-
اترپردیش میں بدلتا سیاسی منظر نامہ
- سیاسی
- گھر
اترپردیش میں بدلتا سیاسی منظر نامہ
652
M.U.H
17/09/2021
0
0
تحریر:عادل فراز
اترپردیش میں اسمبلی انتخابات سر پر ہیں ۔بی جے پی سمیت تمام سیاسی جماعتیں انتخابی سرگرمیوں کا آغاز کرچکی ہیں ۔بی جے پی کارکنان تو یوں بھی پورے سال عوام کے درمیان جدوجہد کرتے رہتے ہیں ،لیکن حزب اختلاف انتخابی موسم میں متحرک نظر آتاہے ۔سماج وادی پارٹی تو پھر بھی بہت حد تک فعال نظر آرہی ہے لیکن کانگریس سمیت دیگر جماعتیں روایت کے مطابق تساہل کا شکار ہیں ۔کانگریس کی اولین ترجیح زمینی جدوجہد نہیں رہی ،اس کا بڑا نقصان یہ ہورہاہے کہ کانگریس کا زمینی کیڈر ختم ہوتاجارہاہے ۔کوئی بھی سیاسی جماعت اس وقت تک مضبوط نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کا زمینی کیڈر کمزور ہو۔کانگریس زمینی جدوجہد سے دور ہے کیونکہ اسے اترپردیش کے انتخابی نتائج کا اندازہ ہے ۔اس کے پاس یوپی میں کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے ۔امیٹھی میں راہل گاندھی کی شکست کے بعد رہا سہا وقار بھی ختم ہوگیا تھا ۔کانگریس چاہتی تو امیٹھی کے عوام کے درمیان جاکر شکست کی وجوہات پر غور کرتی اور ایک بار پھر راہل گاندھی کی فتح کے لیے زمین ہموار کی جاتی ،لیکن ایسا نہیں ہوا ۔موجودہ صورتحال یہ ہے کہ عوام بی جے پی کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہے لیکن وہ کانگریس کو بی جے پی کے مقابلے میں بہتر متبال نہیں سمجھتے ۔پرینکا گاندھی نے کانگریس کے بیجان جسم میں روح پھونکنے کی ہر ممکن کوشش کی ،لیکن ابھی تک کانگریس کے مردہ جسم میں جان نہیں آسکی ہے ۔اس کا پورا فائدہ بی جے پی کو پہونچے گا جبکہ سماجوادی پارٹی بھی کانگریس اور بہوجن سماج وادی پارٹی کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے میں پیچھے نہیں رہے گی ۔
اس بار اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں مغربی اترپردیش کا اہم کردار ہوگا ۔یہی وجہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کا پورا زور مغربی علاقے پر صرف ہورہاہے ۔علی گڑھ میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نام پر ریاستی یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ بی جے پی مغربی اترپردیش کی موجودہ صورتحال سے خوف زدہ ہے ۔کسان تحریک کی زمینی جدوجہد نے بی جے پی کے انتخابی جوش و ولولے کو متاثر کیاہے ۔ظاہر ہے علی گڑھ میں یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کسانوں کو بی جے پی کی طرف ملتفت نہیں کرے گا کیونکہ یونیورسٹی کی تعمیر کسانوں کے مسائل کو حل نہیں کرسکتی ۔یونیورسٹی کا قیام نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے غم و غصے کو ہرگزکم نہیں کرسکتا ۔کسانوں کےغصے کو رام کرناہے تو سرکار کو ان کے ساتھ مذکرات شروع کرنے ہوں گے ۔کسانوں کو راضی کیے بغیر مغربی اترپردیش میں سیاسی تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی ۔کسان تحریک نے جاٹوں اور مسلمانوں کو ایک بار پھر متحد کردیا ہے۔مظفر نگر فساد کے زخم بھرنے لگے ہیں اور ہندو مسلم اتحاد کا دلکش نظارہ دیکھنے میں آرہاہے ۔مظفر نگر کسان ریلی میں ’’ہرہر مہادیو‘‘ اور ’’ اللہ اکبر‘‘ کے نعروں نے بی جے پی کی نیندیں اڑا دی ہیں ۔سرکار کے پاس اس نعرے کا کوئی جواب نہیں ہے اس کے باوجود وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے علی گڑھ کی سرزمین سے نفرت کی سیاست کا آغاز کردیاہے ۔یوگی کا ’’اباجان ‘‘والا بیان اس بات کی نشان دہی کرتاہے کہ آنے والے دنوں میں اترپردیش کی انتخابی سیاست کتنی نفرت آمیز اور خطرناک صورت اختیار کرے گی ۔اترپردیش سرکار نے گذشتہ پانچ سالوں میں کوئی اہم کام سرانجام نہیں دیاہے ۔اس کے پاس عوام کے درمیان جاکر اپنی حصولیابیوں پر بات کرنے کے لیے کوئی اہم کارنامہ نہیں ہے ۔اس لیے نفرت کی سیاست کے علاوہ ان کے پاس دوسرا انتخابی ہتھیار نہیں ہے ۔یہ ہتھیار یقیناً کام کرے گا کیونکہ اترپردیش کی سیاسی صورتحال بنگال سے یکسر مختلف ہے۔
اس اسمبلی انتخاب کے دوران مہنگائی بھی سرکار کے سامنےایک بڑا مسئلہ ہے ۔بی جے پی کس طرح عوام کو مہنگائی کے مسئلے پر قائل کرتی ہے یہ دیکھنا اہم ہوگا ۔کیونکہ گذشتہ چند سالوں میں مہنگائی کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔گیس اور تیل کی قیمتوں میں زبردست اچھال آیاہے ۔عام آدمی مہنگائی سے پریشان ہے لیکن کیا مہنگائی واقعی عام آدمی کا مسئلہ ہے ؟ کیونکہ اترپردیش میں مہنگائی کے خلاف کوئی بڑی تحریک نظر نہیں آئی ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حزب اختلاف بعض اہم مسائل کو عوامی مسائل کی حیثیت سے اٹھانے میں ناکام رہاہے ۔مگر مہنگائی فقط حزب اختلاف کا مسئلہ تو نہیں ہے ۔اس کا سب سے زیادہ شکار عوام ہے اور عوام مہنگائی کی شکایت تو کرتی ہے مگر سرکار کے خلاف اس مسئلے پر متحد نہیں ہے۔کیونکہ انہیں اپنے اہل و عیال کے مسائل سے زیادہ مذہب کی فکر ہے ۔اور فقط ایک ہی جماعت ہے جو ہندو مذہب کی حفاظت کرسکتی ہے ،وہ ہے بی جے پی! اترپردیش کو ذات پات اور مذہب کی سیاست سے کہاں فرصت ملتی ہے،یہی وجہ ہے کہ مہنگائی کے خلاف نہ حزب اختلاف متحد ہے اور نہ عوام ان بنیادی مسائل پر سرکار کو گھیرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔مسلمان تلک دھاری اور زعفرانی لباس والے ہندو کو دیکھتاہے تو اس کے اندر عدم تحفظ کا احساس بیدار ہوجاتاہے اور ہندو داڑھی اور ٹوپی کو دیکھتاہے تو اسے اپنا مذہب خطرے میں نظر آتاہے ۔ایسا مذہب زدہ سماج کبھی ترقی نہیں کرسکتا اور نہ اس کی صورتحال میں خاطر خواہ تبدیلی رونما ہوسکتی ہے ۔کورونا کے وبائی عہد میں مسلمانوں کے ساتھ اسپتالوں میں بھید بھائو کے واقعات سامنے آئے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔ملک کے شہریوں کی لاشیں ندیوں میں تیرتی رہیں لیکن کسی کی غیرت بیدار نہیں ہوئی ۔آکسیجن کی کمی سے لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے مگر عوام نے سرکار سے جواب طلب نہیں کیا ۔کورونا سے ہونی والی اموات کی شرح بھی چھپائی جارہی ہے اور صحیح اعدادوشمارظاہر نہیں کیے گئے ۔ان تمام مسائل پر حزب اختلاف کی ہنگامہ آرائی کوئی اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ جب تک سرکار سے عوام جواب طلب نہ کرے حزب اختلاف کی مزاحمت بے سودثابت ہوگی ۔عوام میں سرکار کے خلاف غم و غصہ ہے لیکن یہ غم و غصہ فقط ان کے دلوں میں ہے ،اس کا عوامی اظہار نہیں ہے ۔
المختصر !اترپردیش میں مذہبی منافرت اور سیاسی نفاق کا کھیل شروع ہوچکاہے ۔بی جے پی اچھی طرح جانتی ہے کہ ’تقسیم کی سیاست‘ کے بغیر اترپردیش میں کامیابی ممکن نہیں ہے۔اس لیے علی گڑھ کی سرزمین سےنفرت کا کھیل شروع ہوچکاہے ۔اب کسانوں کے مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں ہوگی بلکہ ہندوئوں میں مذہب کے عدم تحفظ کا احساس بیدار کیا جائے گا ۔جیسے جیسے اسمبلی انتخابات قریب ترہوں گے نفرت کا کاروبار پھلے پھولے گا اور کس قدر گھنائونی شکل اختیار کرے گا اس کا اندازہ ابھی ممکن نہیں۔سماجوادی پارٹی پوری طاقت کے ساتھ بی جے پی کے خلاف کھڑی ہے ،لیکن اس کے پاس بھی مذہبی منافرت کو محبت میں بدلنے کے لیے کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے ۔
(یہ مصنف کا ذاتی نظریہ ہے ،ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)