-
ٹرمپ کا دورۂ ہند : وہ آئے اور صورت دکھاکر چلے گئے
- سیاسی
- گھر
ٹرمپ کا دورۂ ہند : وہ آئے اور صورت دکھاکر چلے گئے
1189
m.u.h
26/02/2020
2
0
عادل فراز
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ۲۴ فروری کو اپنے دو روزہ دورے پر ہندوستان آئے تھے ۔ان کے دورے کا آغاز احمد آباد گجرات سے ہوا۔وہ پہلے سابر متی آشرم پہونچےاور چرخہ چلاکر بابائے قوم مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ اس کے بعد وہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ روڈ شو میں شامل ہوئے اورپھر سردار پٹیل اسٹیڈیم پہونچ کر ہندوستانی عوام کو خطاب کیا۔تعجب خیز بات یہ رہی کہ ٹرمپ نے اپنے پورے خطاب میں مختلف شخصیات کا نام لیا مگر ایک بار بھی مہاتما گاندھی کا ذکر تک نہیں کیا۔ٹرمپ کا یہ سفر اپنے آغازکے ساتھ ہی عالمی سطح پر سرخیوں میں رہا ہے۔چونکہ نومبر میں امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونا ہیں ،لہذا ٹرمپ کا یہ دورہ ملکی مفاد سے زیادہ ذاتی مفاد پر مبنی تھا ۔امریکہ میں ہندوستانیوں کی تعداد امریکہ کی کل آبادی کا ۶ فیصد ہے ،جس کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے امریکی صدر نے ہندوستان کا دورہ کیاہے ۔ہندوستانی حکومت نے امریکی صدر سے ان کے استقبال میں ۷۰ لاکھ افراد کی موجودگی کا وعدہ کیا تھا،خود ڈونالڈ ٹرمپ نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ہندوستانی حکومت کے بموجب ان کے استقبال کے لئے ائیرپورٹ سے اسٹیڈیم کے درمیان ۷۰ لاکھ افرادموجود رہیں گے ،جبکہ احمد آباد شہر کی کل آبادی ۵۵ لاکھ کے آس پاس ہے ۔یہ ۷۰ لاکھ افراد ان کے استقبال کے لئے ہندوستانی حکومت نے کہاں کھڑے کئے تھے ابھی تک معلوم نہیں ہوسکاہے ۔ٹرمپ کے خطاب کے دوران اسٹیڈیم میں تقریباََ ایک لاکھ افراد موجود تھے اور احمدآباد کی سڑکوں پر موجود افراد کی تعداد بھی اس سے متجاوز نہیں رہی ہوگی ۔’ہائو ڈی مودی‘ پروگرام میں تقریباََ ۵۰ ہزار افراد موجود تھے لہذا نریندر مودی نے ٹرمپ کے استقبال میں ایک لاکھ افراد کی موجودگی دکھاکر امریکہ کا قرض چکادیا،یہ الگ بات کہ ایک لاکھ کی اس تعداد کو ۷۰ لاکھ دکھانے کی کوشش کی گئی۔جبکہ ’ہائو ڈی مودی‘ پروگرام ہندوستان کے امریکی نژاد شہریوں نے مل کر آرگنائز کیا تھا اور ’نمستے ٹرمپ‘ پروگرام کے انعقاد کے لئے ہندوستانی حکومت نے اپنی پوری طاقت جھونک دی ۔احمدآباد شہر کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا اور غریبوں کی غربت چھپانے کے لئے سلم بستیوں کے گرد دیوار تعمیر کی گئی تھی تاکہ امریکی صدر کی نظر غریبوں کی جھونپڑیوں پر نہ پڑسکے۔
امریکی صدر کا یہ دورہ خالص سیاسی نوعیت کا حامل تھا ۔ہندوستان میں اس دورے سے متعلق کئی قیاس آرئیاں کی جارہی تھیں ۔اقتصادی ماہرین اس دورے کو ہندوستان کی متزلزل معیشت کے لئے بہت اہم قرار دے رہے تھے مگر امریکی صدر نے دورے پر آنے سے پہلے ہی اعلان کردیا تھاکہ وہ ہندوستان کے ساتھ کوئی بڑی اقتصادی ڈیل نہیں کریں گے ۔یوں بھی گزشتہ کچھ سالوں میں ہندوستان اور امریکہ کے درمیان اقتصادی رشتوں میں نشیب و فراز آتے رہے ہیں ۔امید کی جارہی تھی کہ ٹرمپ اقتصادی رشتوں میں بہتری کے لئے کوئی مناسب قدم اٹھائیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔دونوں ملکوں کے درمیان نہ کوئی اقتصادی ڈیل ہوسکی اور نہ اقتصادی رشتوں کی بہتری کے لئے کسی لائحۂ عمل پر بات ہوئی ۔ہندوستان اور امریکہ کے درمیان تین ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے پر بات چیت ہوئی ہے جبکہ اس معاہدے پر دونوں ملکوں کے دفاعی محکمے بعد میں دستخط کریں گے ۔یعنی امریکہ نے ہندوستان کو تین ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے مگر ہندوستان سے اقتصادی برآمدات پر کوئی گفت و شنید نہیں ہوئی یہ ہماری لڑکھڑاتی معیشت کے لئے بری خبر ہے ۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس دورے سے پہلے اعلان کیا تھاکہ امریکی صدر ہندوستان میں مذہبی آزادی ،جمہوریت کے خدو خال ،شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی پر بھی بات کریں گے ۔ مگر ٹرمپ نے ان مسائل کو ہندوستان کا داخلی معاملہ قراردیتے ہوئے اپنا دامن بچالیا۔چونکہ ٹرمپ کا یہ دورہ ذاتی مفادات پر مبنی ہے اوروہ ہندوستان کے امریکی نژاد شہریوں کو رجھانے کےلئے ہندوستان آئے تھے لہذا ان سے یہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ ایسے مسائل پر ہندوستانی سرکار سے بات کریں گے ۔ٹرمپ کا یہ بیان کہ’ انہوںنے مذہبی آزادی پر وزیر اعظم مودی سے بات کی تو انہوں نے جواب دیاکہ مسلمانوں کی تعداد چار کروڑ سے بڑھ کر۲۰ کروڑہوگئی ہے‘امریکی صدر کی عاجزی اور سیاسی مصلحت پسندی کو ظاہر کرتاہے ۔ٹرمپ ہندوستان میں مذہبی آزادی پر وہی زبان بول رہے ہیں جو آرایس ایس نے وزیر اعظم مودی کے ذریعہ ان کے دہن میں رکھی تھی ۔ورنہ کیا ٹرمپ ہندوستان کی موجودہ صورتحال سے واقف نہیں تھے ،جبکہ انہوں نے خود اعتراف کیا کہ انہیں دہلی میں جاری تشدد کے بارے میں معلومات فراہم کرائی گئی تھیں۔مگر ہم امریکی صدر کی مجبوری سے بخوبی واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ ابھی وہ اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ ہندوستانی سرکار کی سیاست پر نکتہ چینی کرسکیں۔
امریکہ مشرق وسطیٰ میں چین کے بالمقابل ہندوستان کو ترجیح دیتا رہاہے تاکہ خطے میں طاقت کا توازن برقرار رہے ۔چین اور امریکہ کے درمیان کئی اہم مسائل کو لیکر چشمک رہی ہے ۔ٹرمپ کے برسراقتدار آتے ہی دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی جنگ شروع ہوگئی تھی اور امریکہ نے چین کی برآمدات پر اضافی ٹیکس لگانا شروع کردیے تھے ۔چین نے امریکہ کے خلاف دوطرفہ پالیسی اختیار کی ۔ایک تو یہ کہ اقتصادی معاملات میں اضافی ٹیکس کا جواب اسی کی زبان میں دیا ،دوسرے امریکہ کے حریف ممالک کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا یا۔خاص طورپر ایران کے ساتھ چین کے تعلقات میں پیش رفت امریکہ کے لئے پریشانی کا سبب ہے ۔چین نے علاقائی سیاست میں بالادستی کے لئے ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان کو زیادہ ترجیح دی اوروہ عالمی سطح پر ہر میدان میں پاکستان کی پشت پناہی کررہاہے ۔چین نے حال ہی میں پاکستان کو ’ایف اے ٹی ایف‘ کی بلیک لسٹ میں شامل نہیں ہونے دیا،یہ علاقائی اور عالمی سیاست میں چین کے اثرونفوذ کی بڑی کامیابی تھی ۔ٹرمپ نے اپنے دورۂ ہند پر پاکستانی دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کے ساتھ مل کر مناسب قدم اٹھانے کی بات کہہ کر چین کی اسی علاقائی سیاست پر حملہ کیاہے ۔جبکہ کشمیر کے مسئلے پر ٹرمپ نے دورخی پالیسی اختیار کرتے ہوئے کہاکہ کشمیر کا مسئلہ دونوں ملکوں کو باہمی مفاہمت سے حل کرنا چاہئے ۔اس دورخی پالیسی سے امریکہ کی دُہری سیاست اور مشرق وسطیٰ میں کمزورپڑتی اسکی طاقت کاپردہ فاش ہوتانظر آتاہے۔
مودی اور ٹرمپ کی دوستی کا ایک راز مشترکہ انتہا پسندی بھی ہے ۔دونوں ایسی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں جو فسطائیت اور فاشزم کے لئے معروف ہیں ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ ٹرمپ صہیونی ریاست کے منظور نظر ہیں اور وزیر اعظم مودی بھی ۔وہائٹ ہائوس پر درحقیقت اسرائیل کا تسلط ہے اور آرایس ایس کی حمایت یافتہ جماعت بی جے پی کو بھی اسرائیل کی بھرپور تائید حاصل ہے ۔بلکہ یوں کہاجائے کہ اس وقت آرایس ایس اسرائیل کی سیاسی منصوبہ بندی اور سماجی حکمت عملی پر پوری طرح عمل پیرا اور گامزن ہے ۔ہندوستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں اور ہندوئوں کو اسلاموفوبیا کا شکار بنادیاگیاہے ۔ہندوستان میں کشمیر کے حالات فلسطین سے بدتر تو نہیں ہوئے ہیں مگر اس سے کمتر بھی نہیں ہیں ۔کشمیر میں ہندوستانی حکومت اسرائیل کی فلسطینی پالیسی کےپیش نظرکام کررہی ہے اور ایک با اختیار ریاست کومہلک قیدخانے میں تبدیل کردیاگیاہے ۔اسرائیل نوازی میں سبقت کے لئےہی بی جے پی سرکارنے فلسطین کی حمایت سے دستبردار ی اختیار کرلی اور فلسطین کے سلسلے میں مہاتما گاندھی کے نظریے کو باطل قراردیدیا۔لہذا مودی اور ٹرمپ کی ملاقات رسمی نہیں ہے بلکہ دونوں ایک ہی آئیڈیالوجی سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں کی فکری و نظریاتی ڈور استعمار کے ہاتھ میں ہے ۔اس لئے دونوں ایک دوسرے کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں اور دونوں ایک ہی پالیسی پر عمل پیراہیں۔
ٹرمپ کا یہ دورہ ہندوستان کے لئے کسی بھی لحاظ سے سودمند ثابت نہیں ہوا ۔وزیر اعظم مودی نے پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت کا جوخواب ہندوستانی عوام کو دکھایاہے اس کے پورے ہونے کی امید بھی نہیں کی جاسکتی۔دفاعی معاہدے سے فوجی طاقت میں ضرور اضافہ ہوگا مگر اس سے ملک کی زمین دوز معیشت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔اس دورے سے وزیراعظیم مودی اور امریکی صدر کی دوستی کو مزید تقویت ملے گی لیکن ہندوستان کو اس دوستی سے کیا فائدہ حاصل ہوگا؟ یہ ابھی صیغۂ راز میں ہے۔اس دوستی کا فائدہ ٹرمپ کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں ملنے کی امید کی جاسکتی ہے ،مگر فی الحال اس دورے پرپانی کی طرح بہایا گیا پیسہ اورسرکار کے ذریعہ غربت چھپانے کی کوشش کا کچھ حاصل نہیں ہے ۔