عالم نقوی
ہمارے ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ یہ وقت تنقید کا نہیں تدارک کا ہے ۔ جو مصیبت میں ہے پہلے اس کو اس سے نجات دلائیے جب حالات معمول پر آجائیں تب اس سے بتاسکتے ہیں کہ وہ مصیبت اس کی اپنی کرنی کا پھل ،اُس کے اپنے ’کرموں ‘ یا ’کو کرموں ‘ (اعمال یا بد اعمالیوں ) کا نتیجہ تھی لیکن مبتلائے مصیبت کو عین مصیبت کے وقت وعظ و نصیحت سے کوئی فائدہ نہیں۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ علاج کے لیے ضروری ہے کہ مریض کو خود اپنے مرض کا ادراک ہو! وہ خود اگر مایوس ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ صحت یاب نہیں ہو سکتا تو پھر وہ کبھی ٹھیک نہیں ہوگا چاہے کتنا ہی اچھا اور مہنگا علاج کیوں نہ کر لیا جائے صحت کے لیے مریض کا پُر امید ہونا اور اپنے معالج پر بھروسہ ہونا ضروری ہے۔ اور پھر شفا معالج کے پاس یا دوا میں نہیں اُس کے قبضہ قدرت میں ہے جس نے مَرَض اور دَوَا دونوں کو خلق کیا ہے اور مَرَض سے پہلے اُس کی دَوَا زمین پر مہیا کر دی ہے انسان کا کام تو صرف یہ دریافت کرنا ہے کہ کون سی دوا کس مرض میں مفید ہے ۔ مطلب یہ کہ دوا کے ساتھ دُعا بھی اتنی ہی ضروری ہے ۔اُس خالق و مالک اور پالنہار سے دعا جس کے قبضے میں ہر فرد بشر کی جان ہے اور جسے با لآخر ایک دن اُس کے سامنے حاضر ہو کر اپنے کیے کا حساب دینا ہے !
ہم ویسے بھی جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہاں قانون تو بہت ہیں مگر انصاف نہیں ہے اور ہے بھی تو برائے نام ،یا پھر وہ اتنی تاخیر سے ملتا ہے کہ فی ا لواقع انصاف کا انکار بن جاتا ہے ۔ اور ہمیں یہ بھی نہ بھولنا چاہیے کہ نہ صرف اِس ملک بلکہ دنیا کے ہر ملک کی عدالتیں ’’انصاف کی عدالتیں ‘‘ نہیں ہوتیں ،وہ محض قانون کی عدالتیں ہوتی ہیں ۔ اگر اس ملک میں قانون بالکل ہی مفقود ہوتا تو وجے مالیہ جیسے حکومت کے ٹیکس چور اور بینکوں کے قرض چور مجرموں کوملک سے راتوں رات بھاگنا نہ پڑتا! صاحب ثروت لوگ گواہوں کو نہ خریدتے ،پاسپورٹ پر حسب ضرورت پچھلی تاریخوں میں اگزٹ اسٹیمپ نہ لگواتے!اگر قانون نہ ہوتا تو مجرم دھڑلے سے جرم کر کے عدالت میں تسلیم بھی کر لیتے مگر کوئی بھی مجرم عدالت میں اپنا جرم قبول نہیں کرتا کیونکہ اسے پتہ ہے کہ اگر اس نے ایسا کیا تو پھر فیصلہ قانون کے مطابق ہی ہو گا ۔
ملک میں عدالتوں نے ،دس گیارہ بارہ پندرہ سال بعد ہی سہی لیکن ، کئی بار مختلف خطروں اور سنگین نتائج کی دھمکیوں کے باوجود بے گناہوں کو باعزت بری کرنے کے فیصلے کیے ہیں اور چھوٹے چھوٹے ججوں نے جن کا نام بھی کوئی نہیں جانتا ، اندرا گاندھی اور جے للتا جیسے بڑے بڑے طاقتور سیاسی لیڈروں کوجیل بھیجا ہے ! لا قانونیت کی تمام تر وارداتوں کے باوجود اگر ملک میں قانون نہ ہوتا تو پھر ملک کا کوئی ایک شہری بھی راتوں کو سو نہ سکتا ۔مگر ہم سب سکون سے رات کو سوتے ہیں کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ ابھی اتنی بھی اندھیر گردی نہیں مچی ہے ۔بے شک قانون کمزور ہے ،بے بس ہے ،قانون کے رکھوالے بے ایمان ہیں لیکن قانون ’’ہے ‘‘ ۔وہ ہے تبھی تو یہ شکوہ ہے کہ جب قانون سب کے لیے برابر ہے تو پھر قانون امیر اور غریب ،دبنگ اور کمزور میں تفریق کیوں کرتا ہے ؟
در اصل ’’قانون کی حکمرانی‘‘ ہی مسئلہ ہے ۔’’انصاف کی حکمرانی‘‘ ہوتی تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہ پیدا ہوتا۔عدالت میں دو طرح کے کیسز ہوتے ہیں ،کِرِمنَل کیسز جیسے قتل ،چوری ،اغوا وغیرہ کے مقدمےاور کرپشن کیسز جیسے کسی سیاسی لیڈر یا سرکاری افسر نے اپنے عہدے اور اختیارات کا فائدہ اٹھا کر عوامی بہبود کے سرکاری فنڈز میں خُورد بُرد کی ہو ۔ لیکن پوری دنیا میں قانون یہ ہے کہ بار ِ ثبوت ملزم پر ہوتا ہے یعنی جس سیاسی لیڈر یا سرکاری افسر پر کرپشن کا الزام ہے اُس کو ثبوت دے کر اپنی ناجائز دولت کو جائز ثابت کرنا ہے ۔کرپشن کیسز میں الزام لگانے والا ثبوت نہیں دیتا ۔ لیکن اس کے بر خلاف کرمنل کیسز میں بار ثبوت الزام لگانے والے پر ہوتا ہے ،خود ملزم پر نہیں ۔ اور ہر ملزم پوری دنیا میں ’’قانون کی محبوب اولاد‘‘ ہوتا ہے ۔قانون کہتا ہے کہ چاہے سو مجرم چھوٹ جائیں لیکن ایک بے گناہ کو سزا نہیں ہونی چاہیے اور اسی کا فائدہ اٹھا کر بہت سے حقیقی مجرم قانون کے شکنجے سے بچ نکلتے ہیں یا کم سے کم ،ضمانت حاصل کر کے،مقدمہ فیصل ہونے تک آزاد گھومتے ہیں ۔ لیکن انصاف کی حکمرانی نہ ہونے سے یہ ہوتا ہے کہ بے گناہوں کو شک کا فائدہ ملنے اور باعزت بری ہونے میں بارہ پندرہ سال لگ جاتے ہیں ! اور انصاف کے بجائے قانون کی حکمرانی ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ انکاؤنٹر کے نام پر آٹھ زیر سماعت قیدیوں کو جو برسوں کی قید کے بعد شک کے فائدے کی بنیاد پر باعزت بری ہونے والے تھے،پولیس جیل سے نکال کر عدالت لے جاتے ہوئے بے رحمی کے ساتھ مار ڈالتی ہے(اکتوبر ۲۰۱۶) اور سپریم کورٹ نو ماہ بعد جولائی ۲۰۱۷ میں دہلی اور بھوپال کی حکومتوں سے یہ جواب طلب کرتا ہے کہ معاملے کی سی بی آئی جانچ کیوں نہیں کرائی گئی ؟
یہ اور بات ہے کہ ملک میں ’’قانون کی حکمرانی ‘‘ ہی کے نتیجے میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائی کا اوسط لاکھ دو لاکھ واقعات میں ایک یا دو سے زیادہ نہیں۔ملزم اگر ’’قانون کی محبوب اولاد ‘‘ہیں تو’’ پولیس حکمرانوں کی محبوب ترین اولاد ‘‘ !جسٹس کرنن کیس بھی اسی قانون کی حکمرانی کا نادر نمونہ ہے ۔جسٹس کرنن کا قصور یہ تھا کہ اُنہوں عدالتی کرپشن کا الزام لگایا تھا لہٰذا سپریم کورٹ نے انہیں کی گرفتاری وارنٹ جاری کر دیا ۔
ویسے اب وقت آگیا ہے کہ جج بھی توہین عدالت قانوں کے پیچھے پناہ لینے کے بجائے اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو برداشت کریں ۔ قانون اندھا بھی ہوتا ہے اور وقت آگیا ہے کہ اب ملک میں ’’اندھے قانون‘‘ کے بجائے ’’آنکھوں والے انصاف کی حکمرانی‘‘ قائم ہو بلکہ انصاف سے بھی زیادہ عدل کی حکمرانی ! عدل اور انصاف میں فرق یہ ہے کہ انصاف کہتا ہے کہ دو لوگ ہوں اور روٹیاں تین تو دونوں کو برابر سے ڈیڑھ ڈیڑھ روٹی ملنا چاہیے مگر عدل کہتا ہے کہ دونوں کی موجودہ حالت و کیفیت پر بھی غور کرو۔جو کئی دن سے بھوکا ہے ،اس کو دو روٹیاں دو اور جو پہلے ہی سیر ہے اس کو ایک روٹی دو ۔ اور اگر جلد ہی انصاف کا عمل دخل اور عدل کا بول بالا نہ ہوا تو دنیا کے بیشتر حصوں کے ساتھ ساتھ وطن عزیز بھی انارکی اور لاقانونیت کی ڈھلان پر آچکا ہے اور پوری دنیا میں معاملہ بد عنوان جھوٹے متعصب اور پیدائشی بلندی و پستی پر یقین رکھنے والے والے نسل پرست ، مفسد اور ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے ! فھل من مدکر ؟