایک دن تو اس میں انہیں گرنا ہی ہے چاہے خود گریں یا مزدور انہیں انکے سرمایہ دارانہ نظام کی اس اندھی خندق میں دھکیل دیں جنہیں انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی غلط پالیسیوں کے ذریعہ امیر و غریب کے درمیان خیلج کو گہرا کر کے خود ہی بنایا تھاجبکہ وہ اسے پاٹنے کی کوشش کرتے تو سرمایہ دار طبقے کی خوشی کو نہ دیکھ کر مزدور طبقے کی ضرورت کو دیکھتے ،لیکن جب وہ مزدوروں کی ضرورت کو دیکھنا ہی نہیں چاہیں گے تومعاملہ بگڑتا جائے گا اورجتنا دبے ہوئے غریب طبقے کے مسائل کی ان سنی کی جائے گی اتنا ہی اسکے مطالبات بڑھتے جائیں گے)
کہتے ہیں زرد طوفان کم ہی آتا ہے لیکن جب آتا ہے تو بڑی تباہی لیکر آتا ہے ۔ دو طرح کی آندھیاں خطرناک مانی جاتی ہیں ۔ایک زرد ،دوسری سیاہ جب خشک موسم میں میدانی علاقوں میں تلاطم خیز ہوائیں گرد و غبار کے بادلوں کے ساتھ آتی ہیں تو انہیں گرد و غبار کی بپھری لہروں کو آندھی کہا جاتا ہے۔ یہ طوفان اپنے ساتھ سیاہ یا زرد رنگ کے گرد و غبار کے بادل لاتے ہیں جنہیں بالترتیب سیاہ یا زرد آندھی کہا جاتا ہے۔ جس طرح جب سیاہ آندھی آتی ہےتو چاروں طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا جاتا ہے۔ انسان کو کچھ بھی نظر نہیں آتا ہر چیز اڑتی ہوئی دکھتی ہے ،چیزوں کے گرنے کی آوازیں بتاتی ہیں کہ کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں ہے حتی انسان کو یہ نہیں پتہ ہوتا وہ کہاں ہے اور اسکے اطراف میں کیا کیا ہے ؟ وہ کس چیز کو پکڑے کے اسکی جان بچ سکے ایسے میں انسان اپنے آپ کو سنبھال کر ایک گوشے میں بیٹھ جاتا ہے کہ خود تو محفوظ رہے اور آندھی کے تھمنے کا انتظار کرتا ہے کہ آندھی رکے تو حواس بحال ہوں اسی طرح زرد آندھی بھی ہے یہ آندھی بھی کسی کالی آندھی سے کم نہیں بس فرق یہ ہوتا ہے کہ کالی آندھی میں کچھ دکھتا نہیں اور گھٹاٹوپ اندھیرا چھا جاتا ہے لیکن زرد آندھی میں سب کچھ پیلا پیلا نظر آتا ہے آندھی کالی ہو یا زرد دونوں ہی صورتوں میں خوب ریت برستی ہے۔ ہوا اتنی تیز چلتی ہے کہ انسان بے بس ہو کر دیکھتا رہ جاتا ہے اور جب تک آندھی رہے کچھ نہیں کر پاتا اور جب آندھی ختم ہو تی ہے تو عجیب منظر ہوتا ہے چو طرفہ تباہی ہوتی ہے درخت اور کھمبے اکھڑے نظر آتے ہیں کہیں تباہ شدہ فصلیں ہوتی ہیں تو کہیں مرے ہوئے مویشی اور انکا تعفن کہیں مکانات سے اڑی چھتیں بکھری نظر آتی ہیں تو کہیں ایک دوسرے پر چڑھی گاڑیاں ۔ آج کل فرانس میں بھی کچھ یہی معاملہ ہے ، کہیں دفتری عمارتوں کی بگڑی شکلیں ہیں ، کہیں اس آندھی کی لپیٹ میں آنے والی گاڑیاں کہیں ویران سڑکوں پر پیلے سایے ہیں تو کہیں جلتے ٹائروں اور جلتی گاڑیوں کا دھوان لیکن یہ آندھی کوئی قدرتی آفت نہیں ہے بلکہ یہ آندھی فرانس کی اپنی غلط پالسیوں کی بنا پر آئی ہے یہ پیلی آندھی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک آواز بن کر آئی ہے یہ آندھی جمہوریت و ڈیموکریسی کے نام پر معدودے افراد کے ذریعہ عوام کے خون و پسینے کی کمائی کو نگل جانے کے خلاف اٹھی ہے اگر کھل کر کہا جائے تو یہ آندھی پیلی جیکٹ والوں کی علامت کے ساتھ فرانس کے دبے کچلے طبقے کے برسہا برس سے دبے ہوئے غصے کی آندھی ہے جسے پیلی واسکٹ والوں کی تحریک (انگریزی: Yellow vests movement)، (فرانسیسی: Mouvement des gilets jaunes کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔
پیلی جیکٹ والوں کی تحریک کیا ہے ؟
یہ تحریک فرانس کی زندگی کے مہنگے اخراجات پر اعتراض جتانے اور حکومت کی جانب سے ٹیکس کی وصولی کے خلاف جنم لینے والی ایک ایسی احتجاجی تحریک ہے جو کہ 17 نومبر 2018ء کو شروع ہوئی جس کے بعد سے پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں اب تک چار افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں یہ تحریک فی الوقت فرانس کے ہمسایہ ممالک مثلاً اٹلی ، بلیجیئم اور نیدرلینڈز و…پھیل چکی ہے ۔اس تحریک کا سبب یہ ہے کہ ایندھن کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کو حکومت روکنے میں ناکام رہی جسکا سیدھا اثر فرانس کے متوسط و غریب طبقے پر پڑا جسکی بنا پر وہ تلملا اٹھا اور اپنی آواز کو پہنچانے کے لئے سڑکوں پر اتر آیا ،بتدا میں یہ تحریک محض ایندھن کی بڑھتی قیمتوں پر اعتراض کی صورت سامنے آئی لیکن اب اس میں بڑے مصارف زندگی، اخراجات کا بے لگام ہونا اورحکومتی ٹیکس کی بھرمار جیسے مسائل بھی داخل ہو گئے یہ وہ مسائل ہیں جنکا بوجھ محنت کش ، مزدور اور درمیانے طبقے پر زیادہ پڑا یہی وجہ ہے کہ اس تحریک میں دیہی علاقوں اور نیم شہری علاقوں کے لوگ زیادہ متحرک ہیں کیونکہ انہیں ہی حکومتی ٹیکس اور زندگی کے خرج کا بوجھ بھی دوسروں سے زیادہ محسوس ہوا آمدنی اٹھنی اور خرچہ روپیہ کی صورت جب تک معاملہ رہا تو اسے تو وہ کراہتے کراہتے جھیل گئے لیکن جب آمدنی چونی اور خرچہ ڈیڑھ روپیہ ہونے آیا تو انکی چیخ نکل گئی اور ا ب انہوں نے چیخ کر اپنے حقوق کی طرف حکومت وقت کو متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے یہی چیخ اب ایک تحریک کے جنم لینے کا سبب بنی ہے ۔یوں تو اس تحریک کی ابتدا ذیزل کی بڑھتی قیمتوں پر اعتراض سے ہوئی لیکن اب اس تحریک میں شامل مظاہرین ڈیزل کی قیمتوں میں کمی پر ہی نہیں رکے ہیں بلکہ معاشی پالیسیوں میں تبدیلی، مزدوروں اور طلبہ کو مراعات دینے اور روزگار کے تحفظ جیسے مطالبات کر رہے ہیں۔جبکہ دوسری طرف حکام کا کہنا ہے کہ عام شہریوں کی شروع کی گئی اس تحریک میں اب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل اور سرمایہ داری کی مخالف پرتشدد تحریکوں کے کارکن شامل ہوگئے ہیں جو اس تحریک کو تشدد کی طرف لے جا رہے ہیں حکام کی جانب سے اس قسم کی باتیں نئی نہیں ہیں جہاں بھی مزدور طبقہ اپنے حقو ق کی بازیابی کی بات کرتا ہے یہ لوگ اسکا ایک سرا پر تشدد نظریات رکھنے والے افراد سے جوڑ دیتے ہیں جبکہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ جو گڑھا انہوں نے کھودا ہے ایک نہ ایک دن تو اس میں انہیں گرنا ہی ہے چاہے خود گریں یا مزدور انہیں انکے سرمایہ داری کی اس اندھی خندق میں دھکیل دیں جنہیں انہوں نے امیر و غریب کے درمیان خیلج کو گہرا کر کے خود ہی بنایا تھا اگر وہ اسے پاٹنے کی کوشش کرتے تو سرمایہ دار طبقے کی خوشی کو نہ دیکھ کر مزدور طبقے کی ضرورت کو دیکھتے ،لیکن جب وہ مزدوروں کی ضرورت کو دیکھنا ہی نہیں چاہیں گے تومعاملہ بگڑتا جائے گا اورجتنا دبے ہوئے غریب طبقے کے مسائل کی ان سنی کی جائے گی اتنا ہی اسکے مطالبات بڑھتے جائیں گے چنانچہ تحریک کے مطالبات میں پہلے تو مذکورہ مسائل کا حل ہی تھا لیکن اب صدر میکرون کا استعفی بھی اس میں شامل ہو گیا ہے ۔ اس تحریک کی زمینی حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو کہا جا سکتا ہے یوں تو اس تحریک نے فرانس کے بڑے شہروں کو اپنی چپیٹ میں لیا ہوا ہے ، لیکن دیہی علاقہ جات غیر معمولی طور پر اس میں متحرک نظر آر ہے ہیں ۔اس تحریک میں پیلے رنگ کو ایک علامت کے طور پر منتخب کیا گیا ہے کیونکہ 2008ء کے بعد سے تمام کمرشل گاڑی چلانے والوں کو قانون کے تحت پیلی رنگ کی جیکٹ پہننا لازمی قرار دیا جا چکا ہے۔اب مزدور اور محنت کش طبقے نے اس رنگ کو انتخاب کر کے اپنی بے بسی کو جتانے کی کوشش کی ہے ۔فرانس کے دارالحکومت پیرس سمیت دیگر شہروں میں گزشتہ ہفتے شروع ہونے والی یہ تحریک جلد ہی اس قدر شدید جھڑوں کا سبب بنی کہ فرانسیسی صدر میخواں کو جی 20 سربراہی اجلاس چھوڑ کر وطن واپس آنا پڑا۔
ڈیزل کی قیمتوں نے پورے فرانس میں آگ لگا دی :
جیسا کہ ہم نے بیان کیا یوں تو یہ تحریک زندگی کے سبھی مصارف سے جڑی لیکن اسکا آغاز ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں کو لگا م نہ ملنے کی بنا پر ہوا ،خبروں کے مطابق ڈیزل فرانسیسی گاڑیوں میں عام طور پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ایندھن ہے اور گذشتہ 12 ماہ میں ڈیزل کی قیمت تقریباً 23 فیصد بڑھ گئی ہے۔ سنہ 2000 سے اب تک ایک لیٹر کی قیمت میں اوسطً 1.51 یورو کا اضافہ ہوا ہے جو ڈیزل کی اب تک کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایندھن پر لگائے جانے والے ٹیکس اور اخراجاتِ زندگی میں اضافے کی وجہ سے برپا احتجاج میں 100 سے زیادہ افراد صرف پیرس میں زخمی ہوچکے ہیں ذرائع ابلاغ کے مطابق دارالحکومت پیرس ہفتے کے روز میدان جنگ کا منظر پیش کررہاتھا، جگہ جگہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہورہی تھیں ، مظاہرین نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کرکے راستے بند کر دیے تھے۔محض دارالحکومت میں ہونے والی جھڑپوں میں سیکورٹی فورسز کے 23 ارکان بھی زخمی ہوئے تھے اور تقریباً 400 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ۔ پولیس کے مطابق دو ہفتے سے جاری ان مظاہروں میں تین افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔فرانس کے وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ ملک بھر سے تقریباً 136000 لوگوں نے مظاہرے میں حصہ لیا۔آپے سے باہر مظاہرین نے بڑے پیمانے پر سرکاری املاک کو نقصان بہنچایا ہے حتی پیرس کے مشہور ’آرک ڈی ٹریومف‘ میں نصب مجسموں کو بھی توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایاہے پر پرتشدد مظاہروں کے ساتھ ی لوٹ مار اور املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ فرانسیسی حکومت نے ہنگامی حالت نافذ کرنے کو خارج از امکان قرار نہیں دے دیا ہے۔ تجویز دی گئی ہے کہ مستقبل میں ایسے مظاہروں کی روک تھام کی خاطر ایمرجنسی لگا دی جائے۔ مظاہرین کی وزیراعظم کی رہائشگاہ تک پہنچنے کی کوشش کے چلتے فرانس کے وزارت داخلہ کے مطابق پولیس نے مقامی طور مظاہرین۱۰۰۰کو گرفتار کر لیا ۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کےگولے بھی برسائے جس سے پیرس کی سڑکیں میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگیں، پولیس نے الیزے پیلس کے تمام داخلی دروازے سیل کر دیے۔ پولیس کی جانب سے مظاہرین کی گرفتاری اور انکے احتجاج کو طاقت کے بل پر دبانے کے سلسلہ سے ترکی کے صدر جمہوریہ رجب طیب اردوگان نے کہا ہے ہے کہ یورپ کی ڈیموکریسی کا تصور بس کتابوں ہی تک محدود ہے حالیہ صورت حال یہ ہے کہ مظاہرین کی جانب سے تشدد اور توڑ پھوڑ کے خدشے کے پیشِ نظر ہفتے کو ملک بھر میں 90 ہزار سے زائد پولیس اہلکار مظاہروں کی سکیورٹی پر تعینات کیے گئے ہیں۔یہ تعداد گزشتہ ہفتے کے اختتام پر ہونے والے مظاہروں کے موقع پر تعینات کیے جانے والے 65 ہزار اہلکاروں سے کہیں زیادہ ہے۔گزشتہ ہفتے کے اختتام پر ہونے والے مظاہروں کے شرکا نے پیرس کے کئی مرکزی مقامات پر توڑ پھوڑ کی تھی اور درجنوں گاڑیوں کو نذرِ آتش کردیا تھا۔ ۔ مزیدمظاہروں کے پیشِ نظر دارالحکومت پیرس میں ایفل ٹاور سمیت تمام اہم سیاحتی مقامات بند کردیے گئے ہیں اور شہر میں پولیس کے آٹھ ہزار اہلکاروں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے جنہیں بکتر بند گاڑیوں کی مدد بھی حاصل ہےپیرس کی شہری انتظامیہ کے مطابق دارالحکومت کے تمام سیاحتی مقامات کے علاوہ ڈپارٹمنٹل اسٹور، عجائب گھر اور بیشتر بڑے میٹرو اسٹیشن بھی بند رہیں گے۔پیرس کی بیشتر بڑی شاہراہوں پر پولیس کی بھاری نفری گشت کر رہی ہے جب کہ دکانوں اور ریستورانوں سے اپنے دروازے بند رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔شہر کی بڑی شاہراہوں پر واقع دکانوں اور ریستوران مالکان نے لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کے خدشے کے پیشِ نظر اپنی عمارتوں کی کھڑکیوں اور شیشوں کو تختے لگا کر بند کردیا ہے۔پولیس نے شہر کی سڑکوں سے ایسے تمام دھاتی ٹکڑے، پتھر اور سڑک کنارے قائم ریستورانوں کا فرنیچر ہٹادیا ہے جنہیں مظاہرین توڑ پھوڑ کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرسکتے ہوں ۔
پولیس اور انتطامیہ کی جانب سے اپنے دفاع کے لئے انتظامات چاہے جتنے ہی مستحکم کیوں نہ ہوں ،اگر عام لوگوں کے مطالبات کو حکومت نے تسلیم نہیں کیا تو یہ پیلی جیکٹ کی یہ آندھی کسی بھی وقت کالی آندھی کا روپ دھارن کر سکتی ہے فی الحال تو سب کچھ پیلا پیلا نظر آ رہا ہے اور فرانس کے صدر کوانکا محل متزلزل نظر آ رہا ہے ،وہ دن بھی دور نہیں کہ انہیں کچھ بھی نظر نہیں آئے گا اور لوگوں کے وجود کے اندر عدل و انصاف کی آواز جب ایک سیاہ آندھی کی شکل اختیار کرے گی تو انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا وہ کہاں ہیں اور انکا محل کہاں ہے ۔لہذا امریکا کی ایماء پر انہیں دوسرے ممالک کی اقوام متحدہ میں شکایت کرنے سے زیادہ اپنے ملک کے باشندوں کی شکایت کو سننا ہوگا نہیں تو جو کچھ زرد زرد اور پیلا پیلا تھوڑا بہت دکھ رہا ہے وہ بھی دکھنا بند ہو جائے گا ۔یہاں تک کے ویغسائی محل یا ویرسائی محل Palace of Versailles) کے دروازے بھی اتنا سیاہ و کالے ہو جائیں گے کہ انہیں اندازہ ہی نہیں ہو سکے گا کہ کبھی ویرسائی جیسا شاندار محل کی چابی انکے ہاتھوں میں ہوا کرتی تھی …
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)