-
ہند و اسرائیل تعلقات نئے تناظر میں
- سیاسی
- گھر
ہند و اسرائیل تعلقات نئے تناظر میں
1292
M.U.H
06/06/2018
1
0
عادل فراز
آرایس ایس کی حمایت یافتہ جماعت بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی یہ اعلان کیاگیا تھاکہ اسرائیل اور ہندوستان کے تعلقات کو سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔لوک سبھا انتخابات میں نمایاں کامیابی ملنے کے بعد بی جے پی کی جانب سے دیے گئے اس بیان سے یہ صاف ظاہر ہورہا تھاکہ بی جے پی کی منشا کیاہے۔کوئی بھی سیاسی جماعت الکشن میں کامیابی کے فوراَ بعد ایسا بیان اس وقت تک نہیں دے سکتی جب تک اسکے مفادات پر حرف نہ آرہاہو۔اس بیان سے یہ بھی واضح ہوگیا تھاکہ بی جے پی کو اقتدار میں لانے کے لئے استعمار نےجی توڑ کوشش کی ہے ۔کیونکہ استعمار بخوبی جانتا ہے کہ ہندوستان میں بی جے پی ہی اسکے اہداف کی تکمیل کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔اگر بی جے پی کو آرایس ایس کی حمایت حاصل نہیں ہوتی تو استعمار کبھی اسکی پشت پناہی نہیں کرتا۔مگر چونکہ آرایس ایس استعمار کی ایک شاخ ہے اور استعمار کے منصوبہ ساز ہی اسکے خالق ہیں اور پروردہ ہیں،لہذا اسکی حمایت یافتہ جماعت کی کامیابی کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی ۔آج اگر ہندوستان اسرائیل نوازوں کی اگلی صف میں نظر آتاہے تو یہ اسی استعماری پشت پناہی کا احسان اتارنے کی ایک کوشش ہے۔
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورۂ اسرائیل کے وقت ہندوستانی میڈیا نے فلسطین کے خلاف اسرائیل کی حمایت میں جو نمایاں کردار ادا کیاہے وہ بھی قابل غورہے ۔مودی ہندوستانی روایات کو پامال کرتےہوئے مظلوموں کے قاتل اور غاصب اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ مختلف معاہدوں کو آخری شکل دینے میں مصروف تھے اور یہاں ہندوستانی میڈیا فلسطین کو دہشت گرد اور اسرائیل کو مظلوم ثابت کرنے پر تُلا ہوا تھا ۔ہندوستان کا زرخرید میڈیا اپنے ملک کی روایات اور مظلوم پرستی کو بالائے طاق رکھ کر مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو جیسے عظیم رہنمائوں کا مضحکہ اڑانے میں مصروف تھا ۔چند ذمہ دار نیوز چینلوں کو چھوڑ کر ہر چینل پر اسرائیل کے خلاف فسلطین کی دہشت گردی پر پروگرام نشر کئے جارہے تھے ۔اینکر یہ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے تھے کہ اسرائیل جو پوری دنیا کو اسلحہ فروخت کرتاہے اور عالمی دہشت گردی کا بنیاد گزارہے،ایک چھوٹی سی ریاست کے نہتے مظلوموں کی ’’دہشت گردی ‘‘ کے خلاف کتنا بے بس ہے ۔دوسری طرف یہ دکھایا جارہاتھا کہ دنیا کی سب سے طاقتور اور فعال خفیہ ایجنسی موساد ہے ۔اسرائیلی فوج کی صلاحیت اور جنگی مہارت پر اسٹوریاں نشر ہورہی تھیں۔یہ سب اس لئے بھی ضروری تھا تاکہ ہندوستانی عوام کو یہ یقین دلایا جاسکے کہ نریندر مودی نے ہندوستانی روایات کو پامال کرکے پہلی بار اسرائیل کے بڑھے ہوئے دوستی کے ہاتھ کوکیوں تھاماہے۔مگر میڈیا یہ بھول گیاکہ جس ملک کی خفیہ ایجنسی دنیا کی طاقتور ترین ایجنسیوں میں سے ایک ہے ،جس ملک کی عسکری صلاحیت پرکوئی انگشت نمائی نہیں کرسکتا ،بالآخر وہ نہتے فلسطینیوں کی مزاحمت کے آگے اتنا بے بس اور لاچار کیوں ہے کہ آج ہمارا قومی میڈیا اسرائیلی دہشت گردی سے چشم پوشی کرتے ہوئے فلسطین کو ہی دہشت گرد ثابت کرنے پر مصر ہے ۔کہتے ہیں جھوٹ کے پیر نہیںہوتے ۔بس یہی ہوا۔میڈیا اپنے بُنے ہوئے جال میں خود الجھتا گیا اور اب تک الجھاہوا ہے ۔
نریندر مودی کے دورۂ اسرائیل کے بعد نتین یاہو ہندوستان کے دورے پر آئے ۔نتین یاہو کے دورۂ ہند پر بھی میڈیا نے وہی کردار ادا کیا جسکے لئے اسے خریدا گیا تھا ۔ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھو نے ایک آرٹیکل تحریر کیا تھا جو مختلف اخباروں کے ساتھ معروف انگریزی اخبار ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کی ۱۸ جنوری ۲۰۱۸ کی اشاعت میں شامل تھا ۔اس آرٹیکل سے بی جے پی اور آرایس ایس کی اسرائیل نوازی کی منشا کو سمجھنے میں بڑی حد تک مدد ملتی ہے۔ہم نے نتین یاہو کے دورہ ٔ ہند کے وقت شایع اس کالم کا تجزیاتی مطالعہ بعنوان’’فطری دوستی یعنی اسلام دشمنی‘‘ میں پیش کیا تھا جو مختلف اخباروں میں شایع ہوا تھا ۔رام مادھو نے ہندوستان اور اسرائیل کی مشترکہ باتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھاکہ ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان چند باتیں فطری طورپر مشترک ہیں۔انہی فطری باتوں نے دونوں کو بیحد قریبی دوست بنادیاہے ۔ایک تو یہ کہ ہندوستان بھی برٹش کالونی کا حصہ رہاہے اور اسرائیل بھی اسی کے ماتحت تھا۔ دونوں ملک آزادی کے فوراَ بعد خانہ جنگی کا شکار ہوئے۔ دوسرے یہ کہ ہندوستان پاکستان سے پریشان ہے اور اسرائیل فسلطین سے تنگ ہے ۔تیسرے یہ کہ دونوں ملک اسلامی دہشت گردی کے بھی شکار رہے ہیں۔رام مادھو لکھتے ہیں کہ ہندوستان نے ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ دشمنانہ رویہ اختیار کیا ۔۱۹۴۹ میں ہندوستان نےاقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ووٹ دیتے ہوئے سفارتی تعلقات سے انکار کیااور ہمیشہ فلسطین کی حمایت کی۔‘‘اس کالم میں رام مادھو ہندوستان کی اسرائیل دشمنی کا اصل ذمہ دار مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو کو قرار دیتے ہیں۔رام مادھو کے اس بیان سے واضح ہوجاتاہے کہ آخر بی جےپی حکومت اسرائیل سے اس قدر دوستی کی خواہاں کیوں ہے ؟۔در اصل دوستی کا یہ پورا کھیل اسلام اور مسلمان دشمنی میں کھیلا جارہاہے ۔گاندھی کے نظریات کے قاتل اب مہاتما گاندھی کی پالیسیوں پر علی الاعلان تنقید کررہے ہیں اور میڈیا اس تنقید کو نمایاں طورپر شایع کررہاہے ۔حزب اقتدار جو آرایس ایس کے ماتحت حکومت کررہا ہے اور آرایس ایس جو مسلم دشمنی میں اسرائیل کی طرح بے عدیل ہے فقط اسلام دشمنی اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کےلئے اسرائیل سے فطری دوستی کے راگ الاپ رہے ہیں۔رام مادھو کے اس بیان سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اگر آرایس ایس مسلمانوں کی دشمن نہ ہوتی تو کبھی استعمار اسکی پشت پناہی نہیں کرتا۔
ہندوستان اسرائیل کے ساتھ اس لئے دوستی کا خواہاں ہے کیونکہ اسے اپنے پڑوسی ممالک کی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے اسرائیلی طاقت کی ضرورت ہے ۔رام مادھو نے اپنے آرٹیکل میں فقط پاکستان کا تذکرہ کیاہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان پاکستان سے زیادہ چین کی دراندازیوں سے پریشان ہے ۔مگر چین کی دراندازیوں کا تذکرہ کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس نہیں کی گئی کیونکہ چین ایک اسلامی ملک نہیں ہے ۔اسرائیل کی ہندوستان کے ساتھ دوستی میں دلچسپی کا راز ایران دشمنی ہے ۔وہ مشرق وسطیٰ میں ایران کو تنہا کرنا چاہتاہے ۔اس کے دو بڑے فائدے ہیں ۔ایک تو یہ کہ اگر ایران مشرق وسطیٰ میں تنہا رہ جاتاہے تو اسرائیل یران کے خلاف وہ تمام پابندیاں عائد کرواسکتاہے جو اسکے اہداف میں شامل ہیں۔ساتھ ہی ایران پر حملے کے لئے اپنے اتحادیوں کے علاوہ مشرق وسطیٰ کی بڑی طاقتوں کو جمع کرنا اسکا اہم مقصد ہے ۔دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ عالم اسلام میں واحد اسلامی ملک ایران ہے جو فلسطینی مظلوموں کی پشت پناہی کررہاہے ۔ایران فلسطینی عوام کے ساتھ رہاہے اور اس نے انکی مدد میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ۔ایران اسرائیل کو ایک غاصب ریاست تسلیم کرتاہے جس کا اپنا کوئی خارجی وجود نہیں ہے ۔ایران ہمیشہ دنیاکے سامنے اسرائیلی جارحیت اور دہشت گردی کو بے نقاب کرتا آیاہے لہذا اسرائیل نہیں چاہتا کہ مشرق وسطیٰ میں کوئی ایران کی حمایت میں اسکے خلاف کھڑا ہو ۔لہذا وہ ہندوستان جیسی بڑی طاقت کو اپنے ساتھ ملانے کی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہے ۔
ہندوستان کے ساتھ اسرائیل کی دوستی کا اہم مقصد چین کی ترقیاتی پیش رفت کو روکنا بھی ہے۔اسرائیل جانتاہے کہ ہندوستان چین کی دراندازیوں اور بڑھتی ہوئی عسکری طاقت سے پریشان ہے لہذا اس نے اسی پریشانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان کو اپنے اتحادیوں کی صفوں میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی ۔پوری دنیا میں چین واحد ایسا ملک ہے جو اپنی مصنوعاتی ترقی کی بنیاد پر امریکہ اور اسرائیل جیسی عالمی طاقتوں کو مسلسل ٹکر دے رہاہے۔مصنوعاتی شعبہ میں چین نے کئی اہم ملکوں کو پچھاڑ دیاہے ۔رہی عکسری شعبے کی بات تو وہ امریکہ کو ہمیشہ آنکھیں دکھاتاآیاہے ۔سمندری علاقے میں امریکہ اور چین کی عسکری رقابت چلی آرہی ہے ۔لہذا چین کی طاقت کو کم کرنے اور اسکی پیش رفت پر قابو پانے کے لئے ہندوستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دینا بیحد ضروری ہے کیونکہ چینی مصنوعات کا سب سے بڑا بازار ہندوستان میں ہے۔دوسری طرف ہندوستان چین سے نپٹنا تو چاہتاہے مگر وہ کسی بھی پڑوسی سے جنگ نہیں چاہتا۔لہذا ہندوستان بھی یہ چاہتاہے کہ اقتصادی میدان میں چین کو کمزور کیاجائے ۔ہندوستان کے بازار میں چینی مصنوعات پر روک لگاکر اسرائیل اور اسکے اتحادیوں کی مصنوعات کو فروغ دیاجائے ۔ہندوستان کا یہ فیصلہ چین کی اقتصادی کمر توڑنے کے مترادف ہوگا۔
ہندوستان بھی اسرائیلی مفاد پرستی اور دوستی کے پس پردہ اغراض و مقاصد سے بخوبی واقف ہے ۔مگر اسکی خارجہ پالیسی ابھی پوری طرح اسرائیل کی حمایت کرنا نہیں ہے ۔اسکے نقصانات سے ہندوستان اچھی طرح واقف ہے لہذا وہ اسرائیل نوازی کے باوجود ایران سے براہ راست دشمنی نہیں کرنا چاہتا ۔ہندوستان عالمی سطح پر اپنی شبیہ کو داغدار نہیں کرنا چاہتاہے اسی لئے اقوام متحدہ میں اس نے فلسطین کے حق میں ووٹ دیکر اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو سوفیصدی ہری جھنڈی نہیں دکھائی ہے ۔مگر اسرائیل اچھی طرح جانتاہے کہ اقوام متحدہ میں فلسطین کے حق میں ووٹ کرنا ایک سیاسی پینترا ہے۔ہندوستان ابھی تک پوری طرح مہاتما گاندھی کے نظریات کی پٹری سے نہیں اتراہے لہذا ملک کی ساکھ کو بچانے کے لئے فلسطین کی ظاہری حمایت جاری رہے گی ۔مگر ہندوستان کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اسرائیل اسی استعمار کی منصوبہ سازیوں کا نتیجہ ہے جس نے دو سو سال کی مدت تک ہندوستان پر راج کیاہے۔حکومت ہند کو چاہئے کہ مسلم دشمنی سے ہٹ کر اسرائیل کے ساتھ تعلقاتی منصوبہ پر از سرنو غورکرے ۔دہشت گرد کسی کا دوست نہیں ہوتا۔اسے جب بھی موقع ملے گا وہ سانپ کی طرح پلٹ کر ڈسنے کی کوشش کرے گا ۔لہذا سانپ کو دودھ پلاکر پالنا عقلمندی نہیں ہے بلکہ اس کا پھن کچل کر خود کو محفوظ کرنا عاقلانہ فیصلہ ہے۔