-
لبنان کے انتخابات پر ایک نظر
- سیاسی
- گھر
لبنان کے انتخابات پر ایک نظر
1284
M.U.H
09/05/2018
0
0
تحریر: عرفان علی
لبنان کے پارلیمانی انتخابات اتوار 6 مئی 2018ء کو منعقد ہوئے، جس میں لبنان کے ذرائع ابلاغ، جماعتوں اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے جمع کردہ اور اعلان کردہ اعداد و شمار کے مطابق حزب اللہ اور اس کے اتحادی کل 128 نشستوں میں سے 67 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے سادہ اکثریت حاصل کرچکے ہیں۔ ان انتخابات پر سحر اردو نیوز چینل کے سیاسی ٹاک شو انداز جہاں میں اظہار خیال کی دعوت ملی، جہاں تہران اسٹوڈیو میں میزبان علی عباس رضوی اور تجزیہ نگار گلشن عباس نقوی صاحبان براجمان تھے۔ دو حصوں میں وہاں ان انتخابات پر اس ناچیز نے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ البتہ اس مقالے میں ایسی معلومات شامل کرنا چاہتا ہوں، جس سے لبنانی سیاست اور انتخابات میں دلچسپی رکھنے والوں کو وہاں کی صورتحال سمجھنے میں مدد ملے گی۔ حزب اللہ کی وجہ سے پوری دنیا میں اس کے حامی و مخالفین یہاں کی سیاست اور خاص طور پر انتخابات میں بہت ہی زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی یہ دیکھا گیا کہ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز لبنان تھا۔ عرب ملک لبنان بحر متوسط کے کنارے پر واقع ہے، جو ایک طرف سے شام اور دوسری جانب سے فلسطین اور جعلی ریاست اسرائیل سے ملا ہوا ہے اور اس جعلی ریاست نے لبنان کے بعض علاقوں پر ناجائز تسلط بھی جما رکھا ہے۔ لبنان کے آٹھ صوبے ہیں۔ وہاں صوبوں کو محافظات کہا جاتا ہے۔ اضلاع کی تعداد چھبیس ہے۔ ضلع کو فضا کہتے ہیں۔ انتخابات کے حلقوں کو پندرہ انتخابی اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا اور ان اضلاع کو مزید ستائیس ذیلی اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا۔
لبنان کی آبادی ساٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ کل ووٹرز کی تعداد کم و بیش چھتیس لاکھ ہے۔ دیگر ممالک میں آباد لبنانیوں میں نو لاکھ ووٹرز میں سے رجسٹرڈ صرف 83 ہزار ہیں۔ لبنان کی پارلیمنٹ جسے مجلس النواب کہا جاتا ہے، اس کے اراکین کی کل تعداد 128 ہے، جس میں 64 مسلمان اور 64 مسیحیوں کے لئے مخصوص ہیں۔ مسلمانوں کو اکثریت میں ہونے کے باوجود فیصدی اعتبار سے کم نمائندگی دی گئی ہے اور اس کا سبب 1943ء کا قومی معاہدہ اور 1989ء کا طائف معاہدہ (الاتفاقیہ الطائف) ہے کہ جس میں دینی و مسلکی بنیادوں پر شراکت اقتدار کو برقرار رکھا گیا، یعنی صدر مارونی مسیحی، وزیراعظم سنی عرب اور اسپیکر اثناء عشری شیعہ ہوگا۔ مسلمانوں کے لئے زیادہ آبادی کے باوجود صرف 64 نشستیں مخصوص رکھی گئیں، جن میں سنی و شیعہ مسلمانوں کے لئے 27، ستائیس، علویوں کے لئے 2 اور دروزی فرقے کے لئے 8 نشستیں مخصوص کی گئیں ہیں۔ مسیحیوں کی 64 نشستوں میں مارونی مسیحیوں کے لئے 34 نشستیں رکھی گئیں ہیں۔ مشرقی آرتھو ڈوکس کے لئے 14، اسی طرح آرمینیائی مسیحیوں کی دو شاخوں کے لئے بالترتیب پانچ اور ایک، پروٹسٹنٹ اور مسیحی اقلیتی گروہ کے لئے ایک ایک نشست مخصوص ہے۔ یہ تفصیلات سمجھے بغیر لبنان کے مسائل اور رجحانات کو سمجھا نہیں جاسکتا۔ شراکت اقتدار کا فارمولا غیر عادلانہ ہے۔ آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کی غالب اکثریت ہے اور مسلمانوں میں شیعہ سنگل لارجیسٹ اکثریت ہے۔ کل آبادی میں بھی شیعہ ہی سنگل لارجیسٹ میجارٹی ہیں۔ لیکن اس موضوع پر ہم ماضی میں لکھ چکے ہیں، اس لئے فی الحال اس نکتے کی تکرار سے گریز کرتے ہوئے دیگر پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔
جیسا کہ عرض کیا کہ پندرہ انتخابی اضلاع میں حلقے تقسیم کئے گئے تھے۔ جیسے بیروت ایک انتخابی ضلع میں کل آٹھ نشستوں کے لئے مقابلہ تھا، بیروت دو سے 11 نشستوں، بعلبک ھرمل سے 10 نشستوں، عکار سے7، بشری، زغرتا، بترون اور کورہ پر مشتمل ایک انتخابی ضلع سے 10 نشستوں، طرابلس و منیہ و دانیہ سے 11، جبیل و کسروان سے 8 نشستوں، نبطیہ، مرجعیون، بنت جبیل و حاصبیہ پر مشتمل ایک انتخابی ضلع سے 11 نشستوں کے لئے، مغربی بقاع و راشیا سے 6 نشستوں کے لئے، زحلہ سے7، عالیہ و شوف سے 13، متن سے 8، صیدون یا صیدا و جزین سے 5، زھرانی و صور سے7 اور بعبدا سے لبنانی پارلیمنٹ کی 6 نشستوں کے لئے مقابلہ تھا۔ نبطیہ کے ووٹرز میں تقریباً 94 فیصد شیعہ ہیں، بنت جبیل میں 87 فیصد اور مرجعیون و حاصبیہ میں 58% شیعہ ووٹرز ہیں۔ ان علاقوں پر مشتمل اس ایک انتخابی ضلع سے حسن فضل اللہ، محمد رعد، علی فیاض، ھانی قبیسی، علی حسن خلیل، علی بزی، ایوب حمید(Hmayyed)، یاسین جابر، انور خلیل اور قاسم ہاشم کامیاب ہوئے ہیں۔ ان میں محمد رعد حزب اللہ کے پارلیمانی بلاک کے معروف ترین چہرے اور پارلیمانی گروہ کے سربراہ ہیں جبکہ دیگر بھی مشہور و معروف ہیں۔ لبنان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری زھرانی و صور کے انتخابی ضلع سے جیت چکے ہیں، جہاں سے دیگر کامیاب امیدوار نواف ال موسوی، حسین جیشی، عنایہ عز الدین، علی خریس، میشال موسیٰ اور علی عسریان ہیں۔
یاد رہے کہ تناسب کے لحاظ سے صور میں کل ووٹرز کا 84 فیصد شیعہ ہیں، جبکہ زھرانی میں ان کا تناسب کل کا 51 فیصد بنتا ہے۔ شیعہ نشین علاقوں میں بعلبک ھرمل میں شیعہ ووٹرز 72% سے زائد ہیں۔ آخری دو انتخابی اضلاع میں چھ چھ نشستیں شیعہ مسلمانوں کے لئے مخصوص تھیں جبکہ کل تعداد پہلے تحریر کرچکے ہیں اور یہ ان کامیاب امیدواروں کے نام ہیں، جن کا اعلان وزیر داخلہ نھاد مشنوق نے پریس کانفرنس میں کیا ہے اور خود انکا تعلق سعد حریری کی جماعت المستقبل سے ہے اور یہ خود بھی اپنی جماعت کے سربراہ سمیت انتخابی ضلع بیروت 2 کامیاب ہوچکے ہیں اور اسی ضلع سے سابق وزیر اعظم تمام سلام بھی جیتے ہیں۔ دروزیوں کا معروف چہرہ ولید جنبلاط ہیں، انکا بڑا بیٹا تیمور جنبلاط انتخابی ضلع شوف و عالیہ سے کامیاب ہوا ہے۔ بیروت دو انتخابی ضلع سے دو شیعہ نشستوں کے لئے اور بعبدہ سے دو شیعہ نشستوں کے لئے حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے چار امیدوار جیت گئے ہیں۔ مختصر یہ کہ حزب اللہ اور نبیہ بری کی حرکت امل کے انتخابی امیدوار کل ستائیس شیعہ نشستوں میں سے چھبیس پر کامیاب ہوچکے ہیں۔ وہ اور انکے اتحادی 67 نشستوں پر کامیاب ہوکر لبنانی پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت حاصل کرچکے ہیں۔ پچھلے انتخابات میں انکی تعداد 57 تھی، جبکہ سعد حریری کی تیار المستقبل نامی جماعت جو پچھلے انتخابات میں 33 نشستوں سے جیتی تھی، اب بقول سعد حریری کے 21 نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے، جبکہ طرابلس جو انکی جماعت کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا، وہاں سے ان کے مخالف ار سابق وزیراعظم نجیب میقاتی جیت چکے ہیں۔ بعلبک ھرمل سے حزب اللہ کے کامیاب امیدوار جمیل السید لبنان کی سیاست کے ہیوی ویٹ ہیں۔
گو کہ حزب اللہ کا انتخابی اتحاد سادہ اکثریت حاصل کرچکا ہے، لیکن مسیحی مارونی صدر میشال عون کی جماعت فری پیٹریاٹک موومنٹ کے مقابلے میں سمیر جعجع کی قوات اللبنانیہ نے ماضی کی نسبت اپنی حیثیت مستحکم کی ہے۔ وہ ماضی میں اسرائیل کی نیابتی جنگ لڑتے رہے ہیں۔ لیکن حتمی نتائج کے بعد پتہ چلے گا کہ وہ کتنے پانی میں ہیں، کیونکہ ابھی عکار کے نتائج نامکمل ہیں جیسا کہ وزیر داخلہ نھاد مشنوق نے پیر کے روز پریس کانفرنس میں کہا ہے۔ البتہ سمیر جعجع کے لئے یہی ذلت کافی ہے کہ انہوں نے بعلبک ھرمل میں حزب اللہ کے خلاف تاریخی بغاوت اور شیعوں کے اندر سے حزب اللہ کی مخالفت کے دعوے اور پیشن گوئیاں کی تھیں، جو سب کی سب ناکام ہوگئیں اور حزب اللہ نہ صرف خود بلکہ اپنے پورے اتحاد کے ساتھ سمیر جعجع اور اس کے دیگر اتحادیوں کے مقابلے میں پہلے سے زیادہ اکثریت سے کامیاب ہوئی ہے۔ لبنان کے عوام نے دنیا کے سامنے ایک پیغام نشر کر دیا ہے کہ وہ حزب اللہ کے ساتھ ہیں، لبنان کے قومی دفاع و سلامتی کے لئے حزب اللہ کی مقاومت اور اسلحے کے استعمال کے حامی ہیں۔ اس پیغام سے لبنان کے عوام نے امریکی سعودی، صہیونی و اماراتی اتحاد کو دندان شکن جواب دیا اور انتخابی نتائج کے ذریعے یہ پروپیگنڈا مسترد کر دیا کہ لبنان کا شام جا کر لبنان کے دفاع کی جنگ لڑنا غلط ہے یا ایران یا شام کی نیابتی جنگ ہے۔ انہوں نے امریکی بلاک کے مقابلے میں مقاومتی بلاک کی نہ صرف لبنان کی داخلی سیاست بلکہ علاقائی سیاست کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ یہ حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کی سیاسی فتح ہی نہیں بلکہ اخلاقی فتح بھی ہے اور پوری لبنانی قوم کی عظیم قومی کامیابی ہے۔
حزب اللہی اتحاد نے نہ صرف لبنان کی داخلی سیاست میں بلکہ علاقائی سیاست میں طاقت کا توازن تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ امریکی، صہیونی، سعودی و اماراتی اتحاد نے مقاومتی بلاک کے خلاف نئی اور براہ راست جنگ کی جو سازش کرر کھی تھی، اس کے پہلے مرحلے کو لبنان کے عوام نے ناکام کیا ہے۔ دوسرا مرحلہ عراق کا الیکشن ہے اور عراق کے غیرتمند بیٹے لبنان کے غیرت مند فرزندوں کی مانند وہاں بھی عرب اور مسلمان دشمن امریکی بلاک کو شکست فاش دینگے، ان شاء اللہ۔ اور پھر رہ جائے گا ٹرمپ کا ایران نیوکلیئر ڈیل سے دستبرداری کا اعلان، لیکن جب عراق و لبنان میں انکے پٹھو خود ہی کمزور ہوچکے ہوں گے تو امریکی بلاک نے اب تک جو مستقبل کے منظرنامے کی کیلکیولیشن کر رکھی تھی، وہ سب تو ابتر ہوچکی ہوگی، جیسے لبنان میں ہوچکی، تو ان سازشوں پر عمل کرنا ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہو جائے گا۔ ویل ڈن لبنان تم نے کر دکھایا! ویل ڈن حزب اللہ کہ تم نے اس کامیابی کو پوری ملت لبنان کی کامیابی قرار دیا اور لبنان کے قومی دفاع و سلامتی اور سوشیو اکنامک ڈیولپمنٹ کے دو نکاتی ایجنڈا کے تحت لبنان کو بحرانوں سے نکالنے کا اعلان کیا۔ یہ ایجنڈا ہی ملت لبنان کی نجات کا ایجنڈا ہے۔
بشکریہ : ابلاغ