عالم نقوی
دنیا کے مسائل کا خاتمہ، اسرائل اور اس کے تمام فطری اور غیر فطری دوستوں کے انجام پر منحصر ہے اور جو حشر اسرائل اور مغضوب علیہم بنی اسرائل کا ہونا ہے وہی اُن کے تمام بہی خواہوں اور پَیرَوُوں کا بھی مقدر ہے۔ اہل ایمان کے دائمی دشمن جو اہل ایمان کے ایک ’بڑے عالمی شکار‘ کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ، فی الواقع اپنے انجام کی طرف دوڑ رہے ہیں ۔ اُن کے اِلٰہ و مَولا اِبلیس نے اُنہیں یہ پٹّی پڑھا رکھی ہے کہ اُن کی نجات، ایمان اور اہل ایمان دونوں کے اِستیصال پر منحصر ہے جس کے بغیر نہ اُن کا ’مسیح ا لدجال ‘ آئے گا نہ پوری دنیا کی واحد عسکری طاقت اور عالمی صہیونی ریاست ’دی گریٹر اسرائل ‘ کاقیام عمل میں آسکے گا۔ یاہو، ٹرمپ اور مودی اِسی مُثَلَّث کی تین محوری شخصیات ہیں جو اپنے مقاصدِ فاسدہ کے حصول کی خاطر دنیا کو تیسری عظیم و عالمگیر نیوکلیر جنگ میں جھونکنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔
تقریباً ۲۷ سال قبل ۱۹۹۱ میں ایک اسرائیلی مؤرخ’’ ژیدی اراں ‘‘کی نگرانی میں امریکہ کے ہارورڈ سنٹر فار انٹر نیشنل افیئرز نے ایک سروے کرایا تھا جس کی طویل رپورٹ کے (جو گوگل پر موجود ہے )ایک پیراگراف کا ترجمہ درج ذیل ہے :
’’زیر زمین کے سربراہوں اندازہ لگایا ہے کہ یہ کریہہ عمل (مسجد اقصیٰ کو بم سے اُڑا دینا ) دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کو جہاد کے لیے برپا کر دے گا جو با لآخر پوری انسانیت کو ایک معرکۃ ا لمعارک (عظیم جنگ، آرماگیڈان یا ہرمجدون ) میں جھونک دے گا۔ اس عظیم جنگ کو ( جو غالباً تیسری یا آخری اور فی الواقع چند پاگل حکمرانوں کی برپا کردہ نیوکلیر جنگ ہوگی ) انہوں نے یاجوج ماجوج کی جنگ سے تعبیر کیا ہے۔ ۔ْآگ کی اس مطلوب آزمائش سے اسرائل کا فاتح برآمد ہونا روئے زمین پر مسیح (الدجال ) کی راہ ہموار کرے گا۔ ۔‘‘
آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ بتا دیں کہ زیر زمین سے مراد وہ ’صہیونی عباقرہ‘اور چند ’’ٹرانس نیشنل کمپنیوں ‘‘کے مالکان و سربراہ ہیں جن کی ایک مختصر لیکن اعلیٰ ترین صاحب قوت و اختیار جماعت کے لیے’’صہیونی مقتدرہ‘ کی اصطلاح کا استعمال کیا جاتا ہے کہ دنیا کی دولت اور قدرتی وسائل کا غالب حصہ، عملاً، اُنہی کے قبضہ تصرف و اختیار میں ہے۔ اور یاجوج ماجوج کا ذکر قرآن کریم میں بھی دو بار آیا ہے۔ سب سے پہلے سورہ کہف میں (آیت ۹۴)اور دوسری مرتبہ سورہ انبیا ( آیت ۹۶) میں ۔ یاجوج ماجوج جنہیں بائبل کے انگریزی ترجمے میں ’’ Gog and Megog ‘‘کہا گیا ہے جس کے بارے بعض مترجمین قرآن نے لکھا ہے کہ غالباً یہ سنسکرت کے الفاظ گھاگ اور مہا گھاگ کی بگڑی ہوئی صورت ہے یعنی بدمعاش اور مہا بدمعاش !محققین کے نزدیک یاجوج ماجوج سے مراد بیشتر کچھ روسی اور چینی اقوام سے ہے جن میں سے کوئی بھی اسرائل دشمن یا صہیونیت دشمن نہیں ۔ سورہ کہف میں کہا گیا ہے کہ ’’اے ذو ا لقرنین یقیناً یاجوج اورماجوج روئے زمین پر فساد پھیلانے والے ہیں ۔ ۔‘‘اور سورہ انبیا میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ تمہاری امت حقیقت میں ایک ہی امت (امت واحدہ ) ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس تم صرف میری ہی عبادت کرو۔ (مگر یہ لوگوں کی کارستانی ہے کہ ) انہوں نے آپس میں اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا (جبکہ ) سب کو ہماری ہی طرف پلٹ کے آنا ہے۔ پھر جس نے نیک عمل کیے ہوں گے اس حال میں کہ وہ مؤمن بھی ہو تو اس کے کام کی ناقدری نہ کی جائے گی، اور ہم اسے لکھ رہے ہیں ۔ اور یہ ممکن نہیں ہے کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا ہو وہ پھر پلٹ سکے۔ یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول دیے جائیں گے اور ہر بلندی سے وہ نکل پڑیں گے اور جب اس وعدہ بر حق کے پورا ہونے کا وقت قریب آلگے گا تو جنہوں نے کفر کیا تھا اُن کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں گے اور وہ کہیں گے کہ ہائے ہماری کمبختی ہم تو اس (انجام ) کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے بلکہ ہم ہی ظالم تھے (سورہ انبیا آیات ۹۲۔ ۹۷)۔
تیسری بات یہ کہ یہود، مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرح، مسیح ابن مریم علیہ ا لسلام کے نہیں ، ابلیس کے نمائندے دجال کے منتظر ہیں جو حضرات عیسیٰ و مہدی علیہم ا لسلام کی آمد سے قبل آئے گااور اپنے ’مسیح موعود ‘اور بعض کے مطابق ’مہدی موعود ‘ ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرے گا۔ لیکن عیسائیوں کو دھوکے میں رکھنے کے لیے انہی کی طرح یہود بھی ’مسیح موعود ‘ کے منتظر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ صہیونی یہودیوں نےاپنے حامی نصاریٰ کو۔ ۔جو بیشتر غیر کیتھولک، پروٹسٹنٹ اور ویٹیکن کے بجائے چرچ آف انگلینڈ کے ماننے والے عیسائی ہیں ۔ ۔یقین دلا رکھا ہے کہ جب تک یروشلم (بیت ا لمقدس یا القدس شریف ) اسرائل کی مکمل راجدھانی نہیں بنے گا اور مسجد اقصیٰ کو مسمار کر کے وہاں قدیم ہیکل سلیمانی کی تعمیرجدید نہیں ہوگی مسیح بھی تشریف نہیں لائیں گے۔
یہود اور ان کے حامی و مددگار غیر کیتھو لک پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی اکثریت کے زائیدہ و پروردہ ’اسلامو فوبیا ‘ کا سبب یہ ہے کہ اسرائل سمیت پوری غیر مسلم دنیا میں بشمول بر اعظم امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور ایشیا و افریقہ میں سبھی غیر مسلموں میں فیملی پلاننگ کی وجہ سے جو خود اُنہیں کی دین ہے، شرح پیدائش منفی ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ان کا اندازہ ہے کہ اگلے دس پندرہ یا بیس برسوں میں با لخصوص امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور اسرائل میں مسلمانوں کی تعداد یہودیوں ، عیسائیوں اور ان کے معنوی اور فطری ہمدردوں سے زیادہ ہو جائے گی۔ یورپ اور امریکہ میں ایسے مضامین کی اشاعت تواتر کے ساتھ ہوتی رہتی ہےجن کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی مؤثر سد باب نہیں کیا گیا تو ’یوروبیا ‘ اور امریکہ ’یہو ایس اے ‘ (ریاستہائے متحدہ امریکہ ) کے بجائے ’ایم ایس اے ‘ (ریاستہائے مسلم امریکہ ) ہو جائے گا۔ ابھی چند روز قبل بھی بعض امریکی اخبارات میں یہ غلغلہ اُٹھ چکا ہے۔
تیسری جنگ عظیم کا مقصد اصلی، جو وسطی ایشیا یعنی مسلم دنیا سے شروع کی جانے والی ہے، یہی ہے کہ مسلمانوں کی آبادی کا صفایہ کر کے دنیا کے اضافہ آبادی کے موجودہ رجحان پر قدغن لگائی جائے۔۔ صہیونی اسرائل اور یرقانی سنگھ پریوار کے موجودہ تعلق کے عروج کا پس منظر بھی یہی ہے۔
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہود و مشرکین کا یہ تعامل کوئی نئی بات نہیں ۔ یہ سب کانگریس کے زمانے سے جاری ہے۔ فروق صرف اتنا ہے کہ پہلے یہ کام سات پردوں میں چوری چھپے ہوتا تھا اب وہ دھڑلّے سے دن دہاڑے ہورہا ہے۔
اہل ایمان کے دائمی دشمنوں کے مقابلے اور ان کے خلاف اپنے دفاع کے لیے کرنے کے کام جو کل تھے وہی آج بھی ہیں ۔ اعتصام باللہ، حسب استطاعت حصول قوت، اور بلا تفریق خدمت خلق۔
ہماری ہوا اُکھڑجانے اور دشمنوں کے لیے نرم چارہ ہونے کا سبب یہی ہے کہ ہم نے ان میں سے کوئی کام اُس طرح نہیں کیا جس طرح مطلوب تھا۔ با لخصوص وطن عزیز ہندستان میں اس وقت بھی نہیں کیا جب ہمیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نےکم و بیش آٹھ سو سال تک اختیارو اقتدار بھی عطا کئے رکھا تھا۔ لیکن، بجائے اِس کے کہ ہم اُخوّت کے آفاقی اسلامی اُصول ’’اِنَّ اَکرَمَکُم عندَاللہ اَتقٰکُم ‘‘ کو ملک کے تمام مستضعفین و مظلومین تک پہنچاتے، اُن پر ہزاروں سال سے بند تعلیم کے دروازے کھولتے،اور اُنہیں صدیوں پرانے نسلی اور طبقاتی امتیاز و تعصب سے نجات دلاتے، ہم نے غیر اسلامی حرکت یہ کی کہ رنگ و نسل اور پیدائش کی بنیادوں پر قائم جھوٹے اور انسانیت دشمن طبقاتی امتیازات کو اپنی صفوں میں بھی داخل کر لیا۔
ہم دلتوں ،کمزوروں ، پسماندہ کہے جانے والے طبقوں اور قبائلیوں (آدیباسیوں )کے ساتھ اسلامی و انسانی سلوک کرنے کے بجائے اُن ہی نام نہاد ’اعلیٰ ذات ‘والے ظالمین و مفسدین فی الارض سے دوستی کرتے اور اقتدار کی ریوڑیاں بانٹتے رہے حتیٰ کہ انہی کی بیٹیوں سے شادیاں کر کے انہیں مہارانی بھی بناتے رہے !
بھارت میں پچھلے ڈیڑھ دو سو سال سے جو کچھ شروع ہوا ہےاور آج جو کچھ ہمارے ساتھ ہورہا ہے وہ انسانیت کے خلاف ہمارے اِن ہی آٹھ نو سو سالہ جرائم، غیر اسلامی اقدامات اور قرآن سے دوری کے براہ راست اور با لواسطہ نتائج ہیں !
آج بھی کرنے کا کام اِس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اپنے اُن تمام اندھے، بہرے اور گونگے لیڈروں سے پیچھا چھڑائیں جو موجودہ فاسد اور باطل نظام کا پہیہ بنے ہوئے ہمیں ورغلاتے، سبز باغ دکھاتے اور مسلکی بکھیڑوں میں پھنسائے رکھنے کے سوا اور کچھ نہیں کرتے۔
ہمیں چاہیے کہ ’نافع علم ‘اور’جامع قوت‘ کے حصول کے ساتھ تمام کمزوروں اور مظلوموں کی بلا تفریق خدمت میں لگ جائیں ۔ رہی جنگ، وہ تیسری ہو یا چوتھی، روائتی ہو یا ایٹمی، کیمیاوی و حیاتیاتی ہو یا موسمی ہتھیاروں کی، موت تو صرف اور صرف اُس خالق و مالک کے اختیار میں ہے۔ جسے وہ زندہ رکھنا چاہے اُسے کوئی مار نہیں سکتا اور جسے وہ مارنا چاہے اُسے کوئی بچا نہیں سکتا۔ اور دوسرے یہ کہ ابھی تو ہمارے صادق و اَمین قائد و رہبرﷺ کا وہ وعدہ پورا ہونا باقی ہے کہ ’’۔۔قیامت سے پہلے یہ زمین اُسی طرح عدل و قسط سے بھر دی جائے گی جس طرح وہ اُس وقت ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی‘‘ ! اس کے علاوہ ابھی اللہ سبحانہ کا ’’لیظہرہ علی الدین کلہ ‘‘اور زمین کی وراثت مستضعفین فی الارض تک پہونچنے کے قرآنی وعدوں کی مکمل تعبیر بھی منصَّہِ شہود پر آنا باقی ہے !تو ہم صرف وہ کریں اور پوری دل جمعی سے کرتے رہیں جو کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے !فھل من مدکر ؟