-
رام کے دیس میں راون پوجا کرنے والے کون ؟
- سیاسی
- گھر
رام کے دیس میں راون پوجا کرنے والے کون ؟
1289
M.U.H
19/04/2018
1
0
سید نجیب الحسن زیدی
کوئی ایک دن ایسا نہیں ہوتا جب آپ ٹی وی اسکرین پر عصمت دری و جنسی زیادتی ،قتل و ریپ کی خبریں نہ سنتے ہوں،کوئی ایک دن ایسا نہیں جب اخبار اٹھاتے ہوں اور اس میں یہ خبر نہ ہو کہ ایک کمسن بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد اسے بری طرح زود کوب کرکے بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا اوراسکی لاش جھاڑیوں ڈال دی گئی یا اسے کچرے کے ڈھیر میں مار کر پھینک دیا گیا ، ایسے میں کیا ہندوستانی حکومت پر یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ کوئی مضبوط رد عمل دکھائے ؟ ہندوستان میں جنسی زیادتیوں اور عصمت دری کے کیسز کے تعداد یوں تو ہمیشہ ہے ہر صاحب احساس کو رلاتی رہی ہے لیکن حالیہ کچھ دنوں میں جو کچھ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کٹھوا معاملہ میں ہوا وہ ہر انسان کے رونگٹے کھڑے کر دینے کے لئے کافی ہے ، جہاں نہ صرف جنسی زیادتی کے بعد آٹھ سالہ معصوم بچی کو دردناک انداز میں قتل کر دیا گیا بلکہ جب بات مجرمین کو سزا دینے کی آئی تو اس واقعہ کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئ اور ملزمین کی حمایت میں مظاہرہ ہوا ، جبکہ بچی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ اور پولیس کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ آصفہ نامی آٹھ سالہ بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیاتھا جہاں اُسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اُس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی،اس کے باوجود مجرموں اور ملزموں کو مذہب کی آڑ میں بچانے کی کوشش اپنے آپ میں یہ سوال قائم کرتی ہے کہ کیا اب جرم و سزا کی تعیین انسانی اصولوں پر نہ ہو کر مذہب و مسلک کی بنیادوں پر ہوگی ، کہ ایک خاص طرز فکر کا حامل جتنا بڑا جرم کرے لیکن نہ صرف یہ کے اسکا مذہب اسکی سزا دلانے میں معاونت نہیں کرے گا بلکہ اسے مذہبی بنیادوں پر اس لئے بچا لیا جائے گاکہ جو جرم اس نے کیا ہے وہ دوسرے مذہب کے ماننے والوں یا ان سے متعلقہ افراد کے ساتھ کیا ہے اور انہیں جینے کا حق نہیں؟
کل آصفہ کی وکیل محترمہ دیپیکا سنگھ رجاوت کی ایک تقریر کسی نے فیس بک پر شئیر کی تھی سن کر افسوس ہوا کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جو انسانی ہمدردی کے تحت ایک مظلوم کا ساتھ دینے والی جرات مند خاتون کا حوصلہ بڑھانے کے بجائے اسے ڈرا دھمکا کر خاموش بٹھا دینا چاہتے ہیں کس قدر درد ہے ان جملوں میں : ''مجھے پتہ نہیں میں کب تک زندہ ہوں ، میری عزت کب تک محفوظ ہے"
ایک سینئر وکیل کو کسی کا حق دلانے کے پاداش میں دھمکیاں دیا جانا واقعا افسوسناک ہے ، دیپیکا کا یہ کہنا کہ مجھے اغوا اور قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، ہوسکتا ہے مجھےعدالت میں کیس لڑنے سے بھی روک دیا جائے اپنے آپ میں یہ سوال قائم کر رہا ہے کہ آخر یہ کیسا حیوانی مزاج ہندوستان پر حاکم ہوتا جا رہا ہے کہ مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا تو دور کچھ لوگ دوسرے لوگوں کو بھی کسی کا درد بانٹتے ہوئے کسی کاحق دلاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ؟آخر ایک کمسن بچی کے ساتھ بھیانک جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے تئیں نرم گوشہ رکھنے کا مطلب کیا ہے ؟ جرم تو جرم ہوتا ہے اور مجرم مجرم ہوتا ہے وہ کسی کے ساتھ بھی ہو اگر مجرم کو سزا نہیں ملی تو ملک ہی کو تو اسکا خمیازہ بھگتنا پڑےگا ، دوسرے اور مجرمین کے حوصلے بلند ہوں گے اور کمسن بچیوں کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ چلتا رہے گا ،کہیں صاحبان اقتدار آگے آکر معاملہ رفع دفع کریں گے اور نہیں ہو سکا تو کیس لڑنے والے وکیلوں کا جینا حرام کر دیں گے تو کہیں پارٹیاں مذہب و مسلک کی بنیاد پر مجرموںکو بچا لے جائیں گی ، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے میں انسانیت کا کیا ہوگا ؟ انصاف کا کیا ہوگا ؟ اگر لوگوں کا عدالت پر سے بھروسہ اٹھ گیا اور قانون انکا محافظ نہ رہا تو انکی حفاظت کون کرے گا ؟یہ صرف آصفہ کا معاملہ تو نہیں کسی کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے کیا اس سے پہلے جن بچیوں کو جنسی زیادتی کا شکار بنا کر بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا وہ سب مسلمان تھیں ؟ کیا ان کے ساتھ جب وحشیانہ سلوک ہوا تو مسلمانوں نے احتجاج نہیں کیا تھا ؟ کیا وہ خاموش تماشائی بنے تھے ؟ اگر نہیں تو اب اس مسئلہ ایسی صورت میں مذہب سے جوڑ کر کیوں دیکھا جا رہا ہے جب عوامی طور پر اس دل دہلا دینے والے واقعہ پر احتجاج مذہب و مسلک سے ماوراء ہو کر انسانی بنیادوں پر ہر طرف ہو رہا ہے ایسے میں کتنی عجیب بات ہے کہ ایک تنگ نظر طبقے کی طرف سے دیپکا رجاوت سنگھ کو کیس لڑنے کی خاطر دھمکیاں دی جا رہی ہیں دیپیکا کو دھمکی دئے جانے کا واقعہ تو اب سامنے آیا ہے جبکہ اس سے پیشتر بھی وحشیانہ مزاج رکھنے والے ایک ٹولے نے پوری کوشش کی کہ کیس دب جائے اور بات عدالت تک نہ پہنچ سکے
آخر مذہبی منافرت ہمیں کہاں لے کر جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے جس میں مختلف ہندوستان نیوز ایجنسیز کے بقول چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم خان ولکر ار جسٹس ڈی وائی چندراچُد شامل تھے گزشتہ دنوں جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کٹھوعہ بار ایسو سی ایشن کے نام اس معاملے پر ہڑتال پر جانے، آصفہ کے والدین کی طرف سے مقرر کردہ وکیل کو عدالت میں ان کی نمائندگی کرنے سے روکنے اور کٹھوعہ کی عدالت میں فردِ جرم دائر کرنے کے عمل میں رخنہ ڈالنے پر نوٹس جاری کیا اور ان چیزوں کے سلسلہ سے انتظامیہ سے نوٹس بھی طلب کیا ۔ علاوہ از ایں عدالتی بینچ نے کہا ہے کہ قانون اور اخلاقیات کے تحت فردِ جرم دائر کرنے سے روکنے اور کسی وکیل کو مظلوم کے کنبے کی نمائندگی کرنے سے باز رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔بینچ نے مزید کہا کہ کسی بھی کیس سے منسلک ہر پارٹی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا وکیل مقرر کرے اور اگر وکلاء اس اصول کی مخالفت کرتے ہیں تو یہ بات محکمہ عدالت اور نطام انصاف کے کی تخریب و تباہی کا سبب ہوگی ، جہاں ایک طرف جموں کی عدالت کی جانب سے دئے گئے نوٹس سے واضح ہوتا ہے کہ درپردہ کچھ لوگ اس کیس کو دبانے کی کوشش کر رہے تھے وہیں سر اقتدار پارٹی کے دو عہدیداروں کے اس سلسلہ میں گستاخانہ بیانات کا سامنے آنا بھی واضح کرتا ہے انسانیت کس قدر مرچکی ہے اور ہندوستانی معاشرہ میں اب انصاف کا حصول کس قدر مشکل ہو گیا ہے جبکہ ہندوستان میں روز بروز عصمت دری کے بڑھتے واقعات ہر صاحب احساس کو رلاتے ہوئے پوچھ رہے ہیں کہ آخر اسکا علاج کیا ہے ؟ کیا ہندوستانی معاشرہ پر یہ بدنما داغ یوں ہی لگتے رہیں گے ؟ آخر یہ کون لوگ ہیں جو رام کے دیس میں راون کا پرچم لہرانے کے درپہ ہیں ؟ کیا آج ہر ایک ہندوستانی کے لئے ضروری نہی کہ اس فکر کو پہچانیں جو نا م تو رام کا لیتی ہے لیکن اس کے کاموں سے راون بھی شرمندہ ہے ، البتہ ابھی بھی ایسے زندہ ضمیر لوگ ہیں جو رام کے دیس میں روان راج برداشت کرنے کو تیار نہیں انہیں میں سے کچھ سابقہ افسروں نے ہندوستانی وزیر اعظم کو کھلا خط لکھا ہے ،ویسے تو اس طرح کے ہزاروں اور لاکھوں خطوط ہوںگے لیکن یہ خط اس لئے اپنے آپ میں اہم ہے کہ اس کے لکھنے والے وہ ملازمین و سرکاری افسران ہیں جنہوں عرصہ تک ملک و قوم کی خدمت کی ہے اور اب ملک جس سمت میں جا رہا ہے اسے دیکھ کر وہ حیران ہیں کہ آخر کیا ہو رہا ہے ، وہ لکھتے ہیں :
''عزت مآب وزیر اعظم،
ہم سرکاری خدمات سے سبکدوش سابق افسروں کا ایک گروپ ہیں جو ہندوستانی آئین میں موجود سیکولر، جمہوری، اور جمہوری قدروں میں لگاتار گراوٹ پر تشویش کا اظہار کرنے کے لئے گزشتہ سال اکٹھا ہوئے تھے۔ایسا کرکے ہم مزاحمت کی ان دوسری آوازوں سے جڑے جو سرکاری نظام کے اسپانسرڈ نفرت، ڈراور بےرحمی کے خوفناک ماحول کے خلاف اٹھ رہی تھی۔ ہم نے پہلے بھی کہا تھا، دوبارہ کہتے ہیں، ہم نہ تو کسی سیاسی جماعت سے جڑے ہیں، نہ ہی کسی سیاسی نظریہ کے پیروکار ہیں سوائے ان قدروں کے جو آئین میں موجود ہیں۔
کیونکہ آپ نے آئین کو قائم رکھنے کا حلف لیا ہے، ہم پرامید تھے کہ آپ کی حکومت، جس کے آپ سربراہ ہیں اور سیاسی جماعت جس کے آپ ممبر ہیں، اس خطرناک رجحان کی جانکاری لیںگے، پھیلتی سڑاند کو روکنے میں ایک قا ئدکا رول ادا کریںگے اور سب کو بھروسہ دلائیںگے، بالخصوص اقلیت اور کمزور طبقے کو کہ وہ اپنے جان و مال اور انفرادی آزادی کو لےکر بے خوف رہیں۔ یہ امید مٹ چکی ہے۔ اس کے بجائے، کٹھوا اور اناؤ کے حادثات کی ناقابل بیان دہشت بتاتی ہے کہ حکومت عوام کے ذریعے دئے گئے اپنے بنیادی فرائض کو نبھانے میں ناکام رہی ہے۔
ایک ملک کے طور پر جس کو اپنی اخلاقی روحانی اور ثقافتی وراثت پر فخر رہا ہے اور ایک سماج کے طور پر جس نے اپنی تہذیبی رواداری، رحم اور ہمدردی کی قدروں کو سنبھالکر رکھا ہے، ہم سب ناکام رہے ہیں۔ ہندوؤں کے نام پر ایک انسان کے لیے ایک دوسرے جانور جیسی بےرحمی کو پال کر ہماری انسانیت شرمسارہو رہی ہے۔ ایک آٹھ سال کی بچی کے وحشیانہ طور پر ریپ اور قتل کا واقعہ یہ دکھاتا ہے کہ ہم کمینگی کی کن گہرائیوں میں ڈوب چکے ہیں۔ آزادی کے بعد یہ سب سے بڑا اندھیرا ہے جس میں ہم پاتے ہیں کہ ہماری حکومت اور ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت کا رد عمل ناکافی اور ڈھیلا رہا ہے۔ اس مقام پر ہمیں اندھیری سرنگ کے آخر میں کوئی روشنی نہیں دکھائی دیتی ہے اور ہم بس شرم سے اپنا سر جھکاتے ہیں۔
ہماری شرم اور بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے کچھ جوان دوست بھی جو ابھی بھی حکومت میں ہیں، بالخصوص وہ جو ضلعوں میں کام کر رہے ہیں اور قانوناً دلت اور کمزور لوگوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لئے پرعزم ہیں، اپنا فرض نبھانے میں ناکام رہے ہیں۔ عزت مآب ، ہم یہ خط آپ کو صرف اپنی اجتماعی شرم کی وجہ سے یا اپنی تکلیف یا غم کو آواز دینے یا اپنی ثقافتی قدروں کے خاتمے کا ماتم منانے کے لئے نہیں لکھ رہے ہیں۔ ہم لکھ رہے ہیں اپنے غصے کا اظہار کرنے کے لئے، تقسیم اور نفرت کے اس ایجنڈے کے خلاف، جو آپ کی پارٹی اور اس کی بےشمار وقت بےوقت پیدا ہوتے معروف ،غیر معروف اداروں نے ہماری سیاسی قواعد میں، ہماری ثقافتی سماجی زندگی اور روز مرہ میں شامل کر دیا ہے۔
اسی سے کٹھوا اور اناؤ کو سماجی حمایت حاصل ہوتی اور جواز ملتا ہے۔ کٹھوا میں، سنگھ کے ذریعے پر جوش اکثریت کی جارحیت اوران کی بداخلاقی نے فرقہ وارانہ وحشی عناصر کو اپنے گھناؤنے ایجنڈے پر آگے بڑھنے کی ہمت دی ہے۔ وہ جانتے تھے ان کی بداخلاقی کوان سیاست دانوں کی حمایت حاصل رہےگی جنہوں نے خود ہندو مسلمانوں کا پولرائزیشن کر کے اور ان میں پھوٹ ڈالکر اپنی سیاست میں اضافہ کیا ہے۔ وہی اناؤ میں سب سے گھٹیا پدری سماج ، سامنتی مافیا غنڈوں پر ووٹ اور سیاسی اقتدار کھینچنے کے لئے انحصار کے باعث، ان لوگوں کو ریپ، قتل ،زورزبردستی اور لوٹ کھسوٹ کی آزادی اپنی ذاتی طاقت کو جمانے اور پھیلانے کے لئے ملی ہے۔لیکن اقتدار کے اس غلط استعمال سے زیادہ کلنک کی بات ریاستی حکومت کے ذریعے متاثرہ اور اس کی فیملی کے، بجائے مبینہ ملزم کی پشت پناہی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ سرکاری نظام کتنا خراب ہو چلا ہے۔ یوپی ریاستی حکومت نے تبھی کچھ کیا جب عدالت نے اس کو مجبور کیا، جس سے اس کے ارادوں کا فریب صاف ظاہر ہوتا ہے۔دونوں معاملوں کی ریاستوں میں، وزیر اعظم، آپ کی حکمراں جماعت ہے۔ آپ کی جماعت میں آپ کی برتری، آپ اور آپ کی جماعت کے صدر مرکزی کنٹرول کی وجہ، اس خوفناک صورتحال کے لئے کسی اور سے زیادہ آپ کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
اس سچائی کو منظور کرنے اور معاوضہ دینے کے بجائے آپ کل تک خاموش رہے۔ آپ کی خاموشی تب ٹوٹی جب ملک اور غیرملک میں عوامی غصے نے اس حد تک زور پکڑا جس کو آپ نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔تب بھی حالانکہ آپ نے بدکاری کی مذمت اور شرم کا اظہار کر دیا ہے، آپ نے اس کے پیچھے گھٹیا فرقہ پرستی کی مذمت نہیں کی ہے ؛ نہ ہی آپ نے ان سماجی، سیاسی، انتظامی حالات کو بدل ڈالنے کا عزم لیا ہے جن کے تلے فرقہ وارانہ نفرت پھلتی پھولتی ہے۔
ہم ان مؤخر ڈانٹ پھٹکار اور انصاف دلوانے کے وعدوں سے عاجز آ چکے ہیں، جبکہ سنگھ پریوار کے سایہ میں پلنے والے رنگ دار فرقہ وارانہ ہانڈی کو لگاتار ابال پر رکھ رہے ہیں۔وزیر اعظم، یہ دو حادثے محض معمولی جرم نہیں ہیں جہاں گزرتے وقت کے ساتھ ہمارے سماجی چادر کے داغ دھل جائیںگے، ہماری قومیت اور اخلاقیات پر لگے زخم بھر جائیںگے، اور پھر وہی رام کہانی شروع ہو جائےگی۔یہ ہمارے وجود پر آئے بحران کا پل، ایک موڑ ہے-حکومت کا رد عمل طے کرےگا کہ ایک ملک اور جمہوریت کے روپ میں کیا ہم آئینی قدروں، انتظامی اور اخلاقی نظام پر آئے بحران سے نمٹنے کے اہل ہیں، وقتی طور پر ہم آپ کو آواز دیتے ہیں کہ آپ درج ذیل کارروائی کریں :
اناؤ اور کٹھوا کے متاثر ین تک پہنچکر ان سے ہم سب کی طرف سے معافی مانگیں۔
کٹھوا معاملے میں فوری استغاثہ کروائیں اور اناؤ معاملے میں بنا حیل وحوالہ کئے عدالت کے گائیڈ لائن کے مطابق اسپیشل جانچ ایجنسی کی تشکیل کریں۔ان بھولےبھالے بچوں اور نفرت جرائم کے دوسرے شکارلوگوں کی یاد میں دوبارہ پُرعزم ہوں کہ مسلمان، دلت، دیگر اقلیتوں، خواتین اور بچوں کو خصوصی تحفظ اور بھروسہ دیا جائےگاتاکہ وہ اپنی جان ومال اور شہری آزادی کے لئے بے خوف رہیں ؛ اور ان پر کسی قسم کے خطروں کو حکومت پوری طاقت سے ختم کر دےگی۔
حکومت سے ان تمام لوگوں کو برخاست کیا جائے جو ہیٹ کرائم اور نفرت آمیز تقریروں سے جڑے رہے ہیں۔
ہیٹ کرائم سے سماجی، سیاسی اور انتظامی طور پر نمٹنے پر گفتگو کے لئے ایک کل جماعتی اجلاس بلائیں۔
ممکن ہے کہ یہ دیر آید درست آید نہ ہو، پر اس سے نظام کچھ تو دوبارہ قائم ہوگا اور بھروسہ ملےگا کہ بدنظمی اور مسلسل گراوٹ کو اب بھی روکا جا سکتا ہے۔ ہم پرامید ہیں ،،
ہمیں نہیں معلوم اس خط کا جواب وزیر اعظم کیا دیں گے ؟ دیں گے بھی یا نہیں دیں گے لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہندوستان جس تیزی کے ساتھ حیوانیت کی کھائی میں ڈھلتا چلا جا رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئےاگر جرم و سزا پر بھی مذہب کا رنگ چڑھ گیا اور تمام سزائیں محض ان لوگوں کے لئے سنائی جانے لگیں جو ایک خاص نظریہ و مذہب کے ماننے والے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب یہ کہنا مشکل ہو جائے گا کہ دنیا کے نقشہ پر کوئی ہندوستان نامی ایسا ملک بھی تھا جہاں انسان رہا کرتے تھے ،اور جسکی انسانی تہذیب نے کبھی ایران و روم کو متاثر کیا تھا ،یہ کہنا بہت مشکل ہو جائے گا کہ ایک عظیم و متمدن ملک ایسا ملک بھی تھا جس میں ہر مذہب و مسلک کے ماننے والے باہمی میل جول اور بھائی چارے کے ساتھ رہتے تھے ایک دوسرے کی خوشیوں میں خوش اور غموں میں غمگین ہوتے تھے ،حالات ایسے ہی رہے تو آنے والی نسلوں کو سمجھانا مشکل ہو جائے گا کہ اس ملک کی اساطیری شخصتیوں میں ایک شری رام تھے جنہوں نے باہمی رواداری کادرس دیا تھا جنہوں نے انسانیت کا پیغام دیا تھا اور راون جیسے انسانیت کے دشمن سے جنگ کی تھی ،اگر ہمیں ہندوستانی تہذیب اسکی ثقافت اور اسکے عظیم تمدن کو بچانا ہے تو ان لوگوں کے چہروں کو سامنے لانا ہوگا جو رام کے دیس میں راون کی پوجا کا نفاذ چاہتے ہیں اور رام کے نام پر راون کا پرچم لہرا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ،شک نہیں کہ ہم اور آپ اگر بیدار ہو گئے تو رام کے دیس میں کوئی راون کی پوجا نہیں کر سکے گا ،بس ہمیں خود پر قابو رکھتے ہوئے عزم و ہمت کے ساتھ اس ٹولے کی حقیقت سامنے لانے کی ضرورت ہے جو رام کے دیس میں راون پوجا کا چلن لانا چاہتے ہیں ۔