-
بہتر مستقبل کے لئے مدارس کی تشکیل نوضروری
- سیاسی
- گھر
بہتر مستقبل کے لئے مدارس کی تشکیل نوضروری
280
M.U.H
24/04/2024
0
0
تحریر: عادل فراز
عدالت عظمیٰ نے اترپردیش مدرسہ بورڈ ایکٹ کو کالعدم قراردینے کے الہٰ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عبوری روک لگاتے ہوئے کہاکہ معیاری تعلیم کی فراہمی کے لئے مدرسہ بورڈ ایکٹ کو ختم کرنا ضروری نہیں ہے ،بلکہ اسکے لئے مناسب ہدایات جاری کی جائیں تاکہ طلبامعیاری تعلیم سے محروم نہ رہیں ۔عدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ عدالت نے مدرسہ بورڈ ایکٹ کی دفعات کو سمجھنے میں غلطی کی ،کیونکہ مدرسہ بورڈ ایکٹ کا مقصد ریگولیٹری نوعیت کاہے ۔یعنی عدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹ کوآئینہ دکھلایاہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح یہ فیصلہ انتہائی عجلت میں دیا گیا بلکہ یوں کہاجائے کہ حکومت کے اشارے پر مدرسوں کو ختم کرنے کی سازش کی گئی ۔اترپردیش سرکار کا اولین ہدف یہ ہے کہ مدرسوں کو ختم کرکے ان کی عمارتوں کو تحویل میں لے لیاجائے ۔دوسرا ہدف یہ ہے کہ مسلمانوں کو بنیادی اور آسان تعلیم سے محروم کردیاجائے ،کیونکہ مسلمانوںکا وہ طبقہ جو اپنے بچوں کو عصری تعلیم نہیں دلواسکتا،مدرسوں سے مراجعہ کرتاہے ۔تیسرا بڑا مقصد اردو زبان پر قدغن لگانا تھاکیونکہ اردوزبان کی بقااور فروغ میں مدارس کے کردار کوفراموش نہیں کیاجاسکتا۔عصری تناظر میں تو یہ کہاجاسکتاہے کہ اردو ،عربی اور فارسی کی بقا مدرسوں کی مرہون منت ہے ۔اس کے علاوہ سرکار کے دیگر اغراض و مقاصد بھی رہے ہوں گے ،جن پر امتداد وقت کے ساتھ گفتگوہوتی رہے گی ۔لیکن عدالت عظمیٰ نے یہ ثابت کردیاکہ ہائی کورٹ کا فیصلہ عجلت پسندانہ اور غیر منصفانہ تھا۔
عدالت عظمیٰ کے اس مؤقف نے مدرسہ کے اساتذہ اور طلباکو بڑی راحت دی ہے جو ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد سکتے میں تھے ۔خاص طورپر مدرسے کے اساتذہ جنہیں اپنی روزی کے چھن جانے کا ڈر ستارہاتھا ۔ انہیں یہ معلوم ہوناچاہیے کہ سرکار اس طرح ان کی ملازمت نہیں چھین سکتی کیونکہ وہ ایک قانونی ضابطے اور اصول کے تحت مقرر ہوئے ہیں ۔البتہ یہ ممکن ہے کہ سرکار اساتذہ کے لئے کسی خصوصی امتحان میںکامیابی کو لازمی قراردیدے،جس طرح دیگر معاملات میں دیکھاگیاہے ۔دوسرے انہیں یہ اطمینان رکھنا چاہیے کہ مدرسہ بورڈ ایکٹ مدارس کا قائم کردہ نہیں ہے بلکہ اس کو سرکار نے تشکیل دیاہے ۔اگر سرکار یا عدلیہ کسی بھی بورڈ ایکٹ کو ختم کرتی ہے ،تو اس میں ملازمین کی غلطی نہیں ہے بلکہ یہ سرکار کا مسئلہ ہے ۔اگر مدرسہ بورڈ ایکٹ کاقیام غلط تھاتو یہ سرکار کی غلطی تھی نہ کہ مدارس اور اساتذہ کی ۔اس لئے ہائی کورٹ کا فیصلہ بادی النظر میں غلط بنیادوں پر دیاگیا تھا،جس کی عدالت عظمیٰ میں سرزنش بھی ہوئی ۔اگر اس ایکٹ کو ختم کرنا ضروری ہے تو متبادل نظام کو متعارف کروانا بھی سرکار کی ذمہ داری ہے ۔ایسانہیں ہوسکتاکہ سرے سے ایک نظام کو معطل کردیاجائے اور دوسرا متبادل نظام بھی متعارف نہ کروایاجائے۔
ایک نہایت اہم مسئلہ اساتذہ کی تربیت اور طریقۂ تدریس سے مربوط ہے ۔اساتذہ کو اپنے رویّے میں تبدیلی لانا ہوگی ۔کہیں ایسانہ ہوکہ ایسے نازک موڑ پر ملت بھی ان کا ساتھ چھوڑدے ۔انہیں معیاری تدریس پر توجہ دینا ہوگی ۔کیونکہ اکثر مدارس میں اساتذہ تساہل اور غفلت کا شکار ہیں ۔انہیں طلباکے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہوتی اور نہ وہ ان کی تربیت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں ۔اگروہ سرکار سے تنخواہیں لیتے ہیں تو ا نہیں اس کا حق بھی اداکرنا چاہیے ۔دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ سرکار کو مدارس کے اساتذہ کے لئے تربیتی کورسیز کو متعارف کرانا چاہیے ،کیونکہ انہیں جدید طریقۂ تدریس کے بارے میں بالکل علم نہیں ہے ۔ تیسرا نکتہ مدارس کے ذمہ داروں سے مربوط ہے ۔انہیں اب یہ احساس ہورہاہوگا کہ مدرسوں کو سرکاری امداد یافتہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ان کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے قومی میراث کوسرکار کے حولے کردیا۔اگر مدرسہ بورڈ ایکٹ کاالعدم قراردیدیاگیاتو مدرسوں کی تمام عمارتیں سرکارکی تحویل میں چلی جائیں گی ،جس کا نقصان مدرسوں کے ذمہ داروں کےبجائے براہ راست ملت کو ہوگا۔اپنے عزیزو اقارب کو سرکاری ملازمتیں دلوانے سے بہترہے کہ مدرسوں کی فلاح وبہبود پر توجہ دی جائے اور نظام تعلیم کو بہتر بنایاجائے ۔اساتذہ کی تقرری میں لیاقت اور صلاحیت کوترجیح دی جائے ،اقرباپروری کو نہیں!
ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد یوگی سرکار بھی عجلت میں نظر آرہی تھی جبکہ پارلیمانی انتخاب کے پیش نظر ضابطۂ اخلاق نافذ ہے ۔چیف سکریٹری اور ضلع مجسٹریٹ مدرسوں کو مقفل کرنے کی فکر میں تھے ۔خاص طورپر لکھنؤ میں دیکھاگیاکہ ضلع مجسٹریٹ نے مدرسوں کو انتخابی نتائج تک بند رکھنے کی ہدایت جاری کردی تھی ،البتہ تحریری طورپر کوئی حکم جاری نہیں کیاگیا۔چیف سکریٹری نے اس سلسلے میں متعلقہ افسران کے ساتھ تبادلۂ خیال کیااور کہاوہ عدالت کے فیصلے کو نافذ کرنے کے تئیں پرعزم ہیں ۔اس کے باجود جب انہیں یہ احساس ہواکہ اہل مدرسہ عدالت عظمیٰ کا رخ کریں گے تو سرکار نے کیویٹ داخل کرکے معاملے کو مزید الجھانے کی کوشش کی ۔اس سے سرکار کی نیت بھی واضح ہوجاتی ہے ۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے ایک بیان میں کہاتھاکہ مدرسے قانون کے تحت چلیں گے شریعت کے تحت نہیں !مدرسوں کے تئیں ان کا یہ انداز کوئی نیا نہیں ہے ۔کیونکہ بی جے پی کے اکثر لیڈر اسی ذہنیت کے حامل ہیں ۔وہ مدرسوں کو دہشت گردی کا مرکز سمجھتے ہیں اور انہیں بندکرکے مسلمانوں پر اپنی برتری ثابت کرنا چاہتےہیں ۔یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند کی معمولی سے معمولی فعالیت پر بھی نگاہ رکھی جارہی ہے۔بعض ایسے مسائل جن کا سرکار سے کوئی تعلق نہیں ہے ،ان میں بھی مداخلت کی جارہی ہے ۔ورنہ جن بنیادوں پر دارالعلوم دیوبند کے خلاف ضلع انتظامیہ اور زعفرانی آلۂ کار متحرک ہیں ،دیگر مذاہب کے تعلیمی ادارے ان مسائل سے عاری نہیں ہیں ۔یرقانی تنظیموں کے کارکنان اکثر کہتے نظر آجاتے ہیں کہ مدرسے دہشت گردی کا مرکز ہیں ،کیا ان کے بیانات پر کوئی کاروائی ہوتی ہے ؟ آخر ہماری قومی ایجنسیوں نے کب مدرسوں سے دہشت گردوں کو گرفتارکیاتھا؟اور کون سا مدرسہ مشکوک سرگرمیوں میں ملوث پایاگیا؟اترپردیش سرکار نے مدارس کی جانچ کا حکم جاری کیاتھا ۔اس جانچ کی رپورٹ سرکار کے سامنے پیش کردی گئی لیکن جب جانچ میں زیادہ کچھ نہیں ملاتو نیپال کی سرحد پر واقع مدارس کی فنڈنگ کو مشکوک دائرے میں رکھنے کی کوشش کی گئی ۔اس پر بھی جب زیادہ بس نہیں چلا تو عدلیہ کے ذریعہ مدرسہ بورڈ ایکٹ کو ختم کرکے اپنی شکست خوردہ ذہنیت کو تسلی دینے کی کوشش کی گئی ۔لیکن کیا مدرسوں کو ختم کرنا اتنا آسان ہے ؟ ممکن ہے سرکار مدارس کو بند کرنے میں کبھی کامیاب بھی ہوجائے لیکن مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی کی تعلیم سے محرومی اور ان کی پسماندگی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سرکاری امداد کے بجائے اپنے خودکفیل ادارے قائم کریں ۔زکات اور دیگر شرعی رقوم کا صحیح استعمال کریں ۔رقوم شرعیہ کی جمع آوری اور خرچ میں شفافیت لانے کی کوشش کی جائے کیونکہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے الگ سے بجٹ مختص کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کے پاس شرعی نظام موجود ہے جس پر صحیح عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔
مسلمانوں کے لئے خوش آئند خبرہے کہ عدالت عظمیٰ نے فی الوقت مدرسوں کو راحت دی ہے لیکن اگر وہ منظم لایحۂ عمل ترتیب نہیں دیں گے اور اسی طرح سرکاروں کے رحم وکرم پر جینے کو ترجیح دیتے رہے ،تو ان کا مستقبل خوش آئند نہیں ہوگا۔مدرسوں کو خودکفیل بنانے کی کوشش کی جائے اور سرکاری امداد سے ہاتھ اٹھالیاجائے ۔مدرسے ہمیشہ قومی تعاون سے چلتے رہے ہیں اور آئند ہ بھی چلیں گے ،لیکن اہل مدرسہ اپنی نیت میں اخلاص پیداکریں اور امور مالی میں شفافیت لائی جائے ۔ مدرسوں کی آزاد اور خودمختار کمیٹیاں قائم کی جائیں تاکہ موروثی نظام کا خاتمہ ہوسکے ۔جب تک مدارس میں موروثی نظام رائج ہے اس وقت تک ان کی تشکیل نو ممکن نہیں ہے ۔ساتھ ہی مروجہ نظام تعلیم کی اصلاح کرکے اس کو معاصر تقاضوں سے ہم آہنگ بنایاجائے ،تاکہ کسی کو مدارس پر انگشت نمائی کا موقع نہ مل سکے ۔کہیں ایسی صورت حال رونما نہ ہوکہ مدرسے بندکئے جارہے ہوں اور قوم خوشیاں منارہی ہو۔خداکرے کہ یہ صورت حال کبھی پیش نہ آئے۔