عالم نقوی
ہمارے ساتھ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ایک طرف ہماری بد اعمالیوں ،بےاعتدالیوں اور انتہا پسندیوںکا نتیجہ ہے تودوسری طرف ہماری حد درجہ بے حسی و بے عملی کا خمیازہ۔ برہان فتح محمد(۱) کے دل کا یہ درد ہمارا بھی ہے کہ ہمیں اپنے مدارس سے کثیر تعداد میں ایسے فارغین نہیں ملتے جوہر طرح کے تعصب اور تنگ نظری سے پاک ہوں جو اختلافات میں اُلجھاتے نہ ہوں ،جو اسلام کے سبھی مراجع سے اعلیٰ ظرفی اور کشادہ دلی سے استفادہ کرتے ہوں اور وسعت نظری سےمکمل اسلام کے ضابطہ حیات کی ترجمانی پر قادر ہوں ،جو دوسروں کی آرا کے بھی قدر داں ہوں اور جن کے دم سے مسالک نہیں ،اسلام پروان چڑھے !ہماری کوششیں اس وقت تک بار آور نہیں ہوں گی جب تک کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہمارے طلبا کی ایسی کھیپ بر آمد نہ ہو جو اپنی صحیح اسلامی فکر کے ساتھ اپنے سبجکٹ کے بھی ماہر ہوں ۔ ان کی مہارت دوسروں سے افضل اس لیے ہونی چاہیے کہ وہ ’علم نافع ‘ کے امین ہیں ۔بنی نوع انسان اور انسانیت کے لیے غیر مفید اور غیر نفع بخش علم کا اسلام دین ا للہ سے کوئی واسطہ نہیں ،یہی ہماری پہچان ہے ۔جو علم ،اور جو تعلیمی ادارے ہمارے اہل علم و دانش کو اس شناخت سے محروم کریںوہ نہ صرف اُمت کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے آخری حد تک مضر ت رساں ہیں۔ایٹم اور ہائڈروجن بم نیز کیمیائی اور عظیم و کثیر تباہی والے سبھی ہتھیارWMD,s اسی علم ِغیر نافع یا علم کے غیر مفید استعمال کا شاخسانہ ہیں،اسلام جس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا ۔
برادرم جوہر جاوید فلاحی کا یہ مشورہ صائب ہے کہ علمائے کرام کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ ملت کے اجتماعی شعور کو زندہ کریں اور اہل ثروت میں یہ شعور پیدا کریں کہ وہ اپنے مال کا بڑا حصہ عبادت گاہوں کی غیر ضروری اور اسراف کی حد میں آنے والی تزئین و آرائش پر صرف کرنے اور ایک بار فریضہ حج و عمرہ کی ادائگی کے بعد ہر سال نفلی حج اور نفلی عمرہ کرنے اور ہر سال عتبات عالیات کی زیارت کرنے میں نہیں بلکہ ملت کی علمی وتعلیمی ترقی ،علمی میدان میں عصری ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے تحقیق مسلسل اور ملت کے عظیم تہذیبی و ثقافتی ورثے کے تحفظ پر صرف کریں ۔یہ سبھی کام اُن بہت سارے دینی کاموں سے بہتر ہیں جن پر ثواب کا وعدہ اگر ہے بھی تو وہ ثواب جاریہ کے زمرے میں نہیں آتے ۔لیکن نافع علم کے سیکھنے اور سکھانے میں صرف ہونے والا مال وہ صدقہ جاریہ ہے جو قیامت تک خرچ کرنے والے کو فائدہ پہنچاتا رہے گا ۔
ایک بزرگ نے لکھا ہے کہ ’کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک عمل کسی وقت افضل ہے لیکن وہی عمل کسی دوسرے وقت کمتر ہو جاتا ہے ۔ایک ہی عمل کسی وقت قابل ترجیح ہوتا ہے تو کسی دوسرے وقت مطلق ناقابل ترجیح ۔ لیکن بے علم اور کم علم لوگ دونوںمیں فرق نہیں کر پاتے اور اہل علم انہیں بتاتے نہیں ۔ لوگ مسجدوں سے بھرے ہوئے شہر میں بھی کسی نئی مسجد کی تعمیر کے لیے یا کسی پرانی مسجد کی غیر ضروری تزئین جدید کے لیے لاکھوں روپئے ذوق و شوق سے صرف کر ڈالتے ہیں لیکن اسلام کی دعوت ،کفر و شرک و الحاد کی مزاحمت و مدافعت ،اور علمی ،تحقیقی ، تہذیبی و ثقافتی ورثے کے بقا و تحفظ کے لیے کچھ بھی خرچ کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے (۱)۔
مثلاً علی گڑھ کی ابن سینا اکاڈمی کو مسلمانوں کے کئی ہزار علمی و دینی مخطوطات کےکنزرویشن اور تہذیبی وثقافتی ورثے کےتحفظ کے لیے اور ممبرا (تھانے ۔مہاراشٹر) کے امید فاؤنڈیشن کو غریب و نادار مسلمانوں کے ذہنی ،دماغی اور جسمانی طور پر معذور بچوں کی تعلیم و نگہداشت کے لیے کروڑوں روپئے کی فوری ضرورت ہے لیکن کروڑوں روپئے ہر سال نفلی عمرے پر خرچ کرنے والے اور شادی وقت وغیرہ پر اربوں روپئے کا مطلق اسراف کرنے والے مسلم اہل ثروت کو نہ خود کوئی توفیق ہوتی ہے نہ علما انہیں اس طرف متوجہ کرتے ہیں کیونکہ ان کی اکثریت بھی ،بد قسمتی سے ،علمائے حق کے بجائے علمائے سو کے زمرے میں آتی ہے! ان کے لیے انسانیت کی بقا اور تہذیب کا تحفظ بے معنی چیزیں ہیں
ہم نے من حیث ا لا مت ارض مقدس فلسطین اور دس سال سے غزہ کے محصورین کو تو بھلا ہی رکھا ہے شام و یمن کے لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام اور کروڑوں کی دربدری کی ذمہ داری بھی۔۔ براہ راست یا با لواسطہ۔۔ امت کی خاموشی اور مسلم حکمرانوںکی بے حسی ،بے عملی یا غلط ترجیحات اور اہل ایمان کے دائمی دشمنوں سے دوستی رکھنے ہی پر عائد ہوتی ہے ۔
یہاں تک کہ ہم نے میانمار (برما) کے روہنگیا مسلمانوں کو بھی نام نہاد اہنسا وادی بودھ حکمرانوں کے ناقابل بیان ظلم و تشدد کا نشانہ بننے کے لیے چھوڑ رکھا ہے ۔بودھوں کے برما میں فی ا لوقت مسلمان ہونا ہی سب سے بڑا جرم بنا دیا گیا ہے اور ہم یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ کہ یانگون ، غزہ ،دمشق اور صنعا کا فاصلہ دلی ،ممبئی ،لکھنؤ اور حیدر آباد سے بہت زیادہے !اور یہ بھول گئے ہیں کہ :
چراغ سب کے بجھیں گے ،ہوا کسی کی نہیں ۔اور ۔۔ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات !
ہر طرح کے ظلم اور نا انصافی کے خلاف بنیان مرصوص (سیسہ پلائی ہوئی دیوار ) بن کے کھڑا ہوجانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے اور جو اپنی ذمہ داری سے حسب استطاعت عہدہ بر آ ہونے کی کوشش نہیں کرے گا اور دفاع کے قرآنی اصول و قرآنی PARADIGM (انفال ۶۰)پر اپنے امکان و استطاعت بھر عمل نہیں کرے گااسے یہ نہ بھولنا چاہیے کہ اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی ۔ اور یہ بھی کہ ۔انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ۔۔وان لیس للانسان الا ما سعیٰ !