عادل فراز
استعماری طاقتیں ہر محاذ پرمسلسل ایرانی قوم کے عزائم اور انکی جوانمردی کے سامنے گھٹنے ٹیکتی آئی ہیں۔فلسطین کا دیرینہ مسئلہ ہو یا پھر یمن،شام،لبنان اور عراق کی جنگ میں انکی ناکامی کا طویل سلسلہ ہو ہر محاذ پر ایرانی حکومت کی منصوبہ بندیوں نے استعماری سازشوں کو شکست دی ہے ۔ظاہر ہے زخم کھایا ہوا دشمن ہمیشہ موقع کی تاک میں رہتاہے ۔یہ موقع دشمن کے ہاتھ لگا بھی مگر ایک بار پھر ایرانی قوم کے عزائم اور داخلی پالیسی سازوں نے انہیں ناکام بنادیا۔حالیہ دنوں میں ایران میں ہونے والے تمام تر مظاہروں کو دشمن نے اپنے اہداف کے حصول کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے ۔صدر روحانی کی معاشی پالیسیوں اوراقتصادی ڈھانچہ کی بدتر حالت کے خلاف ہورہے احتجاجات کو مذہبی مقتدر افراد کے خلاف استعمال کرنےکی کوشش کی گئی ۔عالمی سطح پر یہ مشتہر کیا گیاکہ ایرانی عوام مذہبی طبقہ کی آمریت اور جابرانہ اقدامات سے تنگ آکر سڑکوں پر نکلی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر ایران کی سڑکوں پر مخالفین سے زیادہ حکومت کےحامی نظر نہ آتے ۔دوسرے یہ کہ ایران کا آئین انکا خودساختہ آئین نہیں ہے بلکہ قرآن اور سنت پیغمبرؐ ہی ملک کا اصل آئین ہے اس لئے یہ کہناکہ ایرانی عوام مذہبی قوانین اور مذہبی افراد کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی تھی غیر منطقی اور دشمن کا پروپیگنڈہ ہے ۔ایرانی عوام بخوبی جانتی ہے کہ انکا آئین نہ آیت اللہ خمینی نے بنایا ہے اور نہ آیت اللہ خامنہ ای کا ترتیب دیاہوا منثور ہے ۔اس لئے بنیادی آئین کے خلاف احتجاج کی افواہیں بے معنی ثابت ہوتی ہیں۔دوسرے یہ کہ ایرانی عوام ملک کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف مظاہرہ کررہی تھی ۔یہ تسلیم کیا جاسکتاہے کہ ایران کی بعض اقتصادی پالیسیوں کے ایرانی عوام مخالف ہوں مگر یہ کیسے کہاجاسکتاہے کہ اقتصادی پالسیوں کے خلاف ہورہے مظاہرےمذہبی طبقہ کے خلاف تھے ۔کیونکہ ملک کی اقتصادی پالیسی کی بنیاد پر اگر ملک میں مہنگائی بڑھتی ہے اور عام آدمی مہنگائی سے تنگ آکر سڑکوں پر حکومت کے خلاف نکلتاہے تو کیا اس مطالبہ کو ہم ایران مخالف مطالبہ کہہ سکتے ہیں۔جمہوری نظام میں اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا اور حکومت سے اپنے جائز مطالبات پر احتجاج کرنا خلاف اسلام تو نہیں؟۔اگر ایرانی عوام کو یہ لگتاہے کہ ہمارے ملک کی اقتصادی پالیسی نے مہنگائی میں اضافہ کیا ہے تو کیا وہ احتجاج کا حق نہیں رکھتے ؟۔تیسرے یہ کہ اگر امریکہ ان احتجاجات سے سوئے استفادہ کرکے ا یران کے مقتدرمذہبی طبقہ کی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے مداخلت کرتاہے تو یہ اقدام امریکہ کی بوکھلاہٹ،اسکی ناکامی اور کھسیاہٹ کو واضح کرتاہے ۔کیونکہ ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کے پیچھے امریکہ اوراسکے اتحادی ممالک ہی ہیں ۔اگر امریکہ ایران پر بیجا اقتصادی پابندیاں عائدنہ کرتا تو آج ایران کے حالات مختلف ہوتے اور مہنگائی کے خلاف احتجاج نہ ہورہے ہوتے ۔یعنی مہنگائی کے خلاف ہورہے احتجاجات کے پیچھے بھی امریکا کی ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ہی ہیں۔
کچھ تجزیہ نگاروں نے لکھاہے کہ ایران میں مظاہروںکی بنیادی وجہ مقتدر جماعت کی تعیش پرستانہ زندگی اور انکے بچوں کی عشرت انگیزی ہے۔ ان تجزیہ نگاروں نے کچھ ایسی تصاویر کا حوالہ دیاہے جو انسٹاگرام پر موجود ہیں اورایرانی رہنمائوں کے بچوں کی عیش پرستانہ زندگی کی عکاس ہیں۔مگر وہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ آخرعیش و عشرت میں مبتلا بچے کس مذہبی رہنما کے ہیں اورانکا سرپرست کس سرکاری یا نیم سرکاری عہدہ پر فائز ہے ۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی سادہ زندگی اورانکے بچوں کے حالات سے ایک زمانہ واقف ہے ۔اپنے بچوں پر بیت المال کا ایک درہم خرچ نہ کرنے والا شخص یہ کیسے برداشت کرسکتاہے کہ ایرانی رہنمائوں کے بچے تعیش پرستانہ زندگی بسر کریں۔رہی عوام کی بات تو قانون سب کے لئے یکساں ہوتاہے ۔گھر میں اور تہہ خانوں میں کون کیا کرتاہے اسکی ذمہ دار انتظامیہ نہیں ہوتی ۔انتظامیہ قانون کے نفاذ اور لاء اینڈ آڈر کی بہتری کے لئے کوشش کرتی ہے ۔اگر ایران میں ایک طبقہ عیش و عشرت کی زندگی گزاررہاہے تو کیا اس طبقہ کومذہبی طبقہ اس جرم میں قیدخانوں میں بند کرسکتاہے ؟اگر انکی عیش پرست زندگی خلاف اسلام ہے تو انکی تائید نہیں کی جاسکتی اور نہ ایرانی رہنما کبھی ایسے طبقہ کی عیاشیوں پر خاموش رہ سکتے ہیں۔اگر اس سمندر کی تہہ کو کھنگالا جائےگا تو حقیقت کے کئی موتی ہاتھ آئیں گے اس لئے تحقیق کی ضرورت ہے ۔یہ تمام تجزیہ نگار امریکہ ،لندن اور دیگر مغربی ملکوں میں بیٹھ کر ایران کے خلاف استعماری پروپیگنڈہ میں شامل ہیں۔اس لئے انکے لکھے گئے کالموں اورالزمات کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
ایک امریکی تجزیہ نگار کا کہناہے کہ’’ ایران امریکہ سے زیادہ اپنے داخلی انتشارسے خوفزدہ ہے ‘‘۔ہرملک اپنے داخلی انتشار سے خوفزدہ رہتاہے تو پھر ایران ہی کیوں؟کسی بھی حکومت کی بقاء کے لئے ضروری ہوتاہے کہ اسے عوام کی بھر پور تائید حاصل ہو ۔اگر عوام کسی حکومت کی تائید نہ کریں تو اس حکومت کی بقاء کی ضمانت نہیں لی جاسکتی ۔انبیاء و مرسلین ہوں یا پھر دنیا کے عظیم حکمران سب کو حکومت کے لئے عوام کی رضایت کی ضرورت ہوتی ہے ۔اگر ہم آج جمہوری نظام کو دنیاکی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں تو یہ نظام بھی آمریت کےساتھ باقی نہیں رہ سکتابلکہ عوامی رضایت اور تائید کے ساتھ ہی قائم رہ سکتاہے ۔اس لئے ایران ہو یا کوئی دوسرا جمہوری ملک اسے اپنی بقاء کے لئے داخلی انتشار سے
نپٹنا ضروری ہوتاہے ۔بعض تجزیہ نگاروں نے لکھاہے کہ ’’ایرانی شہر مشہد سے شروع ہونے والے مظاہرے بظاہر صدر روحانی کی معاشی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ یہ مظاہرین بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن اور حکمرانوں کے طرزحکومت سے نالاں ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت ملکی وسائل کا بیشتر حصہ مدارس، فوج اور دوسرے ممالک میں چھیڑی جانے والی جنگوں کی بجائے عوام پر خرچ کرے۔‘‘ان تمام تر تجزیات میں ہی ایران مخالف افراد کا جواب پوشیدہ ہے ۔مدارس اورحوزہ ہائے علمیہ ایران کی روح ہیں۔ایران اپنے مدارس اورحوزات کے ذریعہ پوری دنیا میں اسلامی اسکالرز اوراپنے نظریاتی حامیوں کی فوج بھیج رہاہے مگر دشمن صرف اسلحہ کی سپلائی میں مصروف ہے۔ اس لئے دشمن کا پہلا ہدف ان مدارس اور حوزات کو ختم کرناہے جہاں ایرانی رہنمااوران رہنمائوں کے نظریاتی حامی اوراسلامی مفکرین تربیت پارہے ہیں۔ظاہرہےان مدارس اور حوزات کا بجٹ مخصوص ہوتاہے اور پوری دنیا کے طلباء ان مدارس اور حوزات سے کسب فیض کرکے دنیا کے ہر ملک میں تبلیغ دین میں مصروف ہیں۔عالمی سطح پر اسلام کے فروغ میں انہی فارغین مدارس و حوزات کا حصہ ہے جس سے دشمن اندرتک ہلا ہوا ہے ۔
ایران مخالفین کو تنقید سے پہلے مظاہرین کے نعروں پر غور کرنا چاہئے تھا ۔یہ نعرےاستعماری منصوبوں اور یمن و شام میں شکست کھا چکی عالمی طاقتوں کو بے نقاب کردینگے ۔مظاہرین نعرے لگارہے تھے کہ ’’ ہم ایرانی ہیں، ہم عربوں کی پوجا کیوں کریں؟ ‘‘ دوسرا ’’ہم ایران کی خاطر جان دینے کے لئے تیا ر ہیں لیکن غزہ اور لبنان کے لئے نہیں‘‘۔ان دونعروں سے واضح ہوجاتاکہ دشمن اب بھی پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ایران حکومت کے خلاف ناکام ہے ۔یمن ،شام ،لبنان اورفلسطین میں ناکامی کی شکار صہیونی طاقتیں اسکے علاوہ مظاہرین کو اور کیا نعرے دے سکتی تھیں۔ایک طرف وہ مجاہدین ہیں جو اپنے ملک اورعالم اسلام کی بقاء و ترقی کے لئے ہنستے ہنتے قربانیاں دے رہے ہیں اور دوسری طرف مظاہرین ہیں جو اس طرح کے نعرے بلندکر رہے ہیں۔ہمیں سمجھنا چاہئے کہ یمن ،شام اور لبنان میں شکست خوردہ طاقتیں، یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت بنانے کے سنہرے خواب دیکھنے والے رہنما عالمی سطح پر ذلت و خواری کا عذاب جھیلنے کے بعد خاموش کیسے رہتے ؟کیا انکے مقاصد کسی سے چھپےہوئے ہیں؟اگر نہیں تو پھر عالم اسلام ایران کے ساتھ متحد ہوکر انکی بیخ کنی پرآمادہ کیوں نہیں ہے۔اگر ہم ان تمام عوامل کی بنیاد پر حالات کا تجزیہ کرینگے تو استعماری طاقتوں کی حیلہ گری اور نقاب کے پیچھے چھپے ہوئے تمام چہرے سامنے آجائیں گے ۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)