-
مدارس کے سروے کافرمان اور ہم
- سیاسی
- گھر
مدارس کے سروے کافرمان اور ہم
460
m.u.h
08/09/2022
0
0
تحریر:عادل فراز
اترپردیش کی یوگی حکومت نے فرمان جاری کیاہے کہ غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے کرایا جائے گا تاکہ اساتذہ کی تعداد ،نصاب ِ تعلیم ،مدرسے کے الحاق اور وہاں دستیاب بنیادی سہولتوں کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکے۔حکومت کے مطابق یہ سروے قومی کمیشن برائے تحفظ ِ حقوق ِ اطفال کی ہدایات کے مطابق کرایا جائے گا تاکہ مدارس میں طلبا کو دستیاب بنیادی سہولتوں کا جائزہ لیا جاسکے۔سوال یہ ہے کہ اترپردیش حکومت مسلمانوں کی اتنی ہمدرد اور ان کی تعلیم و تربیت کی طرف اس قدر متوجہ کیوں ہے ؟اس کا بظاہر جواب یہ ہے کہ حکومت مسلمانوں کے تمام تعلیمی اداروں اور تنظیموں کا ریکارڈ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔حکومت چاہتی ہے کہ مسلمانوں کے مدارس کی تمام تر فعالیت اس کی نظروں میں رہے کیونکہ یرقانی تنظیموں کے مطابق مدارس دہشت گردی کا اڈّہ ہیں ۔اترپردیش کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھی مدارس کی فعالیت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہاہے ۔یرقانی لیڈر بیان دیتے رہے ہیں کہ مدرسوں میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ظاہر ہے ان بیانات کی کوئی زمینی حقیقت نہیں ہے لیکن مسلم مخالف طبقات کو مشتعل کرنے اور حکومتوں کو مدارس پر شکنجہ کسنے کے لئے ایسے بیانات کا سہارا لیاجاتاہے ۔آسام میں تو حکومت نے کئی مدارس کو دہشت گردوں کے ساتھ تعاون کے الزامات کے تحت مسمار کرنے کا حکم دیاہے ۔اسی طرح کرناٹک اور دیگر ریاستوں میں مدارس کے خلاف تحریک جاری ہے ۔اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم و تربیت کے زیادہ تر امور مدارس اسلامیہ کے ذریعہ انجام پذیر ہوتے ہیں ۔اس لئے حکومت چاہتی ہے کہ مدارس کی فعالیت پر قابو پالیا جائے یا انہیں مشکوک ثابت کرکے مسمار کردیا جائے ۔ورنہ ہندوستان میں فقط مسلمانوں کے مدرسے اور ادارے موجود نہیں ہیں ۔اب تک کسی دوسرے طبقے اور فرقے کے مذہبی اداروں کے سروے کا حکم جاری نہیں کیا گیا ۔خود آرایس ایس پورے ہندوستان میںتعلیمی فعالیت رکھتی ہے مگر اس کے لئے کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا گیا کیونکہ سرکار اسی کے اشارے پر کام کررہی ہے ۔مدارس کے سروے کا حکم آرٹیکل ۳۰ کی کھلی خلاف ورزی ہے لیکن کیا حکومت کے لئے کسی آئینی آرٹیکل کی کوئی اہمیت ہے ،یہ بڑا سوال ہے ؟
اس سے پہلے بھی بی جے پی کے متعدد وزیروں اور یرقانی تنظیموں کے آلۂ کاروں نے مدارس کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ان کے مطابق مدارس میں دیگر مذاہب کے خلاف نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے اور مدرسے دہشت گردی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔2014 میں بی جے پی کے نفرت انگیز لیڈر ساکشی مہاراج نے کہاتھاکہ مدارس میں ’لو جہاد ‘ کی تعلیم دی جاتی ہے ۔انہوں نےمدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کا محور ٹھہراتے ہوئے ملک دشمن قرار دیا تھا ۔اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی اس راہ میں ساکشی مہاراج سے پیچھے نہیں رہے۔انہوں نے بھی ’’لوجہاد ‘‘ اور ملک میں بڑھتے ہوئے ریپ کے واقعات کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا ۔انہی دنوں بی جے پی کی مرکزی وزیر مینکاگاندھی نے ذبیحہ خانوں پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاتھاکہ مذبح خانوں میں گوشت کی تجارت سے جو منافع حاصل ہورہاہے اس سے دہشت گردوں کو فنڈنگ کی جارہی ہے ۔ظاہر ہے ان بیانات کی کوئی حقیقت نہیں تھی ۔اگر ایسا ہوتا تو ہندوستان کی حفاظتی ایجنسیاں اور حکومت سب سے پہلے مدارس اور ذبیحہ خانوں کو بند کرنے کا حکم جاری کرتیں۔اس طرح کے تمام تر بیانات ملکی سطح پر مسلمانوں کو بدنام کرنے اور اکثریتی طبقے کو اقلیتی طبقے کے خلاف منظم کرنے کے لئے دیے جاتے ہیں ،تاکہ یرقانی تنظیمیں اقتدار کی کرسی تک پہونچ سکیں ۔اس راہ میں انہیں بڑی کامیابی ہاتھ آئی کیونکہ مسلمانوں کے پاس قیادت کا فقدان تھا اور وہ اکثریتی طبقے تک اپنی بات نہیں پہونچا سکے ۔2014 تک اکثریتی طبقہ زعفرانی تنظیموں کی نفرت انگیز سیاست کا اس قدر شکار ہوچکا تھاکہ انہیں ہرمسلمان میں دہشت گرد نظر آرہا تھا ۔اس کے بعد ہر انتخاب میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی سیاست نے پورے ملک کا سیاسی منظرنامہ بدل دیا ۔آج بھی مدارس کا سروے اور انہیں دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔
حکومت اور یرقانی تنظیموں کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کے پاس مدارس کے علاوہ کوئی بڑا قومی سرمایہ نہیں ہے ۔مسلمانوں کی روحوں میں مدارس اسلامیہ نے تازگی پیداکی ہے اور آج بھی مدارس کا کردار کسی دوسرے انسٹی ٹیوٹ اور تعلیمی ادارے سے کسی طرح کم نہیں ہے ۔مدارس اسلامیہ نے ہر تحریک اور انقلاب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاہے ۔آج مدارس کا نظام جمود فکری کا شکار ہے ورگرنہ آج بھی مدارس کے طلباء کسی سے کم نہیں ہیں ۔اردو کی بقا اور ترقی میں بھی مدارس کا بہت اہم کردار رہاہے ۔آج تمام یونیورسیٹوں اور کالجوں کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ اردو شعبوں میں طلباء کی اکثریت مدارس سے تعلق رکھتی ہے ۔دیہات اور قصبات میں بھی مکتبوں اور مدرسوں میں اردو زندہ ہے ۔اگر دیہات اورقصبات کے مدارس اور مکاتب کی افادیت اور عظمت کو نظر انداز کردیا جائےتو اردو لب گور نظر آئے گی ۔اگر ہمارے علمائے کرام ذرا سی بیداری کا ثبوت پیش کریں اور مدارس کو معاصر تعلیمی منظرنامے سے جوڑنے کی کوشش کی جائے تو آج بھی مدارس ہر تحریک اور انقلابی جدوجہد میں دیگراداروں کے شانہ بہ شانہ نظر آئیں گے ۔لیکن علمائے کرام کے سیاسی و ذاتی مفادات اور مدارس کے موروثی نظام نے پوری ملت اسلامیہ کو متاثر کیاہے ،اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس سلسلے میں مدارس کے ذمہ داروں سے بھی سوال کیا جانا چاہیے ۔کیاانہوں نے قومی سرمائے کا صحیح استعمال کیاہے ؟مدارس کی عالیشان عمارتیں کسی کی شخصی جاگیر نہیں ہیں ۔مدارس کا یہ ڈھانچہ قومی سرمائے سے تعمیر ہواہے ،اس لئے ان اداروں کو شخصی کیوں بنایا جارہاہے؟ قومی عمارتیں موروثی کیوں بنتی جارہی ہیں ؟ مدارس کا تخمینہ اور خرچ عوام کے سامنے رکھاجاتاتھا مگر اب صرف تخمینہ رکھاجاتاہے خرچ اور بچت کی تفصیلات ندارد ہیں ۔سرکاری مدرسوں کا تو مزید برا حال ہے ۔ہر مدرسے کو موروثی سمجھ لیاگیاہے جہاں اکثریت مسئول مدرسہ کے اہل خاندان کی ہوتی ہے ۔اس کے بعد یہ لوگ منبرومحراب میں قوم کو امرباالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے نصیحتیں کرتے ہیں ۔کیا قوم ان کی خیانتوں اوربددیانتی سے واقف نہیں ہوتی ؟واقعیت یہ ہے کہ ان کی زبانوں سے ناصحانہ تاثیر اسی لئے ختم ہوگئی ہے کیونکہ ان کا ظاہر ان کے باطن کی تائید نہیں کرتا۔
مدارس اسلامیہ پر تنقید کرنے والوں کی ایک بڑی جماعت ہے جو ہر مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے ۔کرناٹک سمیت دیگر ریاستوں میں مدارس کے نصاب میں تبدیلی کا مطالبہ کیا جارہاہے ۔حکومت چاہتی ہے کہ مدارس میں مہابھارت ،گیتا اور منوسمرتی کی تعلیم دی جائے ۔ہنومان چالیسا کا پاٹھ کرایاجائے ۔سوریہ نمسکار کو رواج دیاجائے ۔اس کے لئے مسلسل کوششیں ہورہی ہیں اور ایسا اس لئے ممکن ہےکیونکہ مسلمانوں کے درمیان غداروں کی کمی نہیں ہے ۔مدارس کے نصاب میں تبدیلی کا مطالبہ تو مسلمان دانشور بھی ایک عرصہ سے کررہے ہیں لیکن مدارس کے ذمہ داروں نے ان کی تجویزات کو لائق اعتنا نہیں سمجھا ۔مدارس کا آمرانہ موروثی نظام انہیں کسی پیش نہاد پر غورکرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔وہ ہر تجویز کے سامنے خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں اس لئے آج تک مدارس کے نصاب میں خوشگوارتبدیلی رونما نہیں ہوسکی ۔آج بھی ہمارے مدارس کا نصاب انگریزوں کاترتیب دیاہواہے ۔اس میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں ہوسکی۔قصے اور کہانیوں کی کتابیں کبھی مدارس کے نصاب کا حصہ نہیں تھیں ۔انگریز حکومت سے پہلے کانصاب آج بھی تاریخ میں موجود ہے اس کا مطالعہ کیا جائے ۔فورٹ ولیم کالج نے مدارس کے نصاب میں اس طرح کی کتابوں کا اضافہ کروایا جو زبان و بیان کی حد تک تو بہت اہم تھیں مگر ان میں علم ندارد تھا ۔انگریزوں کے نصاب تعلیم کے رواج کے بعد مدارس جمود کا شکار ہوتے چلے گئے اور پھر مدرسوں سے کوئی بڑا دانشور نہیں نکلا ۔ایسا اس لئے کیاگیاکیونکہ انگریزحکومت کے خلاف بغاوت اور انقلاب کی فکری موجیں مدارس اسلامیہ سے اٹھ رہی تھیں ۔لہذا منظم سازش کے تحت مدارس اسلامیہ کے تحریک آمیز نصاب کو جمود میں بدل دیا گیا ۔آج اس نصاب پر از سرنو غورکرنے کی ضرورت ہے تاکہ مدارس کا کھویا ہواوقار بازیاب ہوسکے ۔
فی الوقت مدارس کے سروے کی تجویز اترپردیش حکومت کی طرف سے پیش کی گئی ہے ۔مسلمان علماء اور سیاسی رہنما اس کی شدومد کے ساتھ مخالفت کررہے ہیں ۔لیکن کیا موجودہ حکومت کسی کی مخالفت کو کوئی اہمیت دیتی ہے ؟بہتر ہوگا کہ مدارس کے نظام کوبہتر بنایا جائے اوراس نظام کی باگ ڈور قابل اور باصلاحیت افراد کے ہاتھوں میں سونپی جائے ۔مدارس کا خرچ برداشت کرنے کے لئے ملت ہمیشہ پیش پیش رہی ہے اس لئے سرکاری الحاق کو اہمیت نہ دی جائے ۔حقیقت یہ ہے کہ جب سے مدرسے سرکارسے ملحق ہوئے ہیںان کی تعلیمی و انتظامی حیثیت ختم ہوکررہ گئی ۔حساب و کتاب میں شفافیت کو رواج دیاجائے اور پورا حساب ملت کے سامنے رکھاجائے ۔مدارس کی کمیٹیوں میں خاندانی روایت کو فروغ نہ دے کر اندیش مند اور لائق لوگوں کو رکھا جائے ۔نصاب تعلیم پر توجہ مرکوز کی جائے تاکہ مدرسوں سے تحریکی و انقلابی علماءنکل سکیں۔ابھی ملت اسلامیہ کی توقع مدارس سے وابستہ ہے ۔اس توقع پر کھرا اترنے کی اشد ضرورت ہے ۔