-
ہندوستان کے لئے سری لنکا میں درس عبرت کا سامان
- سیاسی
- گھر
ہندوستان کے لئے سری لنکا میں درس عبرت کا سامان
584
m.u.h
08/04/2022
0
0
تحریر:عبدالماجد نظامی
سری لنکا ان دنوں اپنے اقتصادی بحران اور سیاسی و سماجی بے چینی کے لیے سرخیوں میں ہے۔ ہر طرف سے بے بسی اور مایوسی کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ سیاست دانوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے اور پورا ملک ایک قیامت خیز منظر پیش کر رہا ہے۔ عام انسانوں کی زندگی اس قدر پیچیدگی کا شکار ہوگئی ہے کہ اس بھنور سے سلامتی کے ساتھ نکل آنا ان کے لیے کسی معجزہ سے کم نہیں ہوگا۔ عوام کے پاس نہ کھانا پکانے کے لیے ایندھن کا نظم ہو پارہا ہے اور نہ ہی دوا علاج کے لیے طبی وسائل مہیا ہیں۔ لوگ سڑکوں پر اور صدر و وزیراعظم کے گھروں اور دفتروں تک پہنچ کر سخت احتجاج درج کرا رہے ہیں اور ہر طرف افرا تفری کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ گوٹابیا راج پکشے جس کا انتخاب سری لنکا کے عوام نے نومبر2019میں کیا تھا، اس کا پس منظر ہمیں بہت کچھ بتاتا ہے کہ ہمیں ایسے لیڈران کے انتخاب سے پرہیز کرنا چاہیے۔ گوٹابیا راج پکشے کی زندگی تنازعات کے گھیرے میں ہمیشہ رہی ہے۔ وہ صدر بننے سے قبل پیشہ سے لیفٹیننٹ جنرل اور عہدہ کے اعتبار سے ڈیفنس سکریٹری رہ چکے ہیں۔ سری لنکا سے ایل ٹی ٹی ای کے خاتمہ میں گوٹابیا کا بڑا اہم کردار رہا ہے لیکن ان کا دامن اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق چالیس ہزار بے گناہوں کے خون سے آلودہ بھی ہے۔ گوٹابیا نے کبھی اس کو قبول تو نہیں کیا جیسا کہ ہر مطلق العنان کی فطرت ہوتی ہے لیکن سری لنکا میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم عمل رہنے والی تقریباً تمام تنظیموں نے ان کے انتخاب پر بڑی گہری فکرمندی کا اظہار کیا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ سری لنکا کے الگ الگ طبقوں کے درمیان خلیج میں مزید اضافہ ہوگا اور انسانی حقوق کی پامالی کھلے عام ہوگی۔ یہ خدشات بے سبب نہیں تھے۔ گوٹابیا اس معاملہ میں بھی بدنام رہے ہیں کہ انہوں نے کئی صحافیوں اور حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والوں کو غائب کر دیا جن کا آج تک پتہ ہی نہیں چلا۔ ایک صحافی جس کو گوٹابیا نے2010میں مبینہ طور پر گم کروا دیا تھا، اس کی بیوی نے2019 میں ان کے انتخاب پر اپنے خوف کا اظہار کرتے ہوئے اس وقت ’الجزیرہ‘ انگریزی کے نامہ نگار کو بتایا تھا کہ اب اسے امید نہیں ہے کہ اس کے شوہر کی گمشدگی کے بارے میں جاری تحقیق کو برقرار رکھا جائے گا۔ ذرا غور کیجیے کہ اتنے سارے الزامات اور خدشات کے نرغہ میں رہنے والا شخص52.25 فیصد ووٹ کے ساتھ کامیاب ہوگیا تھا کیونکہ سری لنکا کا بودھ مت کو ماننے والا سنہالی طبقہ جو کہ اس ملک میں اکثریت میں ہے، اس نے اور بالخصوص بودھوں کے کٹرمذہبی رہنماؤں نے گوٹابیا کی زبردست حمایت کی تھی۔ یہ شخص جس کا ریکارڈ انسانی حقوق کے معاملہ میں نہایت سیاہ ہے، اس کو مذہبی جنونیوں کی حمایت حاصل ہوگئی تھی۔ گوٹابیا نے انتخابی مہم کے دوران خود کو ایک مضبوط قائد کے طور پر پیش کیا تھا اور ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر کرے گا۔ عجیب اتفاق دیکھئے کہ ان دونوں وعدوں کو پورا کرنے میں گوٹابیا محض دو سال سے کم مدت میں ہی بری طرح ناکام ہو گئے۔ جہاں تک ملک کو تحفظ فراہم کرنے اور مضبوط کرنے کی بات ہے تو اس کا نظارہ آج پوری دنیا کے سامنے ہے کہ اپنے ہی عوام کے غم و غصہ کو روکنے کی کوشش میں یکم اپریل2022کو ایمرجنسی نافذ کرنی پڑی جس کو عوام اور بین الاقوامی اداروں بالخصوص اقوام متحدہ کے دباؤ میں6اپریل کو ختم کرنا پڑا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ اس شدید اقتصادی اور سیاسی بحران سے قبل سری لنکا تقریباً اسی نہج پر گامزن تھا جس پر ان دنوں ہندوستان میں یہاں کی اکثریت نے خود کو ڈال رکھا ہے۔ وہاں کی بودھ مت کو ماننے والی اکثریت نے بھی حلال سرٹیفکیٹ، حجاب و برقع اور مسلمان و تمل اقلیت کے خلاف زہرافشانی اور ان کے جان و مال پر حملے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ وہ بھی چاہتے تھے کہ گوٹابیا سری لنکا کی اقلیت کو ان کی اصل اوقات میں رکھیں۔ نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ سری لنکا کے باشندے آج زندگی گزارنے کے لیے مطلوب معمولی اور بنیادی اشیاء خوردنی تک سے محروم ہوگئے ہیں۔ پٹرول کی عدم فراہمی کی وجہ سے گاڑیاں اور عوامی نقل و حرکت کے وسائل تک معطل ہوچکے ہیں۔ عام انسان کے لیے روزگار کے مقامات تک پہنچنا تو دور کی بات ہے، زندگی کاٹنا مشکل ہوگیا ہے۔ جن لوگوں نے کبھی گوٹابیا راج پکشے کی کامیابی پر جشن منایا تھا، وہی اب ان سے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیں۔ پوری کیبنٹ نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا ہے اور حلیف سیاسی جماعتوں کے ممبران پارلیمنٹ کی بڑی تعداد بھی اس ڈوبتی کشتی کو چھوڑ چکی ہے لیکن راج پکشے کسی بھی حالت میں اپنے عہدہ سے مستعفی ہونا گوارہ نہیں کر رہے ہیں۔ کتنے دنوں تک گوٹابیا اس عوامی دباؤ کو جھیل پائیں گے، یہ کہنا تو مشکل ہے، البتہ ایک بات تو صاف ہو جاتی ہے کہ ایک مطلق العنان شخص کا انتخاب کرکے سری لنکا کے عوام نے جو غلطی کی تھی، اس کی بدترین سزا انہیں مل رہی ہے۔
اگر ہم ہندوستان کی سیاست اور سماجی تناؤ کا موازنہ سری لنکا سے کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کی اکثریت بھی انہی غلطیوں کا ارتکاب کر رہی ہے جس میں ہمارا پڑوسی ملک سری لنکا ملوث ہوکر سخت آزمائش کا شکار ہوچکاہے۔ ہندوستان میں بھی اقلیتوں کے ساتھ جس قسم کا برتاؤ کیا جا رہا ہے اور مسلسل ان کے سامنے مسائل و مشکلات کا پہاڑ کھڑا کیا جا رہا ہے، وہ ایک نہ ایک دن اس ملک کی سالمیت کو سخت خطرہ میں ڈالنے کا باعث بن جائے گا۔ ہندو اکثریت نے جس طریقہ سے مسلمانوں اور دیگر کمزور طبقوں کے ساتھ صرف سوتیلاپن کا ہی نہیں بلکہ دشمنانہ اور معاندانہ سلوک گزشتہ کئی برسوں سے روا رکھا ہوا ہے، اس کی بڑی قیمت ملک کو مجموعی طور پر چکانی پڑ سکتی ہے۔ ہندوستان کی اقتصادی حالت بھی روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے، پبلک سرمایہ اور کمپنیوں کی نجکاری ہو رہی ہے، شرح غربت اور فقر و فاقہ میں اضافہ ہو رہا ہے، مہنگائی کی شدت سے عوام بدحالی کا شکار ہیں، ملازمت اور روزگار کے مواقع ہر روز گھٹ رہے ہیں اور تمام دستوری ادارے اپنی اہمیت کھوتے جارہے ہیں، ایک مضبوط لیڈر کے انتخاب نے یہاں کی جمہوریت کو سخت نقصان پہنچادیا ہے، فرقہ واریت کی مسموم فضا سے پورا ملک متعفن ہو رہا ہے، ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف ہر روز ایک نیا محاذ کھول دیا جا رہا ہے۔ حجاب، اذان، حلال سرٹیفکیٹ اور بریانی و پھل فروٹ ہر چیز کے نام پر مسلم اقلیت کا عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ بار بار مسلمانوں کے قتل عام کا اعلان کیا جا رہا ہے لیکن وزیر اعظم کے منھ سے اس کے خلاف ایک لفظ تک نہیں نکلتا ہے۔ پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں جب حزب اختلاف کے لیڈر ملکارجن کھڑگے ہیٹ اسپیچ پر بحث کا مطالبہ کرتے ہیں تو نائب صدر وینکیا نائیڈو اس کی اجازت تک دینے کو راضی نہیں ہوتے ہیں۔ یہ سارے حالات اشارہ کر رہے ہیں کہ اگر وقت رہتے ہوش کے ناخن نہ لیے گئے اور ظلم و جور کا سلسلہ بند نہیں کیا گیا تو ہمارا یہ ملک سخت بحران کا شکار ہوجائے گا۔ سری لنکا کی زبوں حالی میں ہندوستان کے لیے عبرت کا سامان موجود ہے۔ ان سے سبق لینا ہی عقل مندی کا تقاضہ ہے۔