سوشل میڈیا پر کسی گمنام عیسائی خاتون اسکالر کی ایک تحریر گشت کر رہی ہے جس پرکسی دوسرے گمنام مبصر کا یہ تبصرہ بھی درج ہے کہ ’’جب سے میں نے اس مسیحی خاتون اسکالر کی یہ تحریر پڑھی ہے ،اُس وقت سے انتہائی شرمندگی کا شکار ہوں اور میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کہ اس کی تردید کروں تو کسطرح ؟ اور تائید کروں تو کس منھ سے ؟ وہ لکھتی ہیں کہ :
’’امریکی صدر نے ابھی حال ہی میں دو مذاہب کے مراکز کے دورے کیے ہیں ایک سعودی عرب جو مسلمانوں کا مرکز ہے اور دوسرا ویٹی کن سٹی جو ہمارا ہے ۔ ہمارے مرکز سے برداشت اور امن کی بات کی گئی اور ہمارے رہنما نے امریکی صدر کو دنیا میں پائدار امن کے لیے ایک مؤثر کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا ۔لیکن اس کے بر خلاف اسلامی دنیا کے مرکز سے عدم استحکام اور انتقام کی بات کی گئی اور امریکی صدر کو جنگوں میں تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ۔ہمارے مرکز سے دنیا میں ہونے والی خلاف معمول موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے ماحولیاتی عدم توازن کے مسائل کی نشان دہی کی گئی ۔جبکہ اسلامی مرکز سے ایک سو بلین ڈالر کے ہتھیاروں کا سودا کیا گیا اور وہ ہتھیار دوسرے اسلامی ملک (ایران کے خلاف ) استعمال کی غرض سے خریدے گئے ۔ ہمارے مرکز سے غربت کے خاتمے اور سماجی انصاف کی ضرورت پر زور دیا گیا اوراسلامی مرکز کی جانب سے امریکی صدر اور ان کی امیر کبیر فیملی پر کروڑوں ڈالر کے تحائف کی بارش کردی گئی جبکہ خود اسلامی دنیا میں عدم استحکام ،غربت اور دہشت گردی کے شکار کروڑوں شہریوں کو نظر مطلق انداز کر دیا گیا اور اسلامی ممالک کے اُن لاکھوں کروڑوں لوگوں کے مسائل پر بھی کوئی بات نہیں کی گئی جو بدترین خانہ جنگیوں اور تھوپی ہوئی جنگوں کے شکار ہیں !کیا یہ فرق ایسا ہے جسے آسانی سے نظر انداز کر دیا جائے ؟ ‘‘
پہلی بات تو یہ کہ مذکورہ بالا تحریر کسی اخلاص پر مبنی نہیں ۔منافقت اور تلبیس حق و باطل کا ملغوبہ ہے ہم خواہ مخواہ شرمندہ ہونے اور منہ چھپانے کے بجائے اُن محترمہ سے کہیں گے کہ آپ نے کہا تو سچ ہے لیکن آپ خود جھوٹی اور منافق ہیں ! یہ جو کچھ دنیا میں ہورہا ہے سب آپ ہی جیسے جھوٹو ں اور منافقوں کا کیا دھرا تو ہے !کرہ ارض کے ماحولیاتی عدم توازن کا مسئلہ ہو یا کلائمٹ چینج اور گلوبل وارمنگ کا اُس کے ذمہ دار بھی آپ ہی کے قبیلے کے لوگ ہیں جو صرف ترقی اور خاتمہ غربت کا شور مچاتے ہیں لیکن فی ا لواقع ترقی کے نام پر قدرتی وسائل کو برباد کر رہے ہیں اور غربت کے بجائے غریبوں ہی کے خاتمے کے درپے ہیں ۔ عوام کی حکومت ،لوک شاہی اور جمہوریت کے نام پر آپ صرف دنیا بھرمیں’’ جمہوریت جمہوریت کا کھیل کھیلتے ہیں ‘‘ اور اُن تمام آمروں ،ڈکٹیٹروں ،ملوکوں ،بادشاہوں ،اور شہنشاہوں کی سرپرستی فرماتے ہیں جو آپ کے تابع فرمان ہوتے ہیں اور صرف اُنہی کو صفحہ ہستی سے مٹاتے ہیں جو آپ کی فرماں روائی سے باہر نکلنے کی جسارت کرتے ہیں ۔ اور جب کسی ملک کے عوام آپ کے کسی غلام بادشاہ کا تختہ الٹ دیتے ہیں تو آپ اِس طرح اُس کو بھول جاتے ہیں جیسے کبھی جانتے ہی نہ تھے !صدام ،قذافی اور رضا پہلوی آپ کے جھوٹ اور منافقت کی بہترین مثالیں ہیں !رہا حال کا وہ واقعہ جس پر آپ نے مگر مچھ کے آنسو بہائے ہیں وہ بھی آپ کی مابعد جدید منافقت کی زندہ مثال ہے ۔آپ اپنے اربوں ڈالر کےاسلحے ہی فروخت کرنے تو گئے تھے سو بیچ آئے تاکہ آپ کی اسلحہ انڈسٹری کا پیٹ بھر سکے جو شیطان کے پیٹ کی طرح کبھی بھر تا ہی نہیں۔امید ہے کہ آپ نے اپنے ہی ایک بھائی ڈیوڈ کورٹن کی کتاب’’ دنیا پر کارپوریشنوں کی حکمرانی‘‘ ضرور پڑھی ہوگی جس نے لکھا ہے کہ ’’انہی پالیسیوں نے جو امریکہ تمام دنیا میں رائج کرنے کی کوشش کرتا رہاہے خود اُس کی اپنی سرحدوں کے اندر بھی ایک تیسری دنیا تخلیق کردی ہے جس کی خصوصیات ہیں : امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فرق ، غیر ملکی امداد کی محتاجی ،بگڑتا ہوا تعلیمی نظام ،شیر خوار بچوں کی موت کی شرح میں اضافہ ،بنیادی زرعی اجناس کی بر آمد پر معاشی انحصار ، آخری باقی ماندہ جنگلات کی تباہی ،زہریلے فضلے کے بے تحاشہ انبار اور خاندانوں کا انتشار ۔۔(خود )نیو یارک شہر میں جو امریکی معاشی طاقت کا بڑا مرکز ہے تیسری دنیا کے کسی بھی شہر کی تمام (منفی ) خصوصیات دیکھی جا سکتی ہیں یعنی بے گھر افراد کی ایک بہت بڑی بھٹکتی ہوئی فوج ،مفلوج حکومت اور اندھا دھند تشدد ۔۔ایک طرف چمکتی ہوئی لمبی لمبی گاڑیاں جن میں شراب خانے اور ٹیلی ویژن کی سہولتیں بھی ہوتی ہیں جو اپنے خوش پوش مسافروں کو شاندار اور مہنگے ہوٹلوں کے سامنے اتارتی ہیں اور دوسری طرف بے گھر گداگرجو فٹ پاتھوں پر (اور پلوں کے نیچے ) سردی سے بچنے کے لیے ایک پتلے سے کمبل میں سمٹے سمٹائے پڑے ہوتے ہیں ۔‘‘ ڈیوڈ کورٹن کی یہ کتاب ۱۹۹۵ میں شایع ہوئی تھی ۔گزرے ہوئے ان بائیس برسوں میں دنیا کی حالت سدھرنے کے بجائے مزید بگڑ چکی ہے کیونکہ مٹھی بھر قارونی حکمرانوں کا تکبر ، اسراف اور تعیش دنیا کے غریبوں کا بھلا کرنا ہی نہیں چاہتا ۔
اس لیے محترمہ اسکالر صاحبہ! آپ کے لیے بہتر یہ ہے کہ مسلم دنیا کے بادشاہوں کے اسراف اور عوام کی غربت اور خانہ جنگیوں پر ٹَسوِے بہانے کے بجائے پہلے اپنے گھر کی خبر لیجے اور حق و باطل کی تلبیس اور منافقت سے پیچھا چھڑائیے ۔رہے یہ مُسرِف ،مُترِف ،متکبر اور احمق حکمراں تو وقت کا کوڑا ان کے پیچھے لگا ہوا ہے وہ بہت جلد تاریخ کے کوڑے دان کا رزق بننے والے ہیں کیونکہ دنیا کے سبھی ظالمین بہت جلد اپنے عبرت ناک انجام خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے ! انشاء اللہ ۔