-
سی اے اے مخالف مظاہروں میں حکومت کے لیے سبق
- سیاسی
- گھر
سی اے اے مخالف مظاہروں میں حکومت کے لیے سبق
216
M.U.H
14/03/2024
0
0
تحریر: شکیل رشید
سی اے اے کے جِن نے بوتل سے باہر نکلتے ہی احتجاجات اور مظاہروں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع کروا دیا ہے ۔ اور یہ احتجاجی مظاہرے مسلمانوں کی طرف سے ہی نہیں ہیں، اِن میں برادران وطن پیش پیش ہیں ، طلباء بڑی تعداد میں سڑکوں پر اتر پڑے ہیں ۔ ریاست آسام مظاہروں کا مرکز ہے ، وہاں تیس سے زائد تنظیمیں احتجاج میں شامل ہیں ، انہوں نے بند کا اعلان کر رکھا ہے ۔ انڈین یونین مسلم لیگ نے سی اے اے کے خلاف ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے ، جو ایک درست قدم ہے ۔ کئی ریاستوں ، جیسے کہ تمل ناڈو ، کیرالہ ، مغربی بنگال اور ہماچل پردیش نے باقاعدہ سی اے اے کے نفاذ سے ، مرکزی حکومت پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے ، انکار کر دیا ہے ۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے سی اے اے کے خلاف سخت ترین لہجہ اپنایا ہے ، انہوں نے یہ تک کہہ دیا ہے کہ یہ قانون بنگال کو تقسیم کرنے کی سازش ہے اور بنگال میں کسی کی بھی شہریت ختم ہونے نہیں دی جائے گی ۔ ملّی قائدین نے بھی ایک مشترکہ بیان جاری کرکے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سی اے اے فوری طور پر واپس لیا جائے کیونکہ یہ قانون ملک کے آئین میں درج مساوات اور سیکولرزم کے اصولوں کے خلاف ہے ۔ ملی قائدین نے اس قانون کے نفاذ کے فیصلے کو ناپسندیدہ اور قابل مذمت قرار دیا ہے ، اور یہ فیصلہ ہے بھی ناپسندیدہ اور قابل مذمت ۔ احتجاجی مظاہرے پُرتشدد تو نہیں رہے لیکن یہ پُرتشدد ہو سکتے ہیں ۔ احتجاج کے دوران کیرالہ میں ٹرینیں روکی گئیں اور آسام میں وزیراعلیٰ ہمنتا بِسوا سرما کے پُتلے نذرِ آتش کیے گیے ۔ ظاہر ہے کہ ٹرینیں روکنے کا اور کسی وزیراعلیٰ کے پُتلے نذرِ آتش کرنے کا عمل سیکیورٹی عملے اور پولیس کی طرف سے ردعمل کا سبب بن سکتے ہیں ۔ مزید یہ کہ طلباء کو پریس کانفرنس کرنے سے روکا گیا ہے ، طلباء اور بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کے درمیان رسہ کشی بڑھنے کا خدشہ ہے ۔ دارالحکومت دہلی میں شاہین باغ کے اطراف سیکوریٹی بڑھا دی گئی ہے ، حکومت کو یہ لگ رہا ہے کہ کہیں شاہین باغ کا سی اے اے مخالف مظاہرہ پھر نہ شروع کر دیا جائے ۔ یہ سی اے اے کا جو جِن بوتل سے باہر نکالا گیا ہے ، یہ آسانی کے ساتھ واپس بوتل میں نہیں جائے گا ، بلکہ یہ ملک بھر میں افراتفری مچائے گا اور ملک میں نفرت کی نئی لہر پھیلائے گا ، جیسا کہ ممتابنرجی ، اسٹالن اور دیگر سیاست دانوں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے ۔ خطرہ ہے کہ عوامی احتجاج کو کچلنے کے لیے سخت طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے ، آسام کے وزیراعلیٰ سرما نے اس کا انتباہ دے بھی دیا ہے ، انہوں نے سیاسی پارٹیوں کو بھی یہ دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے بند کرانے کی کوشش کی تو ان کی پارٹی کو الیکشن لڑنے سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے ۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک کہلاتا ہے ، اور ہر اس ملک میں جِسے جمہوری کہا اور مانا جاتا ہے لوگوں کو حکومت کے اور حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کا ، مظاہروں کا اور بند کا حق حاصل ہوتا ہے ، لیکن ہندوستان میں اب یہ سب حقوق چھینے جا رہے ہیں ۔ سی اے اے کے خلاف جب شاہین باغ کا مثالی احتجاج شروع ہوا تھا تو ملک کے آج کے وزیرداخلہ امیت شاہ وہاں تک ’ بجلی کا زوردار کرنٹ پہنچانے ‘ کا نعرہ لگا رہے تھے ، اور ان کے وزراء شاہین باغ سمیت ہر احتجاجی مظاہروں کو بزور طاقت اکھاڑ پھینکنے کی باتیں کر رہے تھے ، اور اسی لیے دہلی کو فسادات کے حوالے کیا تھا ۔ اترپردیش ( یو پی ) میں وہاں کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے جس طرح سی اے اے مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا تھا ، لوگوں نے اسے بھی خوب دیکھا ہے ۔ بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی نظر میں ہر طرح کا احتجاج اور مظاہرہ ’ قوم دشمنی ‘ ہے ۔ یہ جو چشمہ بھاجپائیوں نے لگا رکھا ہے ، اس کے آگے نہ جمہوریت ٹھہر پاتی ہے اور نہ ہی سیکولرزم ۔ لیکن یاد رہے کہ احتجاج اور مظاہرے بی جے پی اور اس کے لیڈروں کو اس لیے ناپسند ہیں کہ یہ انہیں ڈراتے ہیں ، لرزاتے ہیں ، اور پریشان کرتے ہیں ، اور یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اگر واقعی عوام اس کے خلاف تَن کر کھڑے ہو گیے تو کیا ہوگا ! وہ سی اے اے کے مظاہرین سے اسی لیے خوف زدہ ہیں ۔ لیکن یہ سب کیا دھرا تو اِن کا ہی ہے ، نہ یہ آئین مخالف سی اے اے لاتے نہ ملک کے لوگ اس کے خلاف کھڑے ہوتے ۔ ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت ان مظاہروں سے سبق لے ، اور سی اے اے کی غلطی کو سدھار لے ، بصورت دیگر عوامی احتجاج اگر تیز ہوا ، اور پولیس نے طاقت کا استعمال کیا اور عوامی جان و مال کا نقصان ہوا ، تو اس کی قصوروار حکومت ہی ہوگی ۔