-
تری پورہ سے پارلیمانی انتخابی مہم کا آغاز
- سیاسی
- گھر
تری پورہ سے پارلیمانی انتخابی مہم کا آغاز
552
m.u.h
11/01/2023
0
0
تحریر:عادل فراز
وزیر داخلہ امیت شاہ نے تری پورہ کی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ یکم جنوری 2024 تک ایودھیا میں رام مندر تعمیر ہوجائے گا۔گویااس اعلان کے ذریعہ وزیر داخلہ نے 2024 کی انتخابی مہم کا صور پھونک دیا ۔پارلمانی انتخابات میں ابھی ایک سال سے زائد کا عرصہ باقی ہے ،اس کے باوجود تری پورہ کی سرزمین سے رام مندر کے افتتاح کا اعلان کرنا یہ ثابت کرتاہے کہ بی جے پی آیندہ انتخابات کو لے کر گھبرائی ہوئی ہے ۔اس کی بنیادی وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ،بے روزگاری اور راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کو مانا جارہاہے ۔مہنگائی اور بے روزگار ی پر حکومت کی عدم توجہی اور ناقص پالیسیوں نے عوام کے ایک طبقے کو بی جے پی سے دور کیاہے ۔یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ طبقہ ووٹ ڈالتے ہوئے بھی بی جے پی سے چشم پوشی کرلے،لیکن فی الوقت عوام اپنے مسائل کے تئیں سنجیدہ اور شدید کسمپرسی کا شکار ہے ۔ راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ نے بھی عوام کو اپنی طرف ملتفت کیاہے ۔راہل نے عوام کےبنیادی مسائل کو عوام کے ہی ذریعہ اٹھانے کی کوشش کی ہے،۔ ان کی یاترا میں ہر طبقے کے افراد شامل ہورہے ہیں ۔خاص طورپر وہ لوگ جو نفرت کی سیاست کے خلاف اور عوام کو درپیش مسائل کے تئیں فکرمندہیں ۔بی جے پی کو قطعی یہ اندازہ نہیں تھا کہ راہل گاندھی اس قدر سلیقے اور سیاسی شعور کےساتھ میدان میں اتریں گے ۔انہوں نے جس سیاسی و سماجی شعور کے ساتھ عوامی مسائل کو اٹھایاہے ،اس نے بی جے پی کو اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظر ثانی کے لئے مجبور کردیا ۔یہی وجہ ہے کہ اصل مسائل پر بحث کے بجائے بی جے پی لیڈر ’ساورکر‘ کی وطن پرستی اور راہل گاندھی کوبھگوا ہیڈ کوارٹر جانے کی صلاح دے رہے ہیں ۔ظاہر ہے ان کے پاس راہل گاندھی کے سوالوں کے اطمینان بخش جوابات نہیں ہیں اس لئے اصل موضوع کو چھپانے یا دبانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
بی جے پی کو یہ یقین ہے کہ وہ اپنی پرفارمنس کی بنیاد پر دوبارہ اقتدارمیں نہیں آسکتی ،اس لئے ایک بار پھر ملک کی سیاست کو مذہبی رنگ دیا جارہاہے ۔ہماری قومی سیاست مذہبی رنگ سے تو خیراب آزاد نہیں ہوسکتی کیونکہ پورے سال یہ رنگ ہر موضوع پر غالب رہتاہے ۔اس کے باوجود 2024 کے پارلمانی انتخابات سے 16 ماہ قبل رام مندر کے افتتاح کا اعلان کرنا یہ بتلا رہاہے کہ آیندہ پارلمانی انتخابات میں ’ہندتوا‘ کا ایجنڈہ مزید شدومد کے ساتھ اٹھایا جائے گا ۔ممکن ہے بعض لیڈروں کی طرف سے یہ اعلان بھی کردیا جائے کہ ہم 2024 کی فتح کے بعد ہندوستان کو باضابطہ ’ہندوراشٹر ‘ بنادیں گے ۔غرض کہ انتخابی مہم کے دوران نفرت کا ایجنڈہ حاوی رہے گا اور ملک کے باقی ماندہ سیکولر کردار کو ختم کرنے کی سعی کی جائے گی۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی لیڈر اپنی تقریروں کی جہت وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے رخ سے طے کرتے ہیں،اب جبکہ تری پورہ کی سرزمین سے امیت شاہ نے اپنےسیاسی رخ کا واضح اعلان کردیا ہے ،اب بی جے پی کے لیڈروں کے لئے اپنی تقریروں کی جہت اور موضوع معین کرنا مزیدآسان ہوگا۔
امیت شاہ نے تری پورہ میں اپنی تقریر کے دوران رام مندر کے افتتاح کا اعلان کرتے ہوئے کانگریس پر بھی سخت الفاظ میں تنقید کی ۔سوال یہ ہے کہ آیا رام مندر کی تعمیر اور اس کے افتتاح کا اعلان خوش گوار ماحول میں نہیں کیا جاسکتاتھا؟ اس کے لئے امیت شاہ سرکاری یا پارٹی کی سطح پر پریس کانفرنس بلاسکتے تھے ۔ایودھیا جاکر رامندر کے افتتاح کی تاریخ کا اعلان کرسکتے تھے ۔لیکن انہوں نے اس اعلان کے لئے تری پورہ کی سرزمین کو ہی کیوں منتخب کیا ؟اس کے لئے تری پورہ میں رونما ہونے والےاقلیت مخالف واقعات اور زعفرانی سیاست کی نفرت انگیزی کو ملاحظہ کیا جاسکتاہے ۔تری پورہ میں جس طرح مسلمانوں کو ویشوو ہندوپریشد کے کارکنوں نے اپنی بربریت کا نشانہ بنایا تھا،پورا ملک اس کا گواہ ہے ۔ان کی عبادت گاہوں کو جلایا گیا ۔عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں پر ظلم کیا گیا ۔نہتے مسلمانوں کو زدوکوب کیا گیا ۔پورے ملک میں تری پورہ کے مظالم کی گونج سنی گئی لیکن افسوس وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے بروقت کاروائی کے لئے کوئی مناسب اقدام نہیں کیا ۔اسی تری پورہ کی سرزمین سے رام مندر کے افتتاح کا اعلان کرنا ’ہندتوا‘ ایجنڈہ کے نفاذ کی ایک کوشش ہے ۔
امیت شاہ نے اپنی تقریرمیں راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا اور کانگریس کے سیاسی موقف کی جم کر تنقید کی ۔اس سے صاف ظاہرتھا کہ وہ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے خوف زدہ ہیں ۔ان کےپاس راہل کے بنیادی سوالوں کے جواب نہیں ہیں ۔وہ حکومت کی پرفارمنس کی بنیاد پر بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس لئے انہوں نے رام مندر کا سہارا لیا ۔یہ سہارا بی جے پی کو اقتدار میں لے کر آیا تھا ۔ممکن ہے کہ 2024 میں بھی رام مندر کی بنیاد پر ووٹ مانگ کر بی جے پی ایک بارپھر ملک کے اقتدار پر مسلط ہوجائے ،لیکن اس سے یہ تو معلوم ہوگیاکہ بی جے پی کے پاس ’رام مندر ‘ کے موضوع کے علاوہ دوسرا کوئی اہم موضوع نہیں ہے ۔اگر بی جے پی رہنما رام مندر پر تقریریں کرتے کرتے تھک جائیں گے تو پھر مسلمانوں کے سوشل بائیکاٹ اور ان کی نسل کشی جیسے زندہ موضوعات موجود ہیں ۔چین کی دراندازی پر کوئی بات نہیں ہوگی لیکن ہندوستانی مسلمانوں کو گھیرنے کے لئے پاکستانی دہشت گرد ی کو انتخابی تقریروں کا حصہ بنایا جائے گا ۔ملک کی ترقی کا ایجنڈہ بیان کرنے کے بجائے مسلمان خواتین کی ترقی کی بات ہوگی ۔حجاب اور طلاق کے مسائل کو مزید ابھارا جائے گا ۔مسلمانوں کے تشخص پر حملے تیز ہوں گے ۔سی اے اے اور این آرسی کو جلد از جلد نافذ کرنے کی بات کی جائے گی ۔المختصر ایسے مسائل کو ابھارا جائے گا جن کی بنیاد پر ’ہندوئوں ‘ کو متحد کیا جاسکے اور ہندوستان کی سیاست کو مزید زہریلا بنادیا جائے ۔ظاہرہے اس سیاسی دائو کا توڑ نہ راہل گاندھی کے پاس ہے اور نہ ملک کی کسی دوسری سیاسی جماعت اس سیاسی طلسم کو ختم کرسکتی ہے ۔جب تک ہندوستان کی عوام از خود بیدار نہیں ہوگی ،سحر سامری نہیں ٹوٹ سکے گا!
امیت شاہ نے جس طرح رام مندر کے افتتاح کا اعلان کیا اس سے اندازہ ہوجاتاہے کہ ان کے پاس تقریر کا دوسرا موضوع نہیں تھا ۔انہوں نے کہاکہ کانگریس نے ہمیشہ رام مندر کے مسئلے کو عدالتوں میں الجھاکر رکھا ۔کانگریس نہیں چاہتی تھی کہ رام مندر تعمیر ہوسکے ۔لیکن جیسے ہی نریندر مودی اقتدار میں آئے ، سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا ۔انہوں نے راہل گاندھی کو للکارتے ہوئے کہاکہ ’راہل گاندھی کان کھول کرسن لو،2024 تک رام مندر تعمیر ہوجا ئے گا‘۔اپنی اس تقریر میں وزیر داخلہ نے فقط راہل گاندھی کو ہی نہیں للکارا بلکہ ملک کے عدالتی نظام پر بھی سوال اٹھائے۔ان کے مطابق عدالتیں سیاسی اثر سے آزاد نہیں ہوتیں ،ورنہ اس جملے کے کیا معنی ہوسکتے ہیں کہ ’کانگریس نے آزادی کے بعدرام مندر کے مسئلے کو عدالتوں میں الجھائے رکھا‘۔کیا عدالتیں رام مندر قضیہ کا قانونی حل نہیں چاہتی تھیں ؟دوسرے انہوں نے کہاکہ جیسے ہی نریندر مودی اقتدار میں آئے سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا‘۔کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ وزیر اعظم مودی کے دبائو میں دیا گیا تھا؟ کیا اسی لئے جسٹس گوگوئی کو راجیہ سبھا کی کرسی بطور تحفہ دیدی گئی ؟اگرامیت شاہ کے بقول ہم یہ مان لیں کہ ملک کا عدالتی نظام ریاست کے زیر اثر ہوتاہے تو پھر ہمیں بابری مسجد کے خلاف دیے گئے جسٹس گوگوئی کے فیصلے پر کوئی حیرانی نہیں ہوگی۔ حجاب کے خلاف کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھا جاسکتاہے ؟اور اسی طرح کے ہزاروں فیصلے جن کے ذریعہ اقلیتوں کو یہ پیغام دیا گیاکہ ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے اب عدالتی نظام بھی ناکافی ہے ۔کیا امیت شاہ اپنی تقریر کے ذریعہ یہی پیغام عام کرنا چاہتے تھے کہ اب ہم جو چاہیں گے وہی کریں گے ؟اب اس ملک میں نہ عدالتیں آزاد ہیں اور نہ قاضی ۔اب نہ سرکاری ایجنسیاں خود مختار ہیں اور نہ سرکاری افسر قانون کے پابند ہیں ۔بلکہ یوں کہاجائے کہ اس تقریر کے ذریعہ آئین ہند پر سوال اٹھایا گیا۔یوں بھی نیا زعفرانی آئین زیر ترتیب ہے اس لئے امیت شاہ کی تقریر پر سوال اٹھانا ہی عبث ہے ۔
مختصر یہ کہ بی جے پی کی طرف سے 2024 کے پارلمانی انتخابات کا صور پھونکا جاچکاہے ۔یہ انتخابی مہم ملک کےباقی ماندہ سیاسی وقار اور سماجی قدروں کے خاتمہ کا سبب بن سکتی ہے ۔’ہندتوا ایجنڈہ ‘ کے نفاذ کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی ۔رام مندر کے افتتاح کے ذریعہ ملک کی سیاسی فضا کو مزید مکدر بنایا جائے گا ۔حالات مزید تشویش ناک ہوں گے ۔اقلیت مخالف نظریات کو مزید فروغ حاصل ہوگا اور ان کے تشخص پر حملوں کو انتخابی لایحۂ میں شامل رکھا جائے گا ۔اگر اب بھی مسلمان قائدین بیدار نہیں ہوں گے تو کب بیدار ہوں گے؟